گزشتہ دنوں اخبار میں ایک دردناک داستان چھپی۔یہ سبزہ زار لاہور کے بوڑھے میاں بیوی اور ان کی پانچ بچیوں کے بارے میں تھی۔ بزرگ کی عمر غالباً ستر برس سے زائد تھی اور یہ رکشہ چلاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ لوگ گزر بسر کے لیے ایک کام اور کرتے تھے۔ ہفتے میں تین روز لاہور میں سستا بازار لگتا ہے۔ یہ میاں بیوی اور بچیاں گھر سے کھانا پکاتے‘ بڑے پتیلوں میں ڈالتے اور رکشے میں رکھ کر ان بازاروں کے قریب لے جاکر کھڑے ہو جاتے۔ چھوٹی بچیاں برتن دھونے اور گاہکوں کو کھانا دینے کا کام کرتیں جبکہ بزرگ جوڑا کھانا ڈالنے وغیرہ کا اہتمام کرتا۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ یہ کہیں دکان لے کر یہ کام کر لیتے چنانچہ مجبوراً رکشے کو ہی دکان بنانا پڑا۔ ویسے بھی ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لئے زیادہ بھاگ دوڑ ان کے لیے ممکن نہ تھی۔ اس کے باوجود یہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے تھے۔ابھی انہوں نے تین یا چار بار ہی یہ موبائل دکان لگائی تھی کہ ایک روز پولیس کے کچھ اہلکار وہاں آئے۔ بزرگ کے ساتھ بدتمیزی سے بولے۔ ''بڈھے اگر کاروبار کرنا ہے تو ہمارا حصہ نکال۔‘‘ بزرگ کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے جتنے وہ طلب کر رہے تھے‘ جس پر ایک پولیس والے کو غصہ آ گیا ‘اس نے اس کے برتن الٹا دئیے اور دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ اگر آئندہ یہاں کا رخ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔ بزرگ کیا کرتے‘ چپ چاپ وہاں سے چلے آئے ۔ موبائل ہوٹل کا کام اس لیے شروع کیا تھا کہ رکشا چلانے سے ان کی آمدنی پوری نہیں ہو رہی تھی کیونکہ سی این جی مل نہیں رہی تھی اور ایل پی جی روز بروز مہنگی ہو رہی تھی۔ پٹرول پر رکشہ چلا کر بچت ممکن نہ تھی۔ اب پولیس کی جانب سے بھتہ طلب کرنے کے بعد ان کی یہ دکان بھی بند ہو گئی تھی۔ پانچ بیٹیوں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہنے والا یہ بزرگ جوڑا کس حال میں ہے ‘ یہ خدا جانتا ہے لیکن اس واقعے سے یہ معلوم ہو گیا کہ بھتہ مافیا کیوں پنپ رہا ہے اور اس کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔ میں نے عمران تنویر نامی نوجوان کی ایک کہانی لکھی تھی۔ اس نوجوان نے پاکستان میں کاروبار کرنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوا لیکن اسے بھی بھتہ مافیا لے ڈوبا۔ اس نے وزیراعلیٰ پنجاب سے لے کر چیف جسٹس سپریم کورٹ تک کو درخواستیں بھیجیں لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ گزشتہ برس سپریم کورٹ کے ہیومن رائٹس سیل نے بھی اس کی درخواست کو اس قابل نہ سمجھا کہ اس پر کوئی ایکشن لیا جائے۔ میں یہ خط کالم کی نذر کر رہا ہوں:
قابل احترام
جسٹس تصدق حسین گیلانی
چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان
السلام علیکم!
