نئے گرین کارڈ کا اجرا

امریکہ میں آباد کاری کے خواہش مندوں کو مژدہ ہو کہ حکومت نے نیا گرین کارڈ جاری کرنا شروع کر دیا ہے۔ مستقل رہائش کی یہ دستاویز ہاتھ آنے کے بعد کم از کم دس سال کے عرصے میں سرکاری خط ملنے پر آپ شہریت کے لئے درخواست دے سکتے ہیں۔ ایک وفاقی جج شہریت کی سند پر دستخط کرتا ہے اور آپ اس کے سامنے اجتماعی یا انفرادی طور پر حلف لیتے ہیں۔ یہ منظر عام طور پر بڑا ہیجانی ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے آبائی ملک کی سیاسی تحریکوں میں حصہ لیا ہو یا طویل عرصہ تک سرکاری ملازمت کی ہو‘ اور یوں اپنی قوم کا چہرہ نکھارنے کی کوشش کی ہو۔ اس لئے امریکی شہریت کے امیدوار کے لئے حلفاً یہ بیان کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آج سے میں کسی راجے یا ریاست کی تابعداری نہیں کروں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا فرمانبردار ہوں گا اور وقت پڑنے پر اس کے دفاع کے لئے ہتھیار اٹھاؤں گا۔
یہ حلف اٹھانے پر آپ کو ووٹ کا حق مل جاتا ہے اور آپ ہر کاؤنٹی‘ ریاستی یا وفاقی منصب کے لئے الیکشن لڑنے کے اہل ہو جاتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کے لئے امیدوار کی امریکی پیدائش کا قابلِ تصدیق ثبوت ہونا لازم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں بارک حسین اوباما کی صدارت کے معترضین میں ایک گروپ پیدا ہو گیا تھا‘ جو اوباما کی امریکی پیدائش پر شک کرتا تھا۔ آپ اپنے قریبی رشتے داروں کو امریکہ میں مستقل رہائش کے لئے بلا سکتے ہیں۔ بلانے کے لئے یہ بیان دینا ہوتا ہے کہ رشتہ دار کے حکومت پر انحصار کی صورت میں آپ اس کے نان و نفقہ اور رہائش وغیرہ کے ذمہ دار ہوں گے‘ اور اس مقصد کے لئے وفاقی اور ریاستی انکم ٹیکس کے تازہ ترین گوشوارے پیش کریں گے۔ یہ عمل ایک شہری کی رشتہ دار کو ''بلانے‘‘ کی صلاحیت کم کر دیتا ہے مگر پھر بھی لوگ اپنے رشتے داروں کی جانب سے درخواستیں دائر کئے جاتے ہیں۔ دو پاکستانیوں نے بتایا کہ وہ کم و بیش ایک ایک سو رشتے داروں کو سپانسر کر چکے ہیں۔ کچھ پاکستانی‘ جنہیں اپنے ملک میں سرکاری ملازمت کی پیش کش ہونے کی امید ہوتی ہے‘ عمر کا بیشتر حصہ گرین کارڈ پر گزار دیتے ہیں اور باری آنے کے باوجود شہریت قبول نہیں کرتے۔
اوباما کی جگہ وائٹ ہاؤس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے سے نقلِ وطن کی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی‘ مگر باری کا انتظار طویل تر ہو گیا ہے۔ آخر یہ مائیگرنٹس کا ملک ہے اور کشتیاں جلانے والے‘ خواہ وہ غیر قانونی ہی کیوں نہ ہوں‘ اس ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ براعظم جنوبی امریکہ کے ملکوں سے پناہ گیروں کی غیر قانونی آمد روکنے کے لئے صدر ٹرمپ نے میکسیکو کی بین الاقوامی سرحد پر دیوار تعمیر کی کوشش کی‘ مگر اب تک انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ نئے گرین کارڈ کا انتظامیہ کی تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں۔ محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی‘ جس کے ماتحت شہریت اور نقلِ وطن کی سروسز (US-CIS) ہیں‘ ایک عرصے سے شہریت کے قانون کی عملداری کو جعلسازی اور فریب دہی کے چنگل سے نکالنا چاہتا تھا۔ نئے کارڈ میں زیادہ بڑے گرافکس ا ستعمال کئے گئے ہیں اور اس میں فراڈ کو دور رکھنے کے زیادہ واضح انتظامات کئے گئے ہیں۔ اس طرح نیا گرین کارڈ زیادہ محفوظ دستاویز بن گیا ہے۔ اس میں دونوں طرف کارڈ والے کی تصویر نظر آئے گی‘ اور ایک نادر گرافک امیج اور رنگوں کی بہار دکھائے گا۔ کارڈ پر مجسمہء آزادی کی‘ جو کبھی نیو یارک میں نقل وطن کرنے والوں کا پہلا پڑاؤ ہوتا تھا‘ تصویر ہو گی‘ جس کا پس منظر بڑی حد تک سبز ہو گا۔ ورک پرمٹ (EAD) جو بالعموم میکسیکو کے شہریوں کو دیے جاتے ہیں‘ پر ایک گنجے عقاب کی‘ جو اس ملک کا قومی نشان ہے‘ شکل ہو گی اور اس کا پس منظر سرخ ہو گا۔ اس کے اندر ہولوگرافک تصورات ہوں گے۔ فرد کے دستخط نہیں ہوں گے۔ جنوبی ہمسائے میکسیکن عام طور پر فصلوں کی کٹائی یا پھل چننے کے موقع پر آتے ہیں‘ اور واپس چلے جاتے ہیں۔ گرین کارڈ اور ورک پرمٹ‘ جو جاری ہو چکے‘ اس وقت تک چلیں گے جب تک کہ ان کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی۔ نئے گرین کارڈ کی پشت پر چمکدار پٹی ( آپٹیکل سٹرپ) دکھائی نہیں دے گی۔
پاکستان کو بھی اس سے ملتے جلتے حالات کا سامنا ہے۔ محنت کش افغان‘ نوآبادیاتی دور میں سفری دستاویز کے بغیر انگریز کی عملداری میں داخل ہوتے تھے اور لوگوں کی چھریاں چاقو اپنے کندھے پر اٹھائی مشین سے تیز کرکے یا کچی مٹی کی اینٹیں بنا کر یا خشک میوہ جات فروخت کرکے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے۔ ٹیگور نے ''کابلی والا‘‘ کے عنوان سے ایسے ہی ایک بزرگ افغان اور ایک کم سن ہندوستا نی بچی کی لازوال دوستی کی کہانی بھی لکھی ہے۔ سرحد اور پنجاب کے لوگ انہیں پائوندے کہا کرتے تھے اور وہ آگے دلی اور بنگال تک جا پہنچتے تھے اور ان میں سے بعض وہاں آباد ہو جاتے تھے۔ پھر پاکستان بنا تو عام افغانوں میں نئی حقیقت کا ادراک مشکل تھا۔ اب نئے ملک میں ''سود خور پٹھان‘‘ کا راج تھا‘ جو ریلے کی نئی بائیسکل کو ریشمی رومالوں سے سجائے‘ سائیکل کی گھنٹی بجاتا شہر کے گلی کوچوں سے گزرتا تھا‘ تو مقروض کا دل بیٹھ جاتا تھا۔ کابل اب بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے نفاذ کے لئے خون خرابے کی صورت میں آج بھی کبھی طورخم اور کبھی چمن کی سرحد بند کرنا پڑتی ہے۔
کچھ گرین کارڈ اور ورک پرمٹ‘ جو یکم مئی 2017ء کے بعد جاری کئے گئے ہیں‘ شاید اب بھی پرانے ڈیزائن کے حامل ہوں کیونکہ نقلِ وطن اور شہریت کا ادارہ انہیں استعمال کرتا رہے گا‘ تاوقتیکہ ان کا سٹاک ختم نہیں ہو جاتا۔ کون سے ورک پرمٹ محفوظ ہیں؟ یہ جاننے کے لئے آپ انٹرنیٹ پر انحصار کر سکتے ہیں۔ فارم I-9 کے لئے دونوں کے متن قبول کئے جائیں گے۔ جن افراد کے پاس لامتناہی گرین کارڈ ہیں وہ شاید متبادل کے لئے درخواست دینا پسند کریں۔ ایسا کرنے سے کارڈ کی چوری یا اس میں غیر قانونی (فراڈ) رد و بدل کا امکان کم ہو جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں