جس ملک کے وزیراعظم کو یہ پتہ نہیں کہ بجلی کے بلوں کی ریڈنگ ہر ماہ لی جاتی ہے‘ وہاں کیا خاک ملک چلنا ہے؟
چلو یہاں تک تو وزیراعظم کا بیان سمجھ میں آتا ہے کہ بالفرض بجلی کے بل میٹر ریڈنگ کے بغیر جاری کردیے گئے ہوں توکسی بھی قسم کی اضافی وصولی کو میٹر ریڈنگ کے بعد ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی اس ''ہدایت‘‘ کی ضرورت کہاں سے آن ٹپکی کہ وزارت پانی و بجلی کم از کم ہر تین مہینے بعد ہر ایک میٹر کی ریڈنگ کو یقینی بنائے ۔ اس پر دیوار سے سر پھوڑا جائے یا یہ سمجھا جائے کہ عوام سارے پاگل ہیں اور یہ سارے ارسطو ہیں جنہیں یہ پتہ نہیں کہ ریڈنگ کا طریقہ کار کیا ہے۔ لیسکو کا قانون کھول کر پڑھ لیں جہاں واضح لکھا ہے کہ نہ صرف میٹر ریڈر ہر ماہ ریڈنگ لے گا بلکہ صارف کو ایک رسید بھی دے گا کہ میں نے فلاں تاریخ کو فلاں میٹر کی فلاں ریڈنگ نوٹ کی ہے۔ کیا ایسا ہو رہا ہے؟ اس پر کوئی از خود نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا؟
سڈنی سے ایک پاکستانی ظہیر خان نے بتایا کہ آسٹریلیا میں میٹر ریڈنگ کیسے ہوتی ہے۔ ایک اہلکار آتا ہے ۔ اس کے پاس یو ایس بی جتنی ڈیوائس ہوتی ہے۔ وہ اسے کھمبے کے ساتھ کسی باکس میں پلگ کرتا ہے تو ڈیڑھ منٹ میں اردگرد کے سینکڑوں گھروں کی ریڈنگ اس میں آ جاتی ہے۔ ساتھ ہی یہ ریڈنگ وہاں کے رہائشیوں کو بھی معلوم ہو جاتی ہے۔ ظہیر صاحب نے پتے کی بات کہی کہ یہ کیسے حکمران ہیں جو لاہور کا کوڑا اور گند اٹھوانے کے لئے تو ترکی سے معاہدہ کرتے ہیں اور وہاں کی جدید مشینیں اور ٹیکنالوجی یہاں لاتے ہیں لیکن بجلی کی ریڈنگ نوٹ کرنے کیلئے وہاں سے ٹیکنالوجی نہیںلاتے کیونکہ اس سے ان کی اپنی چوری پکڑی جائے گی۔ ظہیر خان کا کاروبار لوڈشیڈنگ کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔فیکٹری برسوں سے بند پڑی ہے مگر بل مسلسل آ رہا ہے۔ سارے محکمے چھان مارے‘ عدالتوں میں بھی گئے لیکن ہر طرف سے خواری ملی۔ مجبوراً جلاوطن ہونا پڑا۔ اب آسٹریلیا میں مزدوری کر کے پیٹ پال رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ننانوے فیصد اوورسیز پاکستانی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ باقی دونوں جماعتوں پر ہر شخص چار حروف بھیجتا نظر آتا ہے اور اُن پر بھی جو اِن کی بلاوجہ حمایت کرتے ہیں۔
وزیراعظم کامیٹر ریڈنگ سے متعلق علم جان کر واپڈا والے مزید شیر ہو جائیں گے کہ ہمارے وزیراعظم کو فکر نہیں تو ہماری بلا سے۔ ہم اووربلنگ کریں‘ اوورریڈنگ کریں‘ بقایاجات یا سرچارج کے نام پر لُوٹیں‘ کون ہمیں ہاتھ لگائے گا۔ ویسے بھی سب کو اُوپر تک حصہ جاتا ہو تو کون بولتا ہے۔ اس وقت میرے پاس بجلی کی ضلعی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے ایک کا ہوشربا سکینڈل موجود ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جس شان ِ بے نیازی سے حکومت چلائی جا رہی ہے‘ اس کا نوٹس کون لے گا اور کیوں۔ اب تو کیمرے کی ریکارڈنگ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں میں آپس میں ڈھٹائی کا مقابلہ جاری ہے۔ پورے ملک کو چھوڑیں۔ صرف گوجرانوالہ میں جولائی
کے مہینوں میں ریکارڈ اووربلنگ کی گئی۔ اوور بلنگ کے مارے لوگ ایس ڈی او کے دفتر میں تصحیح بل کے لیے جاتے ہیں تو انہیں ریونیو آفس بھیجا جاتا ہے۔ وہاں پہنچتے ہیں تو واپس ایس ڈی او کے پاس جانے کا کہا جاتا ہے۔ ہزاروں لوگ روزانہ یونہی ذلیل و خوار ہو تے ہیں۔ اووربلنگ کا یہ ڈاکہ بڑے سائنسی انداز میں مارا جا رہا ہے۔ جون میں میٹر ریڈروں سے اوور ریڈنگ کرانے کے باوجود لاسز پورے نہیں ہوئے تو یہ دیکھا گیا کہ نقصان پورا کرنے کے لیے کتنے یونٹ مزید درکار ہیں۔مثال کے طور پر اگر5 سے 6 لاکھ یونٹ مزید درکار ہوں تو سب ڈویژن میں کوئی نو سو سے ایک ہزار گھریلو صارفین منتخب کر کے فی کس 590 یونٹس کی ایک لسٹ تیار کی جاتی ہے اور اسے ریونیو آفس بھیج دیا جاتا ہے کہ اسے ان صارفین کے بلوں میںشامل کر دیا جائے جو کہ قواعدو ضوابط کے خلاف اور
