یہ 2003ء کی بات ہے۔ عمران خان ایک اخبار کے فورم میں تشریف لائے۔ موضوع پاکستان کرکٹ ٹیم کی ورلڈ کپ 2003ء میں شاندار ناکامی تھا۔ میں نے خان صاحب سے سوال کیا کہ کھیل کے میدان میں ہماری ٹیم کی کارکردگی یہ ہے کہ یہ چھ میں سے صرف دو میچ جیت سکی ہے‘یہ کوارٹر فائنل میں بھی نہیں پہنچ سکی اوردوسری طرف میڈیا میں اس کا حال یہ ہے کہ ہر کھلاڑی سٹار بنا ہوا ہے اور بغیر کچھ کئے اس کیلئے دولت اور شہرت کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں تو پھر وہ کارکردگی کیوں اور کس کے لئے دکھائے؟ خان صاحب میرا سوال سمجھ گئے۔ مسکرائے اور بولے ''یہ بات درست نہیں کہ ہمارے کھلاڑیوں کے دماغ اور کھیل کو گلیمر اور شہرت نے خراب کیا۔بھارتی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی اس سے کہیں زیادہ شہرت اور دولت کماتے ہیں‘ اشتہارات ‘ ٹی وی شوز اور مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں لیکن ان کی تو میدان میں کارکردگی شاندار ہے۔ ہماری اصل کمزوری ڈومیسٹک کرکٹ کا نہ ہونا ہے‘‘۔ گزشتہ دنوں ہماری ٹیم نے بھارت اور ویسٹ انڈیز سے عبرت ناک شکست کھائی تو مجھے عمران خان کے ساتھ یہ گفتگو یاد آ گئی۔ خان صاحب اپنی جگہ ٹھیک کہتے ہیں کہ کرکٹ اور گلیمر کا کوئی تعلق نہیں لیکن خان صاحب شاید تمام کھلاڑیوں کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ جس وقت انہوں نے کرکٹ چھوڑی‘ اس وقت کرکٹ میں اتنی سیاست تھی نہ ہی میڈیا میں اتنے ٹی وی چینل۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اس وقت کرکٹ بورڈ کا چیئرمین ایک سال میں دس مرتبہ تبدیل ہوا ہو؟ہم بھارت سے 2003ء کے ورلڈ کپ میں بھی ہارے تھے لیکن کتنے رنز سے ؟ کیا کسی کو یاد ہے؟ پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے پچاس اوورز میں 276رنز بنائے تھے۔ جواب میں بھارت نے چھیالیس اوورز میں سکور چھ وکٹوں کے نقصان پر پورا
کر لیا تھا۔ اس وقت ہم نے مقابلہ کیا اور ہارے لیکن آپ آج کا فرق ملاحظہ کیجئے۔ بھارت کے 310اور ہمارے 224۔ فرق کتنا بڑھ چکا ہے۔ ویسٹ انڈیز سے 160رنز سے ہارے اور شاید زمبابوے کے ساتھ بھی کوئی انوکھا ریکارڈ بنانے کی تیاری ہے۔ اس کے باوجود کہ 2003ء میں ہماری ٹیم قدرے مضبوط تھی‘ کھلاڑی بھی جانے پہچانے تھے‘ آج کی طرح نہیں کہ ہر نئے میچ میں کوئی نہ کوئی نیا سفارشی گھسا ہوتا ہے۔ وقار یونس کپتان تھے۔ وسیم اکرم‘ شعیب اختر ‘ عبدالرزاق اور اظہر محمود جیسا زبردست بائولنگ سکواڈ بھی تھا لیکن پاکستان پہلے مرحلے میں ہی فارغ ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں ہماری آج کی ٹیم دس گنا کمزور دکھائی دیتی ہے تو پھر امیدیں کیسی؟ اے کیٹیگری کے تین اور بی کیٹیگری کے نو کھلاڑیوں کے ساتھ یہ ورلڈ کپ کھیلنے چلے تھے حالانکہ اس طرح کی ٹیم کے ساتھ تو کوئی وہاڑی یا کاہنہ الیون سے بھی نہیں جیت سکتا۔ جب لوگ بھارت سے ہارنے پر رو رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ جس کھلاڑی کو میچ جیتنے پر پانچ لاکھ روپے اور جان بوجھ کر ہارنے پر فی کس پانچ کروڑ ملتا ہو تو اس کا دماغ خراب ہے کہ وہ میچ جیتنے کیلئے زور لگائے؟ میرے ایک دوست پراپرٹی کے معروف ڈیلر ہیں۔ ڈیفنس میں ان کے گھر ان سے ملنے گیا تو کہنے لگے کہ معلوم ہے سامنے مین روڈ پر کارنر والا بنگلہ کس نے خریدا ہے؟میں نے نفی میں سر ہلایا تو بولے۔ عمر اکمل نے۔ ساڑے آٹھ کروڑسے زائد مالیت کا یہ بنگلہ شاید اب کھلاڑیوں کے لئے معمولی اہمیت رکھتا ہو لیکن جب عام لوگ اس طرح کی خبریں سنتے ہیں تو
ان کی امیدیں بھی اسی حساب سے بڑھ جاتی ہیں اور جب انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ ان کی ٹیم پر ان کے ٹیکسوں کے خون پسینے سے سالانہ اربوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تو وہ لامحالہ کرکٹ ٹیم کے علامتی جنازے نکالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دنیا نیوز کے مطابق کرکٹ ورلڈ کپ 2015ء کیلئے پاکستان کرکٹ ٹیم کی تیاری پرچار ارب 28کروڑ روپے خرچ کیے گئے جبکہ ٹیم نے اپنی کارکردگی صفر دکھا کر ساری توقعات پر پانی پھیر دیا ۔ دستاویزات کے مطابق کھلاڑیوں کی عالمی کپ کے مقابلوں کی تیاری کی مد میں گزشتہ دو سالوں کے دوران 4ارب 28کروڑ 38لاکھ 76ہزار 8سو 36روپے کے اخراجات آئے ہیں۔ اگرانہیں ماہانہ کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے تو یہ اخراجات 17کروڑ 84لاکھ 94ہزار 8سو 68روپے اور59لاکھ 49ہزار 8سو 28روپے یومیہ بنتے ہیں جبکہ ابھی تک کھیلے گئے دونوں میچوں میں کار کر دگی چند ٹکوں کی بھی نہیں تھی۔ اگر ورلڈ کپ کی تیاری پر آنے والے اخراجات کی تفصیلا ت کاجائزہ لیاجائے تو
گزشتہ دو سالوں میں ٹیم پر بیرونی ممالک کے دوروں پر 48کروڑ 29لاکھ اور اندرون ملک اخراجات کی مد میں 70کروڑ 74لاکھ خرچ ہوئے۔ملک بھر میں کرکٹ کے فروغ کی مد میں 63کروڑ 41لاکھ ، انتظامی نوعیت کے معاملات پر ایک ارب 22کروڑ 91لاکھ اور مالیاتی اخراجات کی مد میں 3کروڑ 57لاکھ روپے اخراجات آئے۔ کھلاڑیوں نے میڈیا اور دیگر ذرائع سے کتنا کمایا‘ وہ رقم اس میں شامل نہیں۔ میڈیا کی جس تشہیر کو کھیل کے معیار کی بہتری کے لئے استعمال کیا جانا چاہیے تھا‘ اسے ان کھلاڑیوں نے اپنے امیج بلڈنگ‘ سیاسی تعلقات‘ پاور لابنگ اور جواریوں سے راہ و رسم بڑھانے کے لئے استعمال کیا۔ ایک طرف تو ان کی یہ کارکردگی ہے کہ ویسٹ انڈیز کے میچ میں آٹھ کھلاڑی دس سے کم سکور اور تین کھلاڑی صفر پر آئوٹ ہوئے دوسری طرف ان پر تنقید کریں تو بورڈ کے چیئرمین شہریار خان دفاع کیلئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جیسے یہ سارے کھلاڑی ان کی ذاتی جاگیر ہوںاور قوم ساری بیوقوفوں کا ٹولہ ہو۔ بورڈ کا اپنا یہ حال ہے کہ ان کے چیف سلیکٹر معین خان جوئے خانے میں جاتے ہوئے پکڑے جائیں تو صفائی میں کہتے ہیںکہ میں تو کھلاڑیوں کی نگرانی کے لئے گیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کوئی کھلاڑی وہاں پکڑا جاتا تو کہتا کہ میں تو چیف سلیکٹر کی نگرانی کے لئے آیا تھا۔ معین خان سے بانوے کے ورلڈ کپ کے حوالے سے بہت حسین یادیں وابستہ ہیں۔اس طرح کی خبریں اگر ان کے بارے میں سننے کو آ رہی ہیں تو باقی ٹیم کا کیا حال ہو گا....سوچتے جائیں ‘شرماتے جائیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم واپسی پر ایئرپورٹ سے آئے گی یا حلیہ تبدیل کر کے سمندری راستے سے ‘ یہ تو کرکٹ بورڈ ہی بہتر بتائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ جتنی ''مضبوط ‘‘ٹیم اس وقت ہماری ہے‘ اس کا اصل مقابلہ بھارت سے تھا نہ ویسٹ انڈیز سے بلکہ اس کا اصل مقابلہ یو اے ای جیسی ''مشکل ترین‘‘ ٹیموں سے ہو گا۔ اگلا مقابلہ زمبابوے سے ہے۔ اس مقابلے کے لئے پاکستانی شائقین ابھی سے تیاری شروع کر لیں۔ ایک قومی کھلاڑی نے کمزور دل شائقین کرکٹ کے لئے چند تجاویز بھیجی ہیں۔ ان پر میچ دیکھتے ہوئے عمل کیا جائے تو یقینا ٹیم اور شائقین دونوں کو افاقہ ہو گا اور کوئی بعید نہیں کہ ہمارے کھلاڑی چاہے جتنی مرضی ہارنے کی تیاری کر کے جائیں‘ شائقین کی دُعائوں کی بدولت میچ جیت ہی جائیں ۔ تجاویز یہ ہیں:
٭پاکستان کا میچ باوضو ہو کر دیکھیں۔
٭دوران میچ آیت الکرسی کا ورد جاری رکھیں۔
٭ میچ دیکھنے سے زیادہ دُعائوں میں خشوع و خضوع کا مظاہرہ کریں۔
٭کیچ چھوڑے جانے کی صورت میں لا حول پڑھیں اور اسے قسمت کا لکھا سمجھیں۔
٭کیچ پکڑے جانے کی صورت میں غیبی قوت کا شکریہ ادا کریں۔
٭سیمی فائنل اور فائنل کا روزہ رکھیں۔
٭میچ مصلے پر بیٹھ کر دیکھیں۔
٭کرکٹ ٹیم سے نہیں بلکہ اللہ سے اُمید لگائیں۔
٭آخر میں یہ یقین رکھیں کہ قومی ٹیم کوئی میچ جیتے نہ جیتے‘ کیسینوز میں بہت کچھ جیت کر آ ئے گی۔
آپ کی دُعائوں کا طالب!
کپتان المعروف ٹُک ٹُک