ویسے تو ہر کوئی نئے سال کے لیے پلاننگ کرتا ہے لیکن یہ پلاننگ تبھی کامیاب ہو پاتی ہے جب ایسے حالات و واقعات بھی ٹھیک چلتے رہیں جو انسان کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں، جیسے کہ ڈالر کا تیزی سے بڑھنا‘ کورونا جیسی بیماریوں کا آنا وغیرہ۔ ایک بندہ اگر سوچتا ہے کہ وہ اس سال موٹر سائیکل یا گاڑی لازمی لے گا یا ان کا ماڈل تبدیل کرے گا تو ضروری نہیں کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہو۔ اسی طرح کچھ لوگ اپنی صحت کو لے کر بھی کئی گولز سیٹ کرتے ہیں لیکن پاکستان جیسے ممالک میں صحت کو برقرار رکھنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں کہ جہاں فضا ہی اس قابل نہیں رہی کہ اس میں سانس لیا جا سکے۔ جہاں سانس تک لینا دشوار ہو چکا ہو‘ وہاں کیسی صحت اور کیسی پلاننگ؟ جس طرح پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کبھی بھی کچھ بھی رزلٹ دے سکتی ہے کچھ ایسا ہی حال پاکستان کی معیشت کا بھی ہے۔ کبھی یہاں کوئی شعبہ اچھا چلنے لگتا ہے تو کبھی کوئی۔ مستقبل مزاجی نہ عوام میں ہے اور نہ ہی حالات ایک جیسے رہتے ہیں۔اب آپ اس خبر کو ہی لے لیں جس کے مطابق گزشتہ سال نئی گاڑیوں کی فروخت میں 65 فیصد تک کی کمی آئی۔ اس کی بنیادی وجہ ڈالر کا بے قابو ہونا اور سی کے ڈی کٹس کی درآمد میں تاخیر ہے جس نے گاڑیوں کی قیمتوں کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔2022ء میں جب ڈالر نے اونچی اڑان بھرنا شروع کی تھی تو اس کی وجہ سے ہر ہفتے‘ ہر مہینے کسی نہ کسی کار کمپنی کی طرف سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی اَپ ڈیٹ آ جاتی تھی۔ یہی کچھ موٹر سائیکل انڈسٹری کے ساتھ ہوا اور یوں موٹر سائیکل‘ جو غریب یا عام آدمی کی سواری سمجھی جاتی تھی‘ وہ بھی دسترس سے باہر ہو گئی۔
اس وقت نئی ستر سی سی موٹر سائیکل ڈیڑھ لاکھ سے اوپر چلی گئی ہے جبکہ سوا سو یا ڈیڑھ سو سی سی موٹر سائیکلوں کی قیمت پانچ لاکھ کی حدوں کو چھو چکی ہے۔چار‘ پانچ سال قبل اتنے میں پرانے ماڈل کی ایک اچھی گاڑی مل جاتی تھی لیکن اب ایسا سوچنا بھی محال ہے اور آٹھ سو سی سی‘ تیس چالیس سال پرانی گاڑی کے بھی اب سات‘ آٹھ لاکھ روپے مانگے جا رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ موٹرسائیکلیں تو دور کی بات اب سائیکل بھی غریب کی پہنچ میں نہیں رہی اور سائیکلوں کی قیمتیں بھی تیس‘ چالیس ہزار روپے تک پہنچ گئی ہیں۔یہ صورتِ حال بہت زیادہ الارمنگ ہے کیونکہ لوگوں کی آمدنی وہیں کی وہیں ہے جبکہ سفر کے اخراجات بڑھنے سے ان پر اضافی بوجھ آن پڑا ہے۔طالب علموں کے لیے یہ بات زیادہ پریشان کن اس لیے ہے کیونکہ ان کے تعلیمی اخراجات پہلے ہی ہوشربا ہیں‘ اس پر سفری اخراجات مرے کو مارے شاہ مدار ثابت ہورہے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ میں بھی کرائے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں۔
پٹرول کی قیمت میں اگرچہ کچھ کمی ہوئی ہے مگر ایک وقت میں یہ سوا تین سو روپے تک چلا گیا تھا۔ 2022ء کے مقابلے میں پٹرول سو روپے فی لٹر سے بھی زیادہ مہنگاہو چکا ہے۔یہ بات اس حد تک درست ہے کہ کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اب مہنگائی پوری دنیا میں کئی گنا بڑھ چکی ہے اور اس نے عام آدمی کی قوتِ خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن جدید ممالک میں پھر بھی کچھ نہ کچھ حکومتی ریلیف اور فنڈز وغیرہ میسر ہوتے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ملک میں سارا بوجھ غریب عوام اور شہریوں نے خود برداشت کرنا ہوتا ہے۔ ویسے تو بچت کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا لیکن اگر کوئی کسی طرح کچھ پیسہ بچانے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تو کوئی نہ کوئی آفت ایسی آن ٹپکتی ہے کہ ساری کی ساری سیونگز بھک سے اُڑ جاتی ہیں۔اور کچھ نہیں تو علاج معالجے کے اخراجات ہی چین نہیں لینے دیتے۔عام بیماریاں تو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی ہتی ہیں لیکن سموگ نے تو ساری کسر نکال دی ہے۔ سردیوں میں دھند دیکھ کر یہ بھی پتا نہیں چلتا کہ یہ سموگ ہے‘ خالص فوگ ہے یا دونوں کی ملاوٹ ہے۔ ملاوٹ کی صورت میں تو یہ اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے کیونکہ سردی میں عام نمونیا ہوتا ہے لیکن سموگ کے مضر صحت اجزا پھیپھڑوں کو ایک نئے طریقے سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ماہرینِ صحت نے ایک ایسا خوفناک انکشاف کیا ہے جسے پڑھ کر جسم میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے۔ سموگ‘ جو بظاہر اتنی خطرناک معلوم نہیں ہوتی‘ حقیقت میں خاموش قاتل ثابت ہو رہی ہے اور اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ پھیپھڑوں میں اپنے پنجے پوری طرح گاڑ چکی ہوتی ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے کراچی کے علاوہ لاہور سے دہلی اور گردو نواح کے علاقوں میں بدترین سموگ کی وجہ سے کھانسی‘ دمہ‘ بخار اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں خطرناک اضافہ دیکھا گیا ہے۔متاثر ہونے والی زیادہ تعداد ان افراد کی ہے جو کھلی فضا میں کام کرتے ہیں یا موٹر سائیکل پر زیادہ سفر کرتے ہیں اور براہ راست ہوا کو تیزی کے ساتھ اندر لے کر جاتے ہیں۔ اب ہر کوئی گاڑی تو افورڈ نہیں کر سکتا اور موٹر سائیکل چلانا ایک مجبوری بن چکی ہے، اکثر لوگ ماسک اور ہیلمٹ کا بھی استعمال نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ جلد یا بدیر‘ اس عفریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستانی ماہرینِ امراضِ سینہ اور آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پھیپھڑوں کے کینسر اور دوسرے امراض کا علاج کرنے والے سرجن ڈاکٹروں نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سموگ کی وجہ سے بیشتر متاثرہ لوگوں کے پھیپھڑوں کا رنگ تبدیل ہونے لگا ہے۔ دو‘ تین عشرے قبل تک عام آدمی کے پھیپھڑوں کا رنگ گلابی (پنک) ہوا کرتا تھا جبکہ اب کئی سالوں سے پھیپھڑوں کا کلر پنک کے بجائے سیاہی مائل ہو چکا ہے جو اس سے پہلے پچاس‘ ساٹھ سال کی عمر کے عادی سگریٹ نوشوں کے پھیپھڑوں کا رنگ ہوا کرتا تھا اور پھیپھڑے آہستہ آہستہ کینسر کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ معالجینِ امراضِ سینہ کا کہنا ہے کہ فوگ چونکہ گاڑیوں‘ فیکٹریوں‘ بھٹوں اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے سے پیدا ہونے والے دھویں سے مل کر مضرِ صحت بن جاتی ہے‘ اسی لیے مرد‘ عورتوں‘ بزرگوں اور بچوں یعنی ہر عمر کے افراد کے اس ہوا میں سانس لینے سے یہ امراض بڑھ رہے ہیں۔ معالجین نے برملا کہا کہ سموگ کی آلودگی انسانی جانوں کیلئے شدید خطرناک ثابت ہو رہی ہے اور اس وجہ سے ایک نیا وائرس پھیپھڑوں کو متاثر کر رہا ہے لہٰذا ایسے علاقوں کے باشندوں کو‘ جہاں فوگ اور سموگ زیادہ ہے‘ ماسک کا استعمال باقاعدہ بنیادوں پر کرنا چاہئے۔ نئے وائرس میں مبتلا روزانہ چالیس سے پچاس مریض ہسپتالوں اور کلینکس میں آ رہے ہیں۔ بچے اور بزرگ نئے وائرس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔پنجاب کے نگران وزیر صحت نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ یہ وائرس کورونا کا کوئی نیا ویری اینٹ بھی ہو سکتا ہے؛ تاہم اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں صورتِ حال کئی گنا زیادہ سنگین ہے اور وہاں کے شہریوں کی کثیر تعداد کے پھیپھڑوں پر کالے دھبے یا کالے مواد کی گٹھلیاں پائی گئی ہیں۔ دہلی بدترین ماحولیاتی آلودگی میں دنیا بھر میں سرفہرست آ چکا ہے۔ لاہور اور کراچی بھی دنیا بھر کے پہلے پانچ آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہے ہیں۔ماضی میں زیادہ سگریٹ نوشی کرنے والوں کے پھیپھڑوں پر کالے نشان دکھائی دیا کرتے تھے لیکن آج کل سبھی متاثرہ مریضوں کے پھیپھڑے سیاہی مائل اور کالے دھبوں والے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں بھارتی ٹی وی چینلز کا ایک اشتہار بہت مشہو ر ہوا تھا جس میں ایک بچے کو صبح سکول کے وقت تیار ہوتے دکھایا گیا تھا، باہر نکلنے سے پہلے اسے لنچ کے ساتھ آکسیجن سلنڈر والا ماسک بھی لگایا جاتا ہے تاکہ وہ باہر کی آلودہ فضا سے محفوظ رہ کر سانس لے سکے۔ اب واقعتاً حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔ نجانے یہ کون سی ترقی ہے کہ جس میں ہم موجودہ اور آئندہ نسلوں کو ایسی فضا دے کر جا رہے ہیں جس میں سانس لینا بھی محال ہو چکا ہے۔
اب پاکستان کے صرف شمالی علاقہ جات ہی اس آفت سے بچے ہوئے ہیں لیکن درختوں کی کٹائی اور کمرشل ازم بڑھنے سے وہاں بھی ماحولیات کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں جن کا فی الفور ازالہ نہ کیا گیا تو ملک کا کوئی حصہ بھی رہنے اور جینے کے قابل نہیں رہے گا۔ملک کو ترقی یافتہ بنانے والے بڑے بڑے منصوبے ضرور بنائیں لیکن اس ملک کی فضا کو بھی جینے لائق رہنے دیں۔جن کے لیے یہ منصوبے بنائے جا رہے ہیں‘ وہ لوگ سانس لینے کے قابل بچیں گے تو ہی ان منصوبوں سے فائدہ اٹھا پائیں گے۔