میرا نام عمران تنویر ہے اور میں یہ خط سپریم کورٹ کو تیسری مرتبہ لکھ رہا ہوں۔میں گزشتہ برس سے جرمنی میں مقیم ہوں۔ میں یہاں کیسے پہنچا‘ یہ آپ کو میرے خط سے معلوم ہو جائے گا۔ میں 30اپریل 2013ء تک پاکستان میں تھا۔لیکن مجھے اور میری فیملی کو جب قتل کی دھمکیاں ملیں تو مجبوراً مجھے ہجرت کرنا پڑی۔وطن چھوڑنے سے پہلے بھی میں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں اپنی بیوہ والدہ کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میری چار بہنیں ہیں۔25جنوری 2012ء میری زندگی کا سیاہ ترین دن تھا۔ اس روز میری بیوی گاڑی پر قریبی مارکیٹ گئی۔ گاڑی میں میرا اڑھائی سالہ بیٹا دائود عمران بھی تھا۔میری بیوی گاڑی پارک کر رہی تھی کہ نامعلوم افراد نے گن پوائنٹ پر میرے بیٹے کو اغوا کر لیا ۔چند روز بعد انہوں نے پچاس لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ میں نے پچاس لاکھ روپے کا انتظام کیا اور اس کے عوض مجھے میرا بیٹا مل گیا۔ میری زندگی‘ میری فیملی او ر میرا کاروبار‘ اس واقعے نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا۔ میں ٹیلی کام اور سکیورٹی کے آلات درآمد کرتا تھا ‘سالانہ کروڑوں کماتا تھا اور پورا پورا ٹیکس بھی ادا کرتا تھا۔ اس واقعے کے بعد مجھے ملک چھوڑنا پڑا اور میں جرمنی چلا آیا۔ بھتہ مافیا سے ہماری جان چھوٹی تو قبضہ مافیا سامنے آ گیا۔ صادق آباد میں ہماری زرعی اراضی ہے جس پر بااثر افراد قابض ہیں۔ یہ لوگ بھی ہمیں ہمارا جائز حق دینے اور قبضہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔ ہم اپنا حق مانگتے ہیں تو جواب میں دھمکیاں ملتی ہیں۔ ان دھمکیوں کے ڈر سے میری والدہ تین مرتبہ گھر تبدیل کر چکی ہیں۔ وہ اکیلی کس کس سے لڑیں۔ میں انہیں اور بہنوں کو بھی یہاں بلا لینا چاہتا ہوں لیکن ابھی تک انہیں ویزا نہیں مل سکا۔ آپ ہی بتائیں کہ ہم لوگ کہاں جائیں۔ ہم ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں لیکن ہمیں ہمارے حقوق بھی نہیں ملتے۔ ہم ملک نہ چھوڑیں تو کیا کریں۔ ہم پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ اپنی مٹی میں جینا اور مرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں آپ کی توجہ‘ آپ کا انصاف چاہیے۔ ہمیں بھتہ اور قبضہ مافیا سے نجات دلائیے۔یہ آپ کا لاکھوں لوگوں پر احسان ہو گا۔
دُعا گو!
عمران تنویر
یہ درخواست یقینا چیف جسٹس تک پہلے ہی پہنچ چکی ہو گی‘ میں نہیں جانتا کہ اس درخواست پر کوئی ایکشن ہوتا ہے یا نہیںلیکن اس وقت مجھے وزیراعظم پاکستان کے وہ الفاظ یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ دنوں یوتھ بزنس لون سکیم کی پہلی قرعہ اندازی کی تقریب میں کہے۔ انہوں نے اس پروگرام کو شاندار قرار دیا اور کہا یہ ملک کی تقدیر بدل دے گا۔ بے شک۔ ایسا ہو گا لیکن اس وقت جب کوئی کاروبار چلے گا بھی۔ ان حالات میں اگر کوئی کاروبار چل بھی جاتا ہے تو اس کا انجام خدانخواستہ عمران تنویر سے مختلف نہیں ہو گا۔ اگر ہمارے نوجوان لوڈشیڈنگ‘ مہنگائی اور دہشت گردی کے دور میں بھی منافع کمانے میں کامیاب ہو گئے‘ ان کا کاروبار چل نکلا تو یہ پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کے بھتہ مافیا کی زد میں آ جائیں گے اور اگر یہ ان سے بھی بچ گئے تو بھتہ گینگز کا نشانہ بن جائیں گے۔ صرف طالبان کے حوالے سے یہ خبریں آئی ہیں کہ یہ سوا ارب روپے ماہانہ سے زائد بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ ان حالات میں لاکھوں میں سے کوئی ایک ہی خوش نصیب ہو گا جو اس پل صراط سے صحیح سلامت گزر جائے گا۔ ہمارے حکمران بھی عجیب ہیں‘ یہ نوجوانوں کو ایسی گاڑی میں بٹھا رہے ہیں جس میں بریکیں ہی موجود نہیں ‘یہ انہیں ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانے کی ترغیب تو دے رہے ہیں لیکن پیرا شوٹ مہیا نہیں کر رہے اور یہ کاروبار کے لیے قرض تو دے رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ بھتہ مافیا کو بھی کھلی چھوٹ دے رہے ہیں اور اس کے باوجود امید لگار ہے ہیں کہ نوجوان کامیاب بھی ہو جائیں گے اور ملک کی معیشت بھی بدل ڈالیں گے۔ کتنے ''سادہ‘‘ ہیں ہمارے حکمران ۔