امریکہ میں رہو‘ اردو سیکھو

حارث ‘ کراچی کے سعید اور صوفیہ پٹیل کا بیٹا ہے۔ واشنگٹن کے علاقے میں زیر تعلیم ہے اور دسویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ اس کے گجراتی بولنے والے والدین نے بس ایک ہی پابندی لگائی تھی: امریکہ میں رہ کر اردو بولنا‘ گھر کے اندر اور گھر سے باہر۔ وہ مادری زبان بھول گیا ہے اور انگریزی کے علاوہ صرف اردو بولتا ہے جب کہ بیشتر ہندوستانی اور پاکستانی بچے صرف انگریزی بولتے ہیں اور دوسری زبانوں سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ اردو سے اسی عشق کی بنا پر حارث کے والدین اسے کشاں کشاں انجمن ادب اردو (SOUL) کے ماہانہ اجلاس میں لے آئے اور اس نے ایک مضمون پڑھا جس سے اس کی اردو دانی کا اندازہ ہوا۔
1973 کے آئین کی رو سے پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانے کے لئے کہا گیا تھا اور اس حوالے سے اور دوسرے مقاصد کے لئے پندرہ سال کی مہلت دی گئی تھی۔ یہ مدت گزرے عرصہ ہو چکی مگر اب تک ملک کی سرکاری زبان انگریزی ہے ہر چند کہ سپریم کورٹ کے جج اب اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ انگریزی کی جگہ جلد اردو رائج کی جائے۔اردو کو سرکاری مقاصد کے لئے ذریعہ اظہار بنانے کی ذمہ داری حکومت یا انتظامیہ پر ہے۔سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے دلائل اور فیصلوں سے قطع نظر ملک بھر میں تعلیم و تعلم کے دونظاموں کی موجودگی بھی اس دوعملی کی یادگار ہیں جیسا کہ سی ایس پی کے امتحان کے حوالے سے حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے لکھا۔
جنوبی ایشیا کی دو عہد ساز شخصیتوں کی مادری زبان بھی گجراتی تھی۔ قائد اعظم اور مہاتما گاندھی نے ساری عمر غیر مذہبی سیاست کی اور جب پاکستان بن چکا تو گاندھی جی بھارت کے بعض نئے لیڈروں کے اعتراضات کے باوجود نئے ملک کی یاترا کے لئے تیار ہو گئے اور قتل کردیے گئے۔ بھارتی لیڈروں میں اس ذہنیت کے لوگ بھی تھے جس کی نمائندگی آج نریندر مودی کرتے ہیں۔ ان کی مادری زبان بھی گجراتی ہے اور ان کے عہد حکومت میں مذہب نے بڑی ترقی کی۔ جب وہ کراچی کی ہمسایہ بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو فروری 2000 گودھرا جنکشن کا سانحہ ہوا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق790 مسلمان اور 254 ہندو مارے گئے اور 233 لاپتہ ہوئے اور اس سانحے کی صدائے بازگشت صوبائی دارالحکومت احمد آباد تک سنی گئی۔ اس پر امریکہ میں ان کا داخلہ بند کر دیا گیا جو ان کے وزیر اعظم منتخب ہونے پر کھلا اور انہوں نے امریکہ آ کرکانگریس کے ایک اجلا س سے خطاب کیا۔ حالیہ انتخابات میں ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش ( یو پی) آبادی بیس کروڑ سمیت چار ریاستیں ان کے قبضے میں آ گئی ہیں۔ دریں اثنا پاکستان میں بھی مذہبیت تیزی سے پھیلی ہے گو بیشتر سیاسی جماعتیں اس کے منفی اثرات سے محفوظ ہیں۔ اس کا ایک ثبوت کراچی جا کر ہولی کے تہوار میں وزیر اعظم کی شرکت ہے جس میں انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا دین طاقت کے بل پر کسی کا مذہب تبدیل کرانے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ سندھ کے ہندوئوں کے ایک مطالبے کا جواب تھا۔
اس ادبی اجتماع میں اردو کے ایک استاد اور نقاد ڈاکٹر معظم صدیقی بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ نفسیاتی ماہرین طویل تحقیقات کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے والے لوگ زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت نے ان سکولوں کو گرانٹ دی جو زیا دہ زبانیں بولنے کی تدریس کا اہتمام کرتے ہیں۔ جدول میں 30 زبانیں شامل کرنے میں اوباما انتظامیہ کی کچھ سیاسی مصلحتیں شامل ہونگی مگر اردو لینے والے بچوں کی تعداد علاقے میں ہندوستانی اور پا کستانی بچوں کے مسلمان والدین کی گزشتہ ربع صدی میں نقل وطن کی عکاس ہے جن میں حارث کے والدین بھی شا مل ہیں۔ اردو کا مقام ان زبانوں میں پانچویں نمبر پر ہے جن کی تدریس کا اہتمام ان سکولوں نے کیا ہے۔ پہلے نمبروں پر ہسپانوی‘ عربی‘ جاپانی اور ہندی ہیں۔
