"ACH" (space) message & send to 7575

امریکہ براستہ لندن

وزیراعظم نواز شریف بھی امریکہ میں ہیں اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی۔دونوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 70ویں سالانہ اجلاس میں شرکت اور خطاب کے لئے وہاں پہنچے ہیں۔ جنرل اسمبلی کا اجلاس تیس ستمبر کو ہونا ہے لیکن میاں نواز شریف بائیس ستمبر کو امریکہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ پچیس ستمبر کو پاکستان میں عید الاضحی تھی۔ چند روز قبل بڈھ بیر پشاور کا سانحہ پیش آیا تھا۔ ضرب عضب آپریشن بھی ایک سال سے جاری ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اسی مناسبت سے فوجی جوانوں کے ساتھ عید منائی اور عوام کے دلوں میں مزید جگہ بنا لی۔ اور تو اور چودھری شجاعت حسین بھی سانحہ بڈھ بیر کے شہدا کے گھروں میں پہنچے اور کئی خاندانوں کی کفالت کا ذمہ لیا۔ لیکن وزیراعظم نے اس موقع سے یوں فائدہ اٹھایا کہ کئی دن پہلے ہی امریکہ روانہ ہو گئے ‘یوں انہیں یہ عید ''مجبوراً‘‘ راستے میں برطانیہ میں منانا پڑی۔ اس سے قبل جب سیلاب آیا تھا تو وزیراعلیٰ پنجاب بھی لندن میں تھے۔ وہ وہاں سے براہ راست ویڈیو کانفرنس پر میٹنگز سے خطاب کر رہے تھے لیکن ہمارے میڈیا کو چین نہ آیا ۔ تنقید کی ایسی مہم چلائی کہ انہیں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس آنا پڑا۔ وزیراعظم خوش قسمت تھے کہ ان کا یہ دورہ بڑی عید کے موقع پر آیا جس وقت میڈیا سمیت ساری قوم گوشت خوری میں محو تھی۔ ٹی وی اینکر اور صحافی بھی سال کی تھکان اتارنے میں مصروف تھے ‘ ہر طرف پکوانوں اور بکروں کے مزاحیہ پروگرام چل رہے تھے‘ چنانچہ وزیراعظم میڈیا کی مہم جوئی سے کافی حد تک محفوظ رہے۔تاہم اس میڈیا کا کیا کریں جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی شکل میں موجود ہے اور پل پل کی خبر برابر پہنچا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے قیام کے دوران سیکرٹری
جنرل بان کی مون سے ملاقات میں کشمیر اور کنٹرول لائن پر بھارتی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھایا۔ وہ بہت سے ممالک کے صدور سے بھی ملے۔ وہ بل گیٹس سے بھی ملے اور انہیں بتایا کہ اس سال پولیو کے صرف بتیس کیسز سامنے آئے ہیں۔ اگلے سال اس سے کم ہو جائیں گے۔ انہوں نے مختلف ممالک کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دی۔ یہ اور بات ہے کہ کسی نے ان سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ ‘آپ کے سمدھی اور آپ کا خاندان تو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تو ہمیں کس منہ سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے لئے کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے سینیگال کے صدر کو جے ایف تھنڈر طیارے بیچنے کی بھی آفر کی؛ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سینیگال کے صدر نے اس میں دلچسپی کیوں ظاہر نہیں کی۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم بھی امریکہ پہنچ گئے۔ میں نے ان کے دورے کی تفصیلات دیکھیں تو یہ حیران کن بھی تھیں اور قابل رشک بھی۔ مودی کو ایک مرتبہ پھر امریکی حکومت اور نجی کاروباری کمپنیوں کی طرف سے شاندار پذیرائی ملی تھی۔صاف نظر آ رہا تھا کہ مودی کے دورہ کے لئے ان کے سفارت کاروں نے زبردست لابنگ کی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا دورہ رسمی ملاقاتوں اور بیانات تک محدود رہا جبکہ مودی کا فوکس امریکہ کی ٹاپ آئی ٹی اوور بزنس کمپنیوں سے ملاقات اور ان سے معاہدے تھا۔ اپنے پانچ روزہ دورے کے دوران پہلے تین روز میں اب تک وہ اربوں ڈالر کے نو ایم او یو سائن کر چکے ہیں۔ ایک معاہدے کے تحت گوگل بھارت میں پانچ سو ریلوے سٹیشنز پر انٹرنیٹ وائرلیس سروس
