جس طرح آرمی چیف جنرل راحیل شریف دہشت گردی کی جنگ میں پرعزم نظر آ رہے ہیں‘ ہماری سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی ایسی سنجیدگی دکھائیں تو یہ جنگ جیتنا مشکل نہیں۔ مسئلہ وہی ہے کہ ہر جماعت اور ہر سیاستدان سب سے پہلے پاکستان کی بجائے سب سے پہلے اپنی جیب بچانے کی فکر میں ہے۔ کسی کو اپنے مقدمات کھلنے کا ڈر ہے تو کسی کو اپنے چندے والے بکسے خالی ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کہنے کی بجائے کہ میں اپنے آپ کو‘ اپنے ادارے‘ اپنی جماعت اور اپنے مدرسے کو احتساب کیلئے پیش کرتا ہوں‘ ہر کوئی دوسروں پر انگلی اٹھاتا دکھائی دیتا ہے ۔ پشاور سانحے کو ایک ماہ ہونے والے ہیں لیکن سیاستدانوں کے چہروں پر فکر کے آثار ہی غائب ہو چکے ہیں۔درحقیقت حکومت اور اس کی حلیف جماعتیں اس معاملے میں ذرا بھی سنجیدہ نہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بلٹ پروف گاڑیاں استعمال کرتے ہیں‘ انہیں ایلیٹ فورس اور نجی سکیورٹی گارڈز میسر ہیں‘ اس لئے یہ تو محفوظ ہو چکے ہیں‘ عوام جائیں بھاڑ میں۔ پورے ملک کی حفاظت کا انہوں نے ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا۔ پشاور سانحے کے بعد ویسے بھی زیادہ تر بیوروکریٹس اور سیاستدانوں نے تعلیم کیلئے اپنے بچے بیرون ملک بھجوانے کی تیاری شروع کر دی ہے ۔ کاروبار اور بینک اکائونٹ پہلے ہی باہر ہیں‘ تو پھر یہ سردردی کیوں اور کس کے لیے لیں؟ انہیں تو ایسا ہی کانٹوں بھرا پاکستان چاہیے تاکہ ان کی سیاست کی دکان چلتی رہے۔ جہاں تک دہشت گردی کی جنگ کا سوال ہے تو کوئی بھی مسئلہ ہوا تو یہ آرام سے ذمہ داری فوج پر ڈالیں گے اور خود آئین ‘ پارلیمنٹ اور جمہوریت کی شان میں تقریریں کرتے ہوئے ہمارا سر کھائیں گے۔ خود کی حالت چاہے یہ ہو کہ کسی کو سورہ اخلاص تک نہ آتی ہو لیکن ''جمہوریت‘‘ میں بچوں کو مارنے والے دہشت گردوں کیخلاف ملٹری کورٹس قائم ہوجائیں تو ان کے آنسو نکل آئیں گے۔کیا عوام سارے اندھے‘ گونگے اور بہرے ہیں جو اس قسم کی اداکاری سے مرعوب ہوتے رہیں گے۔ جنہیں سردیوں میںبھی بجلی میسر ہے نہ گیس‘ میسر ہیں تو صرف بے کار قسم کی حکومتی سکیمیں‘ نیلی پیلی ٹیکسیاں‘ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے ''تاریخی‘‘ اقدامات اور بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی بوگس تاریخیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ان کی سازش نما سیاست سے فوج کا ادارہ بچا ہوا ہے وگرنہ یہ کب کا ملک بیچ کر کھا چکے ہوتے۔
کوئی ایک ادارہ بتا دیں جنہیں یہ سیاستدان ٹھیک کر سکے ہوں یا کوئی ایک ادارہ بتا دیں جو ان کے ہاتھوں تباہی سے بچا ہو۔ خدا کی پناہ ہے کہ چارہفتوں میں تیسری مرتبہ ملک میں بجلی کا بڑا پاور بریک ڈائون ہوا اور وزارت بجلی و پانی دھنیا پی کر سوئی رہی۔این ٹی ڈی سی نے مسئلے کی وجہ دھند کو قرار دیا جس سے گدو پاور سٹیشن میں خرابی پیدا ہوئی جسے دوسری ٹرانسمیشن لائنوں پر ڈالا گیا تو سسٹم اوورلوڈ ہونے سے مزید شہر بھی بجلی سے محروم ہو گئے۔ اس قسم کے بہانوں اور فلمیں چلانے والوں سے آپ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ طالبان سے لڑ سکتے ہیں؟ کیا ایسے نا اہل افسران کے ہوتے ہوئے ملک کو اندھیروں اور تباہی میں دھکیلنے کیلئے طالبان کی ضرورت ہے؟ نہ اس ملک میں دھند پہلی مرتبہ آئی ہے نہ ہی سردیوں میں صبح کے وقت ٹرانسمیشن لائنوں پر اس قدر لوڈ ہوتا ہے جتنا ظاہر کیا جا رہا تو پھر سچ کیا ہے؟ یہ اپنی نااہلی چھپانے کی بدترین مثال تھی جسے ایک مہینے میں دوسری مرتبہ دہرایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا واپڈا‘ لیسکو اور این ٹی ڈی سی میں کرپشن کے ریکارڈ بنانے والوں کے لئے بھی ملٹری کورٹس قائم کرنا پڑیں گی؟ لیسکو میں کرپشن کے جو ہوش ربا آج ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں انہیں سن کر پیپلزپارٹی کا دور معمولی لگتا ہے۔ جس لیسکو میں گریڈ بارہ کے ایک پسندیدہ ''افسر‘‘ کو صرف چار ماہ میںپہلے گریڈ چودہ اور پھر گریڈ سترہ میں ترقی دے دی جائے اس سے آپ یہ توقع کریں گے کہ وہ آپ کو بجلی چور پکڑ کر دے گا او ر ملک سے اندھیرے دور کرے گا؟ سارے افسر نجی کمپنیاں بنا کر دس نمبر مال سپلائی کریں گے تو بریک ڈائون نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔
عمران خان کی ریحام خان سے شادی نے کروڑوں پاکستانیوں
کے دل موہ لیے ہیں۔ سانحہ پشاور کی وجہ سے انہوں نے غریب بچوں کو کھانا کھلا کر سادگی کی جو شاندار مثال قائم کی‘ وہ بالخصوص متمول پاکستانیوں کے لئے باعث تقلید بھی ہے اور باعث شرم بھی۔ جتنی شہرت عمران خان کوملی ہے‘ کسی اور کو ملی ہوتی تو وہ رسمیں‘ مہندیاں اور پارٹیاں کرکر کے کروڑوں روپے اڑا چکا ہوتا اور دنیا بھر کے میڈیا میں اپنی کوریج کا مشتاق ہوتا لیکن آفرین ہے اس جوڑے پر کہ جس نے نادار طالب علموں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر اس طرح کھانا کھایا کہ ہر دردمند پاکستانی کا سر فخر سے اُونچا ہو گیا۔ ہمارے ہاں تو کسی کے خاندان کا ایک شخص باہر چلا جائے تو اس کے حالات اور حرکتیں دیکھنے والی ہوتی ہیں‘ لیکن حیرانی ہے عمران خان پر جس نے جمائما خان کو طلاق دی تو برطانوی قانون کے تحت ملنے والے تین ارب پائونڈز کو صرف اس لئے ٹھکرا دیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے شادی اور پھر طلاق اسی لالچ میں ہی دی تھی۔ کیا ہم میں سے کوئی ہوتا تو ایسا موقع ہاتھ سے جانے دیتا؟ ہم پاکستانی تو امریکہ اور یورپ میں نیشنیلٹی کیلئے کسی کالی یا گوری سے عارضی شادی کرنے کا خطرہ مول لینے کو بھی معمولی سمجھتے ہیں لیکن یہ کیسا شخص ہے جس نے صرف کینسر ہسپتال کے خوابوں کی تعبیر دیکھتے دیکھتے اپنی زندگی بیتا دی۔ انسان امیر تب بنتا ہے جب اس کے دل‘ اس کے خیالات اور اس کی زبان لالچ سے پاک ہو جائے۔ ایسے انسان کو دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ یہ چیزیں خود اس کا پیچھا کرتی ہیں۔ خان صاحب خوش قسمت ہیں کہ اپنے پیچھے آنے والی دولت اور شہرت کو انہوں نے اپنے اثاثے بڑھانے کی بجائے قوم کی تربیت اور نئے پاکستان کی ترویج کے لئے استعمال کیا۔ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے کے لئے پشاور میں جو ہسپتال قائم ہو رہا ہے‘ اس میں داخل ہونے اور شفا پانے والا ہر مریض خان صاحب کے لیے دُعا گو ہو گا۔ کیا اس طرح کے کام اس ملک کی دیگر اشرافیہ کو نہیں کرنے چاہئیں؟ نون لیگ جو اربوں روپے ملتان میں میٹرو بس اور موٹر وے پر اجاڑنے کو تیار ہو چکی‘ کیا ان کے سامنے ہسپتالوں کی تعمیر اور بہتری پہلی ترجیح نہیں ہونی چاہیے تھی؟ کہتے ہیں کہ کسی کو اللہ اقتدار دیتا ہے تو عقل چھین لیتا ہے‘ ہمارے ہاں جتنے بھی حکمران آئے ‘ سب کا حال کم و بیش ایسا ہی رہا۔ خان صاحب کی ازدواجی زندگی دوبارہ آباد ہو چکی۔ اب عوام اس ملک کو بھی دوبارہ آباد ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ عمران خان اور ان کی زوجہ چاہیں تو اٹھارہ کروڑ عوام کے خوابوں کو زبان دے سکتے ہیں۔انہیں چاہیے کہ وہ پشاور آرمی پبلک سکول کا دورہ کریں اور ان سوگوار والدین کے ہاں جائیںاور انہیں یہ پیغام دیں کہ خوشی کے اس لمحے میں بھی وہ انہیں نہیں بھولے‘ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ دونوں قوم کو اس مغالطے سے نکالیں کہ یہ ملک ہمیشہ ایسے ہی جلتا رہے گا‘ بچے یونہی مرتے رہیں گے اور حالات کبھی نہیں بدلیں گے۔ عوام نے جس طرح ان کی شادی پر خوشی کا اظہار کیا ہے اب قوم کا یہ خان صاحب پر قرض ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ جاندار انداز سے سامنے آئیں اور دہشت گردی سے لے کر دھاندلی تک ہر ایشو پر دبنگ قسم کا سٹینڈ لیں ۔ لوگ ان کے دھرنے کو بہت مس کرتے ہیں‘ لیکن اس سے بھی زیادہ اب دہشت گردی کی جنگ جیتنا ضروری ہے اور کپتان کے اس نئے سفر میں پہلی ترجیح بھی یہی ہونی چاہیے۔