پوری دنیا میں تعلیم کا طریقہ کار تبدیل ہو رہا ہے۔ اسی طرح نوکری اور کاروبار کے انداز بھی بدلتے جا رہے ہیں۔ چیزیں بیچنے کے روایتی طریقے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ اشیا اور خدمات کی خریداری بھی منفرد رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ غیرمعمولی یا غیرفطری نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ ہر چیز میں تبدیلی اور جدت آتی جاتی ہے‘ چاہے وہ ٹرانسپورٹ ہو کہ جس میں گھوڑو ں اور خچروں سے شروع ہوا سفر اب برقی کاروں‘ ہیلی کاپٹروں‘ جہازوں اور ڈرونز تک پہنچ گیا ہے اور چاہے لکھنے کا انداز ہو جو کوئلے یا درخت کی چھال سے بنی پنسل سے شروع ہوا اور اب کمپیوٹر یا موبائل پر بولنے سے خود بخود سکرین پر ٹائپ ہونے والی تحریر تک جا پہنچا ہے‘ یہ سب ارتقا کی سیڑھیاں ہیں جو انسان چڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ تیز تر ہو رہا ہے۔ اب کے دور میں چیزیں بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہوں گی؛ یعنی کوئی ایک ایجاد بہت لمبے عرصے تک نہیں چلے گی بلکہ اس کا دورانیہ مختصر ہو گا اور اس سے بہتر کوئی چیز مارکیٹ میں بہت جلد آ کر اس کی جگہ لے لے گی۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی کوئی منفرد چیز‘ جو چاہے مختصر عرصے کے لیے ہی آئے‘ وہ کم وقت میں بہت زیادہ منافع بخش ثابت ہو گی۔ اس کی مثال وہ سٹارٹ اَپس ہیں جو بننے کے ایک‘ دو سال بعد ہی لاکھوں‘ کروڑوں ڈالر میں فروخت ہو جاتے ہیں۔ امریکی میں سلیکون ویلی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
اگلے دس برسوں میں وہ کچھ سامنے آنے والا ہے جس کی توقع شاید ہم 2050ء کے بعد کر رہے تھے۔ اڑنے والی گاڑیاں‘ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں‘ اڑنے والے انسان‘ خود بخود ہوتے کام جیسا کہ روبوٹس کا سامان اٹھا کر دوسری جگہ پہنچانا‘ کار فیکٹریوں میں اسّی فیصد گاڑی مکمل طور پر روبوٹ کی مدد سے تیار کرنا وغیرہ‘ یہ سب وہ چیزیں تھیں جو ہم کبھی جیمز بانڈ کی تخیلاتی اور جاسوسی فلموں میں دیکھا کرتے تھے لیکن یہ سب اتنا جلد ہو گا‘ اس کا اندازہ کم ہی لوگوں کو تھا۔ ابھی ٹیسلا نے جس تیزی سے دنیا میں گاڑیوں کی مارکیٹ پر حکمرانی قائم کی ہے‘ کسی کو اس کی بھنک تک نہ پڑی تھی جب تک کہ کمپنی کے مالک ایلون مسک نے الیکٹرک گاڑی لانچ نہ کر دی‘ کمپنی نے کسی کو اپنے پروجیکٹ کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ اس سٹریٹجی کی بدولت آج ایلون مسک کی کمپنی سے ٹیسلا ماڈلزکی گاڑیوں کی سیل ایک طرف اور پوری کار انڈسٹری کی فروخت دوسری طرف ہے۔ اب یہ بھی نہیں ہے کہ ایلون مسک کی کمپنی ٹیسلا بہت طویل عرصے تک الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ پر اپنی اجارہ داری قائم رکھے گی اور اسے کوئی ٹکر دینے والا نہ ہو گا۔ پچھلے دنوں چین کی ایک کار کمپنی نے ایسی الیکٹرک گاڑی متعارف کرائی ہے جو ایک چارج میں بارہ سو کلو میٹر تک چل سکتی ہے۔ یہ ٹیسلا گاڑیوں کی چارجنگ رینج سے دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ٹیسلا کا ایک پلانٹ چین میں بھی لگا ہوا ہے اور چین ٹیکنالوجی کو کاپی کرنے اور اسے بہتر بنانے میں ماہر سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں چین میں ہوئے ایک عالمی کار میلے میں اس کی الیکٹرک گاڑی نے دنیا بھر میں دھوم مچا دی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ عنقریب ٹیسلا کو ٹف ٹائم ملنے والا ہے۔
پاکستان اس سارے معاملے اور منظرنامے میں کہاں کھڑا ہے‘ یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے داخلی مسائل شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتے جاتے ہیں‘ اوپر سے آئے روز کبھی بھارت‘ کبھی افغانستان اور ایران کی طرف سے سرحد پار مداخلت نے ایشیا کے اس خطے کو مزید غیرمتزلزل اور غیرمتوازن بنا دیا ہے۔ اب یہ بات بھی نہیں کہ پاکستان اتنے مسائل میں گھرا ہے تو یہ ایسے ترقی نہیں کر سکتا‘ جیسے کے سنگاپور‘ چین اور دیگر ممالک کر چکے ہیں۔ یہ ممالک ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوئے اور کئی تو بہت بعد میں آزاد ہوئے۔ جاپان جیسے ملک کی بات کریں تو یہ ایٹم بم کے حملوں سے ملیا میٹ ہو چکا تھا اور اگر خدانخواستہ ہم اس کی جگہ ہوتے تو سوچیے آج کہاں پر کھڑے ہوتے لیکن جاپان کو دیکھیں کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے‘ چین بھی ہمارے سے دو سال بعد آزاد ہوا تھا اور آج ٹیسلا کمپنی کے لیے اس کی کئی کمپنیاں باقاعدہ خطرہ بن چکی ہیں اور ادھر ہم ہیں کہ ابھی تک آپس کی سیاسی لڑائیوں اور کھینچا تانیوں میں ہی اُلجھے ہوئے ہیں۔ اندرونی خلفشار‘ جھگڑے‘ اقتدار کی ہوس اور مخالفین کو نیچے گرانے کی خواہش نے ہمیں آج اس حال کو پہنچا دیا ہے کہ ترقی یافتہ ملک بننا تو دور‘ اس کی خواہش اور امید بھی دم توڑتی جا رہی ہے۔ نوجوان روزگار کے لیے بیرونِ ملک جانے کو بے تاب ہیں حالانکہ دنیا اس وقت جس طرح ری شیپ ہو رہی ہے‘ اس میں کسی دوسرے ملک میں صرف معاشی طور پر مستحکم یا خوشحال ہونے کیلئے جانا بہت زیادہ عقل مندی کی بات نہیں اور اس کی وجہ وہ گلوبل ٹرینڈز ہیں جن کی جانب ہماری سیاسی جماعتوں کی توجہ ہے نہ بیوروکریسی اس بارے میں کچھ سوچنے کو تیار ہے۔ بیرونِ ملک جا کر تجربہ حاصل کرنا‘ وہاں کے نظامِ زندگی کا مطالعہ کرنا اور نئی چیزیں سیکھنا‘ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ سوچ کر جانا کہ وہاں ٹیکسی چلا لیں گے یا پٹرول پمپ پر جاب کرتے رہیں اور گزارہ ہوتا رہے گا‘ یہ سب بیوقوفی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ مزے میں وہ شخص یا وہ کمپنی ہے جو پاکستان میں رہ کر ڈالروں میں کمائی کر رہی ہے مگر اسے خرچ پاکستانی روپوں میں کرنا پڑتا ہے۔ ایسا شخص یا کمپنی امریکہ میں بھی اتنا منافع انجوائے نہیں کر سکتی جتنا یہاں کرتی ہے۔
افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں بھی ہمارا شیئر کم ہو رہا ہے اور برطانیہ کے معروف برانڈز ہم سے ملبوسات‘ بیڈ شیٹس اور دیگر اشیا بنوانے کے بجائے بنگلہ دیش‘ بھارت اور دیگر ملکوں کا رُخ کر چکے ہیں کیونکہ نہ تو یہاں سرمایہ کاروں کو یہ پتا ہے کہ انہیں گیس اور بجلی کس ریٹ پر ملنی ہے‘ ملنی بھی ہے یا لوڈشیڈنگ کا تحفہ ملے گا اور لوڈشیڈنگ بھی ایسی جس کا کوئی شیڈول نہیں تو پھر کوئی ایسے میں کیا فیکٹری چلائے گا اور کیسے بیرونی آرڈرز توقعات کے مطابق پورے کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کاروبا ر کے یہ روایتی انداز بہت زیادہ منافع بخش نہیں رہے اور ویسے بھی ہماری آبادی میں نوجوانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ سب کے سب ان فیکٹریوں میں ملازمتیں حاصل کر سکتے ہیں اس لیے وہ آئی ٹی اور اس سے متعلقہ شعبوں میں ہی اپنی قسمت اور توانائیاں آزماتے ہیں اور زیادہ تر اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کہ اس میں نوکریاں کسی کوٹے کی بنیاد پر نہیں ملتیں بلکہ ٹیلنٹ اور ضرورت کی بنیاد پر نوکری حاصل کی جاتی ہے۔ ہم چین یا جاپان پتا نہیں کب بنیں گے لیکن ہمیں ویسا پاکستان تو بننا ہی ہے جس کا خواب لے کر یہ ملک بنایا گیا تھا۔ ایسا ملک جہاں آزادی ہو‘ کام کی آزادی‘ بات کرنے کی آزادی‘ اقلیتوں کو اپنی مذہبی رسومات اور زندگی گزارنے کی آزادی۔ ہم تو اُن مقاصد کو بھی حاصل نہیں کر سکے جو بہت بنیادی نوعیت کے ہیں اور اس کا دُکھ اس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے جب ہم یہ سنتے ہیں کہ بنگلہ دیش فلاں چیز میں آگے نکل گیا‘ ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا۔ جس کو دیکھو وہ موقع پرستی میں لگا ہواہے۔ حکومت سے اتنے فائدے حاصل ہو جائیں‘ اس سے فلاں پرمٹ مل جائے‘ فلاں ٹھیکا مل جائے تو نسلیں بن جائیں‘ ہماری سوچ آ جا کر لالچ کے انہی دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ ایسے دائروں کے سفر سے نکلے بغیر تبدیلی یا ترقی کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