صارفین کے ساتھ زیادتی ہے۔اس میں جادو گری یہ کی جاتی ہے کہ ان 590یونٹس کو 12 پر تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ اس سیگری گیشن کی وجہ سے 590 یونٹ کا بل تقریباً 1000 سے 1200 کے درمیان بنتا ہے جو کہ بل کے بقایا جات والے خانہ میں لگ کر آجاتا ہے۔چونکہ سیگری گیشن کرنے کی وجہ سے ماہانہ یونٹ 50 سے کم بنتے ہیں اس لیے انہیں ریٹ 2 روپے فی کس سے زیادہ نہیں لگتا۔اس جادو گری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یونٹ زیادہ سے زیادہ مل جاتے ہیں۔اس جعل سازی کے ساتھ بے بنیاد لاسز کم کیے جاتے ہیں اور صارف بھی رونے دھونے کے بعد بل جمع کروا ہی دیتا ہے۔جبکہ محکمانہ طریقہ کار کے مطابق کسی بھی صارف کو چوری یا میٹر سست کرنے پر جو بل چارج کیا جاتا ہے اس میں جو یونٹ چارج کیے جاتے ہیں اس میں گزرے ہوئے تین سے چھ ماہ کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ مثال کے طور پر اس نے پچھلے چھ ماہ میں تین سو یونٹ ماہانہ کے حساب سے اٹھارہ سو یونٹس کی ادائیگی کی ہے۔جبکہ محکمہ کے مطابق اسے 100 یونٹ ماہانہ کے حساب سے چھ سو یونٹ مزیددینے چاہئیں تھے۔ ان چھ سو یونٹس کو چھ ماہ میں تقسیم کر کے زیادہ سے زیادہ ریٹ لگایا جاتا ہے۔کیونکہ اس نے گزرے ہوئے چھ ماہ میں 300 کی بجائے 400 یونٹ کا بل ادا کرنا تھا۔ اس کو اگر آج کے سلیب ریٹ کے مطابق دیکھا جائے اور چھ سو یونٹس کو 16روپے سے ضرب دی جائے تو محکمہ کو صارف سے مزید 9600 روپے لینے تھے جبکہ اس سائنسی واردات کے مطابق صارف سے 1180 روپے وصول کیے جا رہے ہیں جو کہ سراسر فراڈ ہے۔ میں نے پوری کمپنی میں سے آپ کو صرف ڈویژن نمبر1,2,3 گوجرانوالہ کی مثال پیش کی ہے جن میں ماہ جولائی میں تقریباً تیس لاکھ یونٹ چارج کیے گئے ہیں جن کا ریونیو دو روپے فی یونٹ کے حساب سے 60 لاکھ وصول ہوا ہے۔جبکہ محکمانہ طریقہ کار کے مطابق تیس لاکھ یونٹ کا ریونیو چار کروڑ اسی لاکھ بنتا تھا۔ اس حسابی طریقہ واردات کے مطابق ایک تیر سے کئی شکار کیے گئے۔ بظاہر تو لاسز کم کیے گئے لیکن حقیقت میں ملکی خزانے کو کروڑوں کا نقصان کیا گیا تاکہ محض ماہانہ یونٹس کا بھتہ پورا کیا جا سکے ۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ اگر وہ ڈکیتی شدہ یونٹ کو دو روپے کی بجائے 16روپے چارج کرتے تو بہت بڑا بحران کھڑا ہو جاتا ‘لوگ بجلی کے دفتر تک جلا دیتے اور ان کی یہ سائنسی واردات منظر عام پر آ جاتی۔
یہ اچھا ہے کہ بجلی چوری کوئی کرے اور بھرے کوئی۔ حکمران ایک جھٹکے میں عوام کی جیب سے 70ارب روپے نکال لیں اور جواب میں سارے وزیر دندیاں نکالتے رہیں۔ وزیراعظم اجلاس بلا لیں تو پتہ چلے انہیں یہ بھی معلوم نہیںہے کہ میٹر ریڈنگ کتنے ماہ بعد لی جاتی ہے۔ ایسے حکمرانوں کے ہوتے ہوئے ہر محکمے میں اووربلنگ کے سائنسی ڈاکے نہ پڑیں تو کیا ہو؟ کیسی بدقسمتی ہے کہ آج تین سال کے بچے کو یہ پتہ نہیں کہ قائد اعظم یا علامہ اقبال نے کیا کیا تھا لیکن گلوبٹ کے بارے میں پوچھیں تو فوراً بول پڑے گا کہ وہ جس نے گاڑیاں توڑی تھیں۔ یہ ہے وہ جمہوریت اور گڈ گورننس جس کا رونا حکمران اور ان کے تنخواہ دارروتے رہتے ہیں۔