مڈل سکول کے کم از کم دس بچے یا ان کے والدین پرنسپل کو اس مفہوم کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ طلبا اور طالبات اردو پڑھنا چاہتے ہیں تو پرنسپل صاحب یا صاحبہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر اردو متن اور استاد وغیرہ کا ا اہتمام کرتے ہیں اور اخراجات Start Talk میں ڈال دیتے ہیں جو اس پروگرام کا وفاقی سرکاری نام ہے۔ کئی یونیورسٹیوں نے اپنے وسائل سے اردو پڑھانے کا انتظام کیا ہے۔ ایک دفعہ کولمبیا کی صدر شعبہ لسانیات فران پرشت سے میں نے پوچھا: آپ کے طلبا کہاں سے آتے ہیں تو ان کا جواب تھا: جنوبی ایشیا سے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے پس منظر کے طلبا دو وجوہ سے اردو پڑھتے ہیں۔ اول کریڈٹ کی کشش اور دوم سیکھنے کی آسانی‘ کمیونٹی میں بول چال کی سہولت ان سے الگ ہے۔ اردو سیکھنے کے کریڈٹ دو ہیں اور جو طلبا کریڈٹ کا معنی جانتے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ کورس کے آخر میں دو کریڈٹ کا مفہوم کیا ہے؟
اس محفل کی صدر رضیہ فصیح احمد تھیں جو ہر سال انہی دنوں اپنے بچوں سے ملنے کراچی سے شکاگو آتی ہیں اور کچھ وقت واشنگٹن میں گزارتی ہیں‘ جہاں 'سول‘ ان کا استقبال کرتی ہے۔ یہ ان کی مسلسل دوسری صدارت تھی۔ میرے نزدیک رضیہ کی وجہ شہرت وہ افسانے تھے جو '' ماہ نو‘‘ میں شائع ہوئے۔ یہ حکومت پاکستان کا علمی و ادبی جریدہ تھا؛ تاہم ان کی پہلی کہانی 'ناتمام تصویریں‘ تھی جو 1948 میں عورتوں کے رسالے ''عصمت‘‘ میں چھپی اور جس میں مصنفہ نے اپنی بہن مرحومہ کی یادیں تازہ کی تھیں۔ ان کے شہکار ناول 'صدیوں کی زنجیر‘ کا انگریزی ایڈیشن کولمبیا اور دوسری امر یکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس ناول کی بنا پر انہوں نے 2007 کا احمد ندیم قاسمی ایوارڈ جیتا۔ مصنفہ نے بین الاقوامی میدان میں قدم رکھا ہے تو یہ بھی بتا دیا جائے کہ گزشتہ سال کراچی میں ''زخم تنہائی‘‘ کی رونمائی ہوئی جو نامور برطانوی مصنفین برونٹے سسٹرز کی زندگیوں پر انحصار کرتی ہے۔
رضیہ کے دوسرے ناول ایک درجن کے قریب ہیں۔ ان میں آبلہ پا‘ انتظار موسم گْلْ‘ تپتی چھاؤں‘ آتش کدہ‘ یہ خواب سرائے‘ ایک صدی کی کہانی‘ راستے اور منزلیں شامل ہیں۔ Breaking links کے نام سے انگریزی زبان میں بھی ایک ناول لکھا ہے جو 2006 میں شائع ہوا۔ ان کی کہانیوں کے بھی کوئی نصف درجن مجموعے چھپ چکے ہیں۔ غزلوں اور نظموں کے اتنے ہی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ ان میں قفس زاد بھی شامل ہے۔ فکشن کے بعد شعر کی دریافت ان کے لئے نئی ہے مگر خوب ہے۔
انور اقبال اس محفل کے ایک اہم شریک تھے۔ وہ انگریزی کے صحافی ہیں۔ انہوں نے ایک فارسی شاعر کی ایک نظم کا اردو ترجمہ پیش کرکے سب کو حیران کر دیا۔ سہراب سپہری‘ فیض احمد فیض کے ہم عصر تھے اور ان کے کلام سے اندازہ ہوا کہ وہ فیض کے ہم خیال بھی تھے۔ وہ 1980 میں سرطان سے جاں بحق ہوئے۔
سول کی نویں سالگرہ شمالی ورجینیا کے ایک ہوٹل میں منائی گئی۔ اس اجلاس کے صدر باقر رضوی تھے۔ واصف علی واصف اور خالدہ ظہور نیو یارک سے اور اشفاق حسن اور تقی عابدی کینیڈا سے تشریف لائے تھے۔ یوسف راحت‘ عزیز قریشی‘ عبدالرحمان صدیقی‘ راکیش چوپڑا‘ ستیا پال آنند اور اسد حسن وغیرہ یہاں سے شامل ہوئے اور نثر کے بعد مشاعرہ ہو گیا۔
حسب معمول یاسمین نغمی نے پروگرام ایک بج کر 29 منٹ پر شروع کیا۔ ایک ایسے وقت جب ساری دنیا میں بیشتر مسلمان اپنی تقریبات کو گھنٹوں کی تاخیر سے شروع کرتے ہیں واشنگٹن میں یہ ''روایت‘‘ مستحکم اور مضبوط ہوگئی ہے۔ ''انتیسواں منٹ ہے گھڑی دیکھ لیجئے‘‘ مرزا داغ دہلوی کے شہرہ آفاق شعر ''سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ پر اس سے بہتر تضمین اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ یہ قطعہ ان کے شوہر ابوالحسن نغمی نے لکھا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں