پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں کسی بھی مسئلے کا حل دھرنے اور احتجاج ہی رہ گیا ہے۔ آپ ڈاکٹر ہیں‘ سیاستدان ہیں‘ استاد ہیں‘ نرس ہیں ‘ کسی سرکاری ادارے کے ملازم ہیں یا پھر ایک عام انسان ہیں اور پولیس آپ کا پرچہ نہیں درج کر رہی‘ آپ کے ساتھ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے‘ پولیس نے آپ کے کسی عزیز کو ناجائز حراست میں لے کر قتل کر دیا ہے‘ پٹواری آپ کی زمین کا انتقال نہیں کر رہا یا آپ کی پراپرٹی پر بااثر افراد قابض ہیں تو پھر آپ کے پاس آخری حل یہی رہ گیا ہے کہ ایک مجمع اکٹھا کریں اور کسی بڑے چوک یا سڑک کی طرف چل پڑیں۔ اگر آپ لاہور میں رہتے ہیں تو پنجاب اسمبلی بہترین جگہ ہے۔ مال روڈ پر سینکڑوں اہم سرکاری اور نجی دفاتر موجود ہیں۔ یہاں سے لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں بھی گزرتی ہیں زیادہ تر وی آئی پی موومنٹ بھی اسی سڑک پر ہوتی ہے؛ چنانچہ اس سے بہتر اور آئیڈیل جگہ آپ کے لئے ہو نہیں سکتی کیونکہ یہاںٹی وی چینلز بھی ہر وقت موجود ہوتے ہیں جو آپ کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر چلا سکتے ہیں۔ اگر آپ توڑ پھوڑ کرنے کی مہارت رکھتے ہوں تو وہ یہ سب براہ راست بھی دکھا سکتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ کی آواز ارباب اختیار تک فوراً پہنچ جائے گی۔ ممکن ہے آپ کو کچھ دن صبر کرنا پڑے۔ کچھ راتیں یہیں رہنا پڑے۔ پولیس کے ڈنڈے اور آنسو گیس بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ کا ایک ہی ہلے میں کام ہو گیا‘ کوئی حکومتی وزیر آپ کے پاس آ گیا اور آپ کے مطالبات منظور کر لئے اور واپس جا کر ان پر عمل بھی کرلیا تو آپ کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ آپ اُن چند
خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں گے جو پہلے ہی دھرنے یا احتجاج میں اپنا حق لینے میں کامیاب ہوئے ہوں گے۔ لیکن اگر پہلی مرتبہ آپ ناکام ہو گئے تو دل ہارنے کی ضرورت نہیں۔ مستقل مزاج بنیں۔ مہینے دو مہینے بعد دوبارہ قسمت آزمائیں۔ اللہ نے چاہا تو بھلا ہو گا۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں‘ تو یہ نہ سمجھیں حکومت آپ کو سلیوٹ مارے گی۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ آپ کچھ ہیں یا کچھ نہیں ‘ دونوں صورتوں میں آپ کو احتجاج کرنے کے نئے نئے طریقے سیکھنا ہوں گے اور یاد رکھیں آپ کا مطالبہ حکومت سے ہے تو آپ کو چاہیے کہ حکمرانوں کو چھوڑ کر اپنے جیسے عوام کو اذیت دیں‘ خاص طور پر دوپہر کے وقت اس وقت سڑکیں بلاک کریں جب سکولوں کی چھٹی کا وقت ہو تاکہ سکولوں کو جانے والی ہزاروں لاکھوں گاڑیاں پریشانی کا شکار ہوں۔ اگر کوئی ایمبولینسں اس دوران میں آپ کے قابو میں آ جاتی ہے تو آپ کا احتجاج اور بھی کامیاب ہو جائے گا۔ مریض کے ساتھ کیا ہوتا ہے کیا نہیں‘ یہ جانے دیجئے بس یہ دیکھیں کہ ایمبولینس پکڑی جائے گی تو ٹی وی پر اس کا ٹِکر چلے گا جو آپ کے احتجاج کو کامیاب بنانے میں مددگار ہو گا۔ اگر آپ نابینا ہیں تو پھر آپ کو دوگنا محنت کرنا ہو گی ۔ اگر ایک مرتبہ پولیس سے آپ کو دھکے پڑ گئے‘ کسی نے دو چار لاٹھیاں مار دیں تو کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ آپ کا احتجاج کامیاب ہو گیا۔ آپ کوٹہ بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کوئی وزیر آ کر ہاں بھی
کر دیتا ہے تو یہ مت سمجھئے کہ آپ پر ترس کھا کر آپ کا کام کر دیا گیا۔ یہ آپ کو یہاں سے بھگانے کی چال بھی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے آپ کی آنکھیں نہیں ہیں لیکن آپ کا مقابلہ عقل کے اندھوں سے ہے۔لہذٰا یہ مقابلہ خوب چلے گا۔ آپ کو بار بار سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ گرمیوں کا انتظار کر لیں۔ مئی میں سکولوں کی چھٹی کے وقت جیل روڈ‘ مال روڈ یا کینال روڈ پر آئیں‘ اس دوران پولیس اور حکومت آپ کو پھر سے مزا چکھانے کے لئے فریش ہو چکی ہوں گی اور آپ بھی پچھلی مار پیٹ بھول چکے ہوں گے۔ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگ پہلے ہی بے حال ہوں گے‘ اوپر سے مہنگی بجلی کی وجہ سے بھاری بل ان پر ہتھوڑے برسا رہے ہوں گے۔ سی این جی اگرچہ کھل چکی ہو گی لیکن اس پر لمبی قطاریں لگی ہوں گی جو سڑکیں مکمل بلاک کرنے کے لئے مزید معاون ثابت ہوں گی۔ یہ سارے عوامل آپ کے احتجاج کو مضبوط اور موثر بنائیں گے کیونکہ اس سے آپ کی چیخیں کسی نہ کسی حکمران کے کان میں ضرور پڑ جائیں گی۔ جب یہ اپنے عوام کو اتنا تڑپتا دیکھیں گے اور بار بار دیکھیں گے تو ممکن ہے آپ کے مطالبے پر عمل درآمد ہو جائے‘ آپ کا پے سکیل منظور ہو جائے‘ آپ کا تعلیمی یا روزگار کا کوٹہ بڑھ جائے‘ آپ کی رکی ہوئی پنشن مل جائے‘ آپ کی ایف آئی آر درج ہو جائے یا پھر آپ کی زمین کا قبضہ چھوٹ جائے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب آپ نے تو کر لیا‘ لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ انہی مراحل سے ایک دن آپ کے بچوں نے بھی تو گزرنا ہے۔ کیا آپ نے انہیں اس راستے پر چلنے کی تیاری کرائی ہے جن کانٹوں پر آج آپ چل رہے ہیں؟بہتر تو یہ ہے کہ حکومت خود آگے بڑھے اور سرکاری اور نجی سطح پر احتجاج کرنے اور احتجاج کے ذریعے اپنا حق منوانے کے لئے تعلیمی نصاب میں باقاعدہ طور پر کورسز شامل کرائے۔حکومت ایسا نہیں کرتی تو تعلیمی ادارے یہ فرض خود نبھائیں۔ جب بھی کہیں کوئی احتجاج ہو رہا ہو‘ سکولوں کے بچوں کو وقفے وقفے سے لے جا کر عملی مظاہرہ دکھایا جائے کہ دیکھو بچو بڑے ہو کر تم نے یہ سب کرنا ہے۔ کتابیں چاہے جتنی مرضی پڑھ لو‘ جتنے مرضی امتحان پاس کر لو اور جتنے بھی اچھے انٹرویو دے دو‘ ایک نہ ایک دن تمہیں بھی اس چھلنی سے گزرنا ہے۔ جب سفارش اور رشوت کام نہ آئے گی اور تم ہاتھ میں ڈگریاں پکڑے مختلف اداروں میں دھکے کھائو گے تب نہ پچھتانا کہ کاش! ہم نے کچھ وقت لاٹھیاں کھانے میں بھی لگا لیا ہوتا۔
نصاب میں اس طرح کے کورس شامل کئے جا سکتے ہیں کہ اگر پولیس کسی کا پرچہ درج نہیں کر رہی تو اسے کب ‘کیسے اور کہاں احتجاج کرنا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ڈاکٹر ہے اور اس کا پے سکیل کسی سرکاری کلرک سے بھی کم ہے تو اسے جاننا ہو گا کہ اپنی عزت نفس کو چھپاتے ہوئے کس طرح سڑکوں پر خود ذلیل ہونا ‘ عوام کو ذلیل کرنا اور بالآخر اپنی بات منوانا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حکومت کے خرچ پر پی ایچ ڈی کرنے باہر جاتا ہے لیکن آدھی مدت کے دوران حکومت اس کی فیس وغیرہ بھیجنا بند کر دیتی ہے‘ تو واپس آ کر اس اُدھورے پی ایچ ڈی کو کس کس طرح اپنا سر حکمرانوں سے ٹکرا کر پھوڑنا ہے‘ یہ سب ایک طالب علم کو سکول کے زمانے سے ہی سیکھنا ہو گا۔ نصاب میں یہ بھی پڑھایا جائے کہ حکومتی وزرا کے جھوٹے اور سچے وعدوں میں کس طرح فرق کرنا ہے کیونکہ یہ نہ ہو کہ آپ چار دن اور چار راتیں سڑکوں پر گزار دیں اور کوئی وزیر آپ سے جھوٹا وعدہ کر کے آپ کو وقتی طور پر وہاں سے اٹھا دے اور بعد میں آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ یہی کچھ عام لوگوں نے کرنا ہے۔ اگر کسی کا گھر تین مرلے کا ہے لیکن اسے بجلی کا بل تیس لاکھ آ جاتا ہے اور لیسکو والے اس کا بل ٹھیک کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو اس گھر کے سربراہ کو خودکشی اور جیل سے بچنے اور اپنا حق لینے کے لئے کیا کرنا ہو گا‘ یہ سب سمجھنا ہو گا۔ آپ کی اور آپ کے بڑوں کی زندگی جیسے تیسے تھی‘ گزر گئی۔ اب آپ کے سامنے آپ کے بچے ہیں۔اگر آپ کے بچے منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے‘ اگر وہ کسی سیاستدان‘ کسی جاگیردار یا صنعتکار کی اولاد نہیں تو ان کی آزمائش شروع ہے۔ یہ بڑے ہو کر کس طرح اپنی بات منوائیں گے‘ اپنا حق کس طرح لیں گے‘یہ آج سے آپ کا درد ِ سر ہے۔کامیابی کا راز بس یہی ہے‘ اذیت دیں‘ حق لیں!!