"ACH" (space) message & send to 7575

بغیر مطلب کے!

کسی قریبی عزیز یا دوست کی رحلت کے موقع پر سب سے پہلے جو خیال دل کو چھلنی کرتا ہے وہ یہی ہوتا ہے کہ کاش زندگی میں اس شخص کے ساتھ کچھ وقت مزید گزارا ہوتا‘ وقت نکال کر‘ بغیر کسی مطلب کے‘ کچھ ایسی ملاقاتیں بھی کی ہوتیں جن میں کھل کر بات کی ہوتی‘ قہقہے لگائے ہوتے‘ ماضی کی یادوں کو کریدا ہوتا اور سیاست اور معیشت سے ہٹ کر بھی کچھ کہا ہوتا‘ کچھ سنا ہوتا۔ مگر تدفین کے کچھ دن‘ کچھ ہفتے بعد ایسے خیالات ذہن سے محو ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسان روزہ مرہ کی مصروفیات اور کام کاج کے جال میں اتنا پھنس جاتا ہے کہ اورکچھ یاد بھی نہیں رہتا اور وہ اپنی مشینی زندگی میں دوبارہ سے ایک پرزے کی مانند گھسٹنے لگ جاتا ہے۔
کسی قریب ترین رشتہ دار یا بہت پیارے دوست کی جدائی کا صدمہ جھیلنا ناقابلِ برداشت حد تک مشکل ہوتا ہے۔ کچھ بڑے دل والے افراد اس طرح کے صدمات کو بھی حوصلے سے سہہ لیتے ہیں جبکہ کئی بظاہر انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک افراد بھی ایسے لمحات میں ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ جدائی کسی کی بھی ہو‘ ایسے مواقع پر جو خیالات اجاگر ہوتے ہیں وہ زندگی کے معمولات میں آنے والے خیالات سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ اگر چپ چاپ منوں مٹی تلے جا بسنا ہے تو زمین کے اوپر یہ جو چکاچوند دکھائی دے رہی ہے‘ یہ جو مخمل کے بستر‘ سونے چاندی کے برتن‘ زرق برق تقریبات‘ بلند و بالا عمارات اور یہ جو کھیل تماشا لگا ہوا ہے‘ کہیں یہ موت جیسی اٹل حقیقت پر کچھ دیر کے لیے پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش تو نہیں ہے؟
گزشتہ روز معروف بیورو کریٹ‘ ممتاز مصنف‘ اعلیٰ پائے کے مترجم‘ شاعر‘ گورنمنٹ کالج کے مجلے 'راوی‘ کے ایڈیٹر‘ انتہائی نفیس انسان‘ وحید رضا بھٹی کے انتقال کی خبر ملی تو کچھ وقت کے لیے تو یقین ہی نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ کیا موت کسی ہنستے مسکراتے زندہ دل انسان کو بھی یوں ساتھ لے جانے پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ ''مسکراہٹ میں زندگی ہے بلکہ مسکراہٹ ہی زندگی ہے‘‘ یہ انہیں دیکھ کر ہی جانا اور سمجھا۔ اسی لیے جب کوئی ایسا انسان رخصت ہو جائے جس سے آپ جب بھی ملیں‘ وہ اپنے مسائل اور دُکھوں سے بے نیاز ہو کر ہمیشہ آپ سے یوں ملتا ہو جیسے غم نے اسے چھوا تک نہ ہو تو دُکھ نسبتاً زیادہ ہوتا ہے اور پھر دل کو یہ سوچ کر تسلی دی جاتی ہے کہ موت تو زندگی کی وہ کڑوی گولی ہے جسے ہر کسی نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے‘ کبھی نہ کبھی نگلنا ضرور ہے۔ نہ انسان اپنی مرضی سے دنیا میں آتا ہے نہ یہاں سے اپنی مرضی سے جاتا ہے۔ وہ کسی بھی مقام پر پہنچ جائے‘ اسے جامِ فنا پی کر ہی رہنا ہے۔ بسا اوقات وہ موت سے آنکھیں یہ سوچ کر چراتا ہے کہ اس کا وقتِ رخصت ابھی بہت دُور ہے۔ اپنے اردگرد روزانہ کئی اموات کی خبریں سن کر اور اپنے قریب ترین عزیزوں کو لحد میں اتارنے کے بعد بھی ہر اگلی موت پر کھڑا خود سے یہ سوال کرتا نظر آتا ہے کہ کیا ایسا واقعی ہو سکتا ہے کہ چند منٹ‘ چند دن پہلے جس شخص سے ہنستے کھیلتے ملاقات کی ہو‘ وہ چپ چاپ بغیر بتائے اگلی منزل کی جانب روانہ ہو جائے؟
زندگی تو سبھی جیتے ہیں لیکن کم ہی لوگ اس خوش دلی کے ساتھ جیتے ہیں جس طرح وحید رضا بھٹی ایسے لوگ جیے ہوں گے۔ وہ والد محترم اسد اللہ غالب کے ہم عمر‘ ہم جماعت اور ان کے دیرینہ دوست تھے۔ میری ان کے ساتھ زیادہ تر ملاقاتیں والد صاحب کے ساتھ کسی تقریب میں ہی ہوئیں۔ وہ ہمارے گھر بھی تشریف لاتے رہے۔ کچھ سال قبل میری کالموں کی کتاب ''کل اور آج‘‘ شائع ہوئی تو گورنر ہائوس میں کتاب کی تقریبِ رونمائی کے دوران اُٹھ کر میرے پاس آ گئے اور کہنے لگے: بھتیجے! میری کتاب کہاں ہے؟ میں سوچنے لگا کہ بھلا میں ایسا کیا لکھتا ہوں جو اس قدر سینئر آدمی مجھ سے کتاب کا مطالبہ کر رہا ہے۔ وہ مگر کتب بینی اور مطالعے کے رسیا تھے اور یہی ان کی کامیابی کی وجہ تھی۔ لاتعداد شعر اور اہم ریفرنسز انہیں زبانی یاد تھے۔ اچھی کتاب دیکھ کر ایسے خوش ہوتے جیسے آج کے بچے یا نوجوان برگر‘ پیزا یا نئے موبائل فون کا سن کر کِھل اُٹھتے ہیں۔ بیس سال قبل جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا تو کیریئر گائیڈنس کے لیے انہیں ملنے کے لیے ان کے دفتر چلا گیا مگر وہاں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس تپاک اور احترام سے ملے جیسے کسی ہم عمر دوست کو ملا جاتا ہے۔ ان کے اس رویے اور اس محبت نے دل میں گھر کر لیا حالانکہ کوئی سرکاری افسر‘ جو اپنے محکمے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ہو‘ خواہ وہ آپ کے والد کا دوست یا کوئی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو‘ اس جذبے سے دور پار کے لوگوں کو کم ہی ملتے دیکھا ہے۔ کچھ دفتر کی مصروفیات اور کچھ اعلیٰ عہدے کا خمار ایسا ہوتا ہے کہ کم ہی لوگ عام ملنے جلنے والوں کو اس طرح وقت اور اہمیت دے پاتے ہیں۔
وحید رضا بھٹی ایک راوین‘ ہمہ جہت شخصیت کے مالک‘ بہترین افسانہ و نثر نگار تھے۔ ان کی تحریروں کا اسلوب اور سلاست انہیں دیگر ادبا سے ممتاز کرتی ہے۔ ترجمہ تو سبھی کر لیتے ہیں اور آج کل تو گوگل ٹرانسلیٹ بھی ترجمہ کر دیتا ہے لیکن ان کا منفرد اعزاز یہ تھا کہ ان کے کئی تراجم اصل تحاریر سے زیادہ دلچسپ‘ جاندار اور پڑھنے لائق ثابت ہوئے۔ انگریزی کو اردو کے اسلوب میں اس طرح ڈھالنا کہ مصنف اور تحریر کا مقصد واضح ہو جائے‘ کافی مشکل کام ہے لیکن وہ یہ کام نہایت خوبصورتی سے سرانجام دیتے تھے جس کی ایک جھلک عبدالمجید شیخ کی ایوارڈ یافتہ کتاب ''قصے لاہور کے‘‘ میں صاف دیکھی جا سکتی ہے جسے اردو میں پڑھنے کے بعد یقین ہی نہیں ہوتا کہ اسے ترجمہ کیا گیا ہے۔ بھٹی صاحب کی نمازِ جنازہ میں جناب مجیب الرحمن شامی اور شعیب بن عزیز کی آنکھیں پُرنم تھیں کہ دوستوں کا دوست رخصت ہو رہا تھا۔ ایسے وقت میں بھی ان کی بیٹیوں کا حوصلہ دیدنی تھا اور بہترین انداز میں کی گئی عمدہ تربیت صاف دکھائی دے رہی تھی۔
انسان کا موت کے ساتھ سب سے پہلا تعارف عموماً تب ہوتا ہے جب بچپن میں اس کے دادا‘ دادی یا نانا‘ نانی میں سے کوئی وفات پا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر بچے آپس میں ایک دوسرے سے بس یہی پوچھتے رہتے ہیں کہ دادو یا نانو کو کیا ہوا ہے؟ کیا وہ اب کبھی نہیں اٹھیں گے؟ پھر بیس سے تیس برس کی عمر میں کسی تعلق دار‘ کسی عزیز یا دوستوں کے والدین میں سے کسی کا انتقال ہوتا ہے تو پہلی بار یہ احساس ہوتا ہے کہ موت نامی حقیقت ہمارے آس پاس ہی کہیں موجود ہے ۔ چالیس سے پچاس برس کی عمر کے دوران اکثر افراد کے والدین جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو پھر انہیں یقین آنے لگتا ہے کہ اب موت سے ان کا فاصلہ کم ہو رہا ہے۔ پچاس سے ساٹھ برس کے دوران کوئی قریبی دوست‘ کسی ہم عمر‘ یا بہن بھائیوں میں سے کوئی انتقال کر جائے تو موت جسم میں جھرجھری لیتی محسوس ہوتی ہے کہ موت سے ملاقات اب زیادہ دُور کی بات نہیں رہی۔ موت کا خوف اپنی جگہ لیکن زندگی بہرحال جینے کے لیے ہی ہے۔ بیشتر انسان زندہ تو ہیں لیکن زندہ نظر نہیں آتے کہ خود کو زندہ دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے‘ اوروں کی راہ سے کانٹے چننا پڑتے ہیں اور میل ملاقات میں خوش گفتاری اور خوش کلامی دکھانا پڑتی ہے۔ زندگی کی کہانی میں مسلسل دُکھ چلتے رہتے ہیں نہ ہی سدا خوشیاں حاوی رہتی ہیں۔ ہر رات کے بعد اُجالا اور ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے۔ زندگی کی حقیقت یہی ہے اور اس حقیقت کو سمجھنے والا جان لیتا ہے کہ زندگی کو کیسے جینا ہے۔ زندگی کو جینے کا ایک بہترین انداز یہ ہے کہ لوگوں سے ملتے جلتے رہا جائے‘ اُن کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ ان کے غم میں بھی شریک ہوا جائے اور کبھی کبھار بغیر کسی وجہ کے بھی ان سے مل لیا جائے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے یہ تاثر نہیں ابھرے گا کہ ملاقات کسی مطلب یا کسی ضرورت کے تحت کی جا رہی ہے اور ایسی ملاقات کے بعد جو خوشی حاصل ہو گی‘ اس کی مٹھاس اور ذائقہ بے مثال ہو گا اور جو یادیں ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہوں گی‘ وہ دونوں افراد کے لیے قیمتی متاع اور سرمایۂ حیات بن جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں