آپ کہتے ہیں‘ یہ بکری ہے‘ لوگ کہتے ہیں یہ بکری ہے ‘ مجھے بھی یہ بکری ہی لگتی ہے لیکن یہ کیسے ثابت ہو گا کہ یہ واقعی بکری ہے۔
ایک تصویری خاکے میں دو وکلا ایک بکری کو سامنے کھڑا کر کے یہ بحث کر رہے تھے اور جج صاحب بھی یہی فرما رہے تھے کہ یہ ہے تو بکری لیکن یہ ثابت کیسے ہو گا کہ یہ واقعی بکری ہے۔
یہ طنزیہ تصویری خاکہ جس ملک کے عدالتی نظام کی عکاسی کرتا ہے بدقسمتی سے ہم اسی ملک کے باسی ہیں۔ جب سے ایان علی کو عدالت نے ضمانت پر رہا کیا ہے اور جب سے جوڈیشل کمیشن نے پی ٹی آئی کی دھاندلی کی تحقیقات کے حوالے سے فیصلہ دیا ہے‘یہ خاکہ اس وقت سے سوشل میڈیا پر خوب گردش میں ہے۔ چلیں یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ برسوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں اور اس نظام کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول بھی کر لیا ہے لیکن یہ کیسے ہو گیا کہ جس ملک میں ایان علی کو لاکھوں ڈالر سمگل کرنے کی کوشش میں رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا اور تین ماہ بعد یہ کہہ کر چھوڑ دیا گیا کہ یہ ثابت نہیں ہوا کہ وہ یہ پیسے بیرون ملک لے جانا چاہتی تھی‘ اُسی ملک میں پنجاب فوڈ اتھارٹی ہوٹلوں پر چھاپے مار کر انہیں موقع پر مجرم ثابت کر رہی ہے اور دھڑا دھڑ جرمانے کئے جا رہی ہے۔ اس ادارے کی ڈائریکٹر آپریشنز شہر کے چھوٹے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں پر چھاپے مار کر صفائی کی غیر معیاری صورتحال پر انہیں جرمانے کر رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ چھاپے کی
تصاویر فیس بک پر بھی چڑھائی جا رہی ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ وہ بازاروں سے کیا کھاتے ہیں اور کیوں بیمار ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے یقین ہے کہ جن ریستورانوں کو وہ جرمانے اور سیل کر رہی ہیں ان کے کچن میں صفائی کا انتظام واقعی ناقص ہے۔مان لیتے ہیں کہ انہوں نے کھانے پینے کی اشیا پر کاکروچ چلتے دیکھے ہوں گے لیکن یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ واقعی کاکروچ تھے اور اگر وہ کاکروچ تھے بھی تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ کھانے پینے کی اشیا کے لئے نقصان دہ تھے۔ ممکن ہے کاکروچوں کو اپنی صفائی میں بولنے کا موقع ملتا تو وہ خود کو بے گناہ ثابت کر دیتے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فوڈ اتھارٹی نے دیکھا ہو کہ جو لوگ کھانا وغیرہ تیار کر رہے تھے ان کے ناخن لمبے اور ان کے ہاتھ گندے تھے لیکن اس سے یہ ثابت کیسے ہوگیا کہ واقعی ان کے ہاتھ گندے اور ناخن لمبے تھے۔ انہوں نے ان جگہوں سے باسی قیمہ‘ آلودہ پانی اور گلے سڑے پھل بھی برآمد کئے ہوں گے لیکن انہیں یہ کیسے یقین ہو گیا کہ قیمہ باسی‘ پانی آلودہ اور پھل واقعی گلے سڑے تھے۔ ہو سکتا ہے ان چیزوں سے بدبو بھی آ رہی ہو ‘ یہ اپنی اصل ماہیت بھی کھو رہے ہوں اور ان کا ذائقہ بھی خراب ہو لیکن ان سب باتوں
کا یقین انہیں کیسے آ گیا‘ پاکستان جیسے ملک میں یہ واقعی ایک معمہ ہے۔ اس ملک کے قاعدے اور قانون کو دیکھا جائے تو ان تمام ہوٹلوں اور ریستورانوں کو خالی نوٹس وغیرہ دئیے جانے چاہئیں تھے۔ انہیں کہا جاتاکہ آپ پرفلاں الزام ہے اور پھر ان کے خلاف عدالتوں میں کیس بھیجے جا تے ‘ وہاں سال دو سال دس سال بیس سال کبھی نہ کبھی تو فیصلہ ہو جاتا کہ ان ہوٹلوں میں مضر صحت کھانے پیش کئے جا رہے ہیں۔لیکن یہ کیا کہ یہاں تفتیش‘ٹرائل اور سزا کا سارا عمل چند منٹوں میں مکمل کیا جا رہا ہے اور وہ بھی گواہوں‘جرح‘وکلا اور سینکڑوں ہزاروں پیشیوں کے بغیر؟ سوال یہ ہے کہ جو طاقت اٹھارویں گریڈ کی ایک صوبائی افسر کے پاس ہے‘ ان اختیارات سے عدالت کاجج کیوں محروم ہے۔ وہی ثبوت جو موقع پر سچے اور چشم دید ہوتے ہیں ‘ وہ عدالتوں میں پہنچتے پہنچتے ریت کی دیواروں کی طرح تحلیل کیوں ہو جاتے ہیں۔جو بندہ اس سارے مسئلے کا حل نکال سکتا تھا اور جو اس نظام کو پیچیدگیوں اور بھول بھلیوں سے نکال کر عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے کے قابل بنا سکتا تھا‘ وہ شخص خود سیاست کے جوہڑ میں چھلانگ لگانے کو تیار بیٹھا ہے اور ہم آزاد عدلیہ کے نعرے لگا لگا کر یہ سوچتے رہے کہ یہ بندہ کوئی نہ کوئی انوکھا کام کر کے دکھائے گا۔ شاید اسے بھی اپنے سارے عدالتی کیرئیر میں سمجھ آ گئی کہ چپ کر کے ایک سیاسی جماعت بنا لو اور پھر وارے نیارے۔ دو چار سیٹیں بھی مل جائیں گی تو لاٹری نکل آئے گی۔سولو فلائٹ کرو گے تب بھی مزے اور اگر اتحاد کے لئے دعوت ملی اور ساتھ میں بریف کیس بھی تو موجاں ہی موجاں۔
ہمارے ایک عزیز دوست عرصہ بیس سال سے ایک پلاٹ کا قبضہ نہیں چھڑا پائے۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ کوئی مہاتڑ اور عام آدمی ہیں۔ ماشااللہ ایک نجی ادارے کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ صحافی بھی رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے تعلقات بھی ہیں لیکن ان کے پلاٹ پر جس نے قبضہ کیا ہے اس بندے کا تعلق حکمران جماعت سے ہے۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قبضہ تو حکمران جماعت کا کوئی ایم پی اے یا عہدیدار کرے اور اسے کوئی دوسرا آسانی سے چھڑا لے۔ موصوف کبھی کسی مقتدر شخصیت تو کبھی کسی مقتدر ادارے کے پاس جاتے ہیں لیکن بات نہیں بنتی۔ ان کے پاس سارے کاغذات بھی اصل ہیں لیکن وہ عدالت میں یہ ثابت نہیں کر پا رہے کہ وہ اس کے اصل وارث اور مالک ہیں۔ جن صاحب نے قبضہ کیا ہوا ہے انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں نہ جانے کیا ثابت کر دیا ہے کہ موصوف اس کا ابھی تک توڑ نہیں کر سکے۔ ان کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ اس کیس سے دستبردار ہو جائیں یا پھر اگلے بیس تیس سال پیشیاں بھگتتے رہیں۔ ایسا صرف انہی کے ساتھ نہیں بلکہ روزانہ کروڑوں عام لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جس کا نام محمد کریم ہے وہ عدالت میں یہ ثابت ہی نہیں کر پا رہا کہ وہ محمد کریم ہے بلکہ اس کے سامنے کھڑا کوئی اور شخص نہ صرف خود کو محمد کریم ثابت بھی کرتا ہے اور اس کا حق بھی غصب کر لیتا ہے۔ یہ سب کیا ہے۔ یہ ہمیں نظر آتا ہے تو ارباب اختیار کو کیوں نہیں؟شاید ان کی اپنی بقا بھی اسی میں ہے کہ یہ سسٹم چلتا رہے تاکہ ان کا دال دلیا بھی چلتا رہے۔نظام بدل گیا تو ان کی دکان بند ہو جائے گی جو انہیں ہرگز قبول نہیں۔ انہیں یہی نظام پسند ہے جس میں ایان علی جیسی خواتین تو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود ضمانت پر رہا ہو جائیں لیکن ایک سائیکل چور بیس برس کے لئے جیل چلا جائے۔ انہیں یہی نظام عزیز ہے جس میں ساری جماعتیں کہہ رہی ہوں کہ دھاندلی ہوئی ہے لیکن جوڈیشل کمیشن یہی فیصلہ دے کہ دھاندلی کا ثبوت نہیں ملا اور انہیں یہی نظام پیارا ہے جس میں ایک بکری سامنے کھڑی ہو اور وکلا یہی بحث کر رہے ہوں کہ یہ ہے تو بکری لیکن ثابت کیسے ہو گا !!