فراہم کرے گا جس سے کروڑوں لوگ سفر کے دوران انٹرنیٹ سے منسلک ہو جائیں گے اور یوں بھارت کی آن لائن انڈسٹری کو زبردست بُوم ملے گا۔ بھارتی وزیراعظم فیس بک کے بانی مارک زکربرگ سے بھی ملے۔ ان کی پندرہ منٹ کی یہ ملاقات دونوں ممالک کے درمیان مضبوط معاشی تعلق کو واضح کر رہی تھی۔ اس ملاقات میں مودی نے فیس بک کے بانی کو بتایا کہ بھارت کی معیشت کا حجم آٹھ ٹریلین ڈالر ہے جسے وہ بیس ٹریلین ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں۔جواب میں مارک زکربرگ انہیں کہتے ہیں کہ بھارت ان چند ابتدائی ممالک میں سے ہے جنہوں نے انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا اور فیس بک کا استعمال شروع کیا۔ گفتگو میں مودی اعتراف کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے معاشرتی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونما کی ہیں۔اب حکومتیں اپنی من مانی نہیں کر سکتیں۔ سوشل میڈیا ان کی غلطیوں کی بروقت نشاندہی کرتا ہے جن سے سیکھ کر حکومتیں خود کو مستحکم کر سکتی ہیں۔سامعین میں سے کوئی سوال کرتا ہے کہ خواتین کا بھارتی معیشت میں کیا سکوپ ہے۔ مودی کہتے ہیں کہ انہوں نے ''بیٹی بچائو‘بیٹی پڑھائو‘‘ پروگرام شروع کیا ہے جس کے تحت خواتین معاشرے کا کارآمد حصہ بن سکتی ہیں۔مودی فیس بک کے بانی کے والدین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے دنیا کے سوچنے سمجھنے کا رُخ تبدیل کر دیا ہے۔اس کے بعد مودی کی گوگل کے نئے سی ای او سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک چالیس سالہ بھارتی نوجوان اس وقت گوگل کا چیف ایگزیکٹو ہے۔چند ماہ قبل گوگل نے اپنی کاروباری ضروریات کے پیش نظر کمپنی کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کا فیصلہ کیا تو سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ایک سیٹ اپ کو جب دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا تو گوگل کے سربراہ لیری پیج کس طرح دونوں حصوں کی نگرانی کرسکیں گے۔ لیری پیج نے اس سوال کا جواب سندر پچائی کی صورت میں دیا۔ سندر پچائی کا نام شاید آپ پہلی مرتبہ سن رہے ہوں لیکن گوگل کی معروف ترین مصنوعات کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گوگل کمپنی میں اگر سندر پچائی نہ ہوتے تو شاید گوگل براؤزر اور ہمارے موبائل فون میں اینڈرائڈ سافٹ ویئر بھی سامنے نہ آتے۔آبائی طور پر سندر پچائی کا تعلق جنوب مشرقی بھارتی صوبے تامل ناڈو سے ہے ۔ انہوں نے اپنی بیچلر کی ڈگری انڈین انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے حاصل کی۔ اس کے بعد امریکہ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی سے سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری اور پنسلوانیا یونیورسٹی کے وارٹن سکول سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بھی ماسٹرز ڈگری مکمل کی ۔ گوگل نے اپنے کمپنی ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نئی کمپنی ایلفابَیٹ بنائی ہے ۔ اس نئی کمپنی کی سربراہی ، گوگل کے سربراہ لیری پیج کے ہی سپرد ہوگی جبکہ چالیس سالہ بھارتی نوجوان سندر پچائی کو گوگل کا نیا چیف ایگزیکٹو آفیسر یا سی ای او مقرر کیا گیا ہے ۔ سندر کے بارے میں لیری پیج کا کہنا ہے کہ وہ خود کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ایک ایسا باصلاحیت انسان موجود ہے ، جو گوگل کو بھی چلا رہا ہے اور وہ توقعات پر پورا اترنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے ۔ سندر 2004 ء سے گوگل سے وابستہ ہیں ۔ محض گیارہ برس میں ایک عام ملازم سے سی ای او کی پوسٹ تک سفر کے بارے میں لیری پیج کا کہنا تھا کہ وہ سندرکی ترقی اور کمپنی سے وابستگی سے متاثر ہوئے تھے اور انہوں نے سندر سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں سیکھنے کا ہر موقع فراہم کریں گے اور اب سی ای او کی پوسٹ پر بٹھا کے انہوں نے یہ وعدہ پورا کردیا ہے ۔اس سے پہلے سندر گوگل مصنوعات کے نائب سربراہ تھے ۔ وہ اس ٹیم کے بھی ساتھ رہ چکے ہیں، جس نے2008 ء میں گوگل کروم براؤزر لانچ کیا تھا۔ اس کے علاوہ سندر پچائی گوگل کی سرچ پروڈکٹس ٹول بار، ڈیسک ٹاپ سرچ، گیجٹس اور گوگل گیئر وغیرہ کی تیاری اور ترقی میں بھی شامل رہے ہیں۔ 
وزیراعظم نواز شریف اور مودی کی امریکہ یاترا میں فرق آپ نے دیکھ لیا۔بھارتی حکمرانوں کا فوکس بھی واضح ہو کر سامنے آ گیا۔ ہمارا فوکس کیا رہا‘ ہمارے وزیراعظم نے کتنے مہنگے ہوٹل میں قیام کیا‘ کہاں کہاں سے خصوصی پکوان ان کے لئے بن کر آتے رہے‘ ان کی دیگر مصروفیات کیا رہیں‘ لیموزین میں کس کس نے جھولے لئے اور کس کس نے سیلفیاں بنوائیں‘ ہمارے سفارت کار امریکہ میں سارا سال آخر کون سے تیر چلاتے رہتے ہیں اور حکمرانوں کیلئے امریکہ براستہ لندن جانا اور بیرون ملک عید منانا کیوں ضروری ہوتا ہے ‘یہ سب ہمارے میڈیا کو سامنے لانا چاہیے کہ اب تک عید کے گوشت کا نشہ ہرن ہو چکا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں