لاہور کے حسن کی تباہی کا کام دن رات جاری ہے۔ کبھی میٹروبس ‘کبھی سگنل فری سڑک اور اب اورنج ٹرین‘ لاہوریوں کی آزمائش ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ شہر کا کوئی چوک اور کوئی بڑی سڑک ایسی نہیں ہے‘ جہاں دیوقامت تعمیراتی مشینری زلزلہ نہ برپا کر رہی ہو۔ بڑی سڑکوں اور چوکوں کو صرف اس وجہ سے سجایا اور چمکایا جا رہا ہے کہ یہاں سے حکمرانوں کی شاہی سواریوں اور اشرافیہ کی مرسڈیزوں نے گزرنا ہوتا ہے۔ پسماندہ علاقوں اور گلیوں کے گڑھے اور گٹروں کا پانی کسی کو نظر آیا ہے نہ آئے گا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ ہمیشہ کی طرح بڑے پروجیکٹس پر ہے‘ ان کی نظر میں کوئی اور مسئلہ باقی ہے نہ ہی صاف پانی‘ صحت‘ تعلیم‘ رہائش اور روزگار کے مسائل کوئی معنی رکھتے ہیں۔ سب بول بول کر ‘لکھ لکھ کر پاگل ہو چکے کہ حضور زمانے میں دُکھ اور بھی ہیں میٹرو کے سوا‘ لیکن جواب ندارد۔ فی کلومیٹر مہنگی ترین لاگت کے حساب سے لاہور میں ایشیا بلکہ دنیا کا مہنگا ترین میٹروبس منصوبہ بنایا گیا لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ رینگتی بھی کیوں کہ یہ سارے پیسے عوام سے ہی نچوڑے گئے۔ سگنل فری کرنے کا منصوبہ ہی کیا کم تھا کہ اورنج ٹرین سامنے آ گئی۔ ہر طرف گرد وغبار اور ہیوی مشینری کی وجہ سے ٹریفک کے اژدہام نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ رہی سہی کسر صوبائی اداروں بالخصوص ٹریفک کے محکمے نے نکال دی ہے۔ گزشتہ روز کسی ''فرض شناس‘‘ ٹریفک وارڈن نے ایمرجنسی مریض کو لے جاتی ایمبولینس کا بھی چالان کر دیا۔ اسے جناح ہسپتال سے سروسز میں منتقل کیا رہا تھا۔ ایمبولینس ڈرائیور نے ظاہر ہے سرخ سگنل کراس کئے‘ ون وے کی خلاف ورزی بھی کی ہو گی جو
پوری دنیا میں ایمبولینس کا قانونی حق ہے لیکن ایک پڑھے لکھے وارڈن نے اپنے آپ کو ''چھلڑ‘‘ ثابت کرنے اور چالان کے یومیہ کوٹے کو پورا کرنے کے لئے ایمبولینس میں موجود مریض کو بھی معاف نہ کیا۔ ایمبولینس ڈرائیور نے بہت کہا کہ مریض کی حالت خطرے میں ہے جس کے لئے اسے سگنل توڑنا پڑا لیکن تعلیم یافتہ ''چھلڑ‘‘اس کی بات سننے کو تیار نہ ہوا ‘اسے نہ قیمتی جان کی پروا تھی نہ اخلاقیات کا پاس۔ نہ صرف اس نے ایمبولینس ڈرائیور سے بدتمیزی کی‘ اس کا وقت ضائع کیا بلکہ چالان بھی کاٹ دیا۔ اس دوران مریض کی حالت مزید بگڑ گئی۔ خدا جانے مریض بچ پایا یا پھر وارڈن گردی کا شکار ہو گیاالبتہ اس سے ایک چیز ثابت ہو گئی کہ حکمران بھی عوام کی چھل اتارنے میں لگے ہیں اور وارڈنز بھی۔ چیف ٹریفک آفیسر لاہور نے نہ جانے وارڈنز کو کیا ہدایات کر رکھی ہیں لیکن وارڈنز کی کارکردگی سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ٹریفک بحالی کی تربیت لینے کی بجائے کسی جنگل یا بدنام زمانہ گوانتاناموجیل سے عوام کے ساتھ بدتمیزی کی ٹریننگ حاصل کی ہے۔ بڑی گاڑیوں کا چالان تو درکنار‘ انہیں روکنا بھی اب وارڈنز نے چھوڑ دیا کہ روکنے کا مطلب اپنی جان کو عذاب میں ڈالنا ہے۔ جسے بھی روکیں گے‘ وہ ایسا جواب دے گا کہ وارڈن کی پھوک نکل جائے گی۔ روزانہ کے بیس تیس چالان کاٹنے کا جو ٹاسک ملا ہوتا ہے وہ پورا کرنے کے لئے غریب عوام ہی بچتے ہیں۔
پنجاب کارڈیالوجی کے سامنے اور فورٹریس سٹیڈم والا چوک تو بدنام زمانہ شہرت حاصل کر چکا۔ یہاں کے وارڈنز نہ صرف شہریوں کے ساتھ بدتمیزی میں مشہور بلکہ سرعام گھونسے اور لاتیں مارنے کے لئے بھی بدنام ہیں۔ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے ملازم پر چند ماہ قبل اتنا تشدد کیا گیا کہ وہ بے چارا مرتے مرتے بچا۔ گزشتہ دنوں ایک شخص کو ریس کورس کے سامنے روکا گیا اور لفٹ نہ دینے پر دس پندرہ وارڈنز نے اس کی وہ خاطر تواضع کی کہ ہٹلر بھی ان کے سامنے معصوم لگنے لگا۔ فورٹریس سٹیڈم چوک والے وارڈنز کی رات کو کوشش ہوتی ہے کہ چالان کی دھمکی لگا کر نقد رقم وصول کر لی جائے۔ ہر کسی کی کوشش ہے کہ چیف ٹریفک آفیسر کے سامنے چالان سے بھری کتاب جا کر رکھے اور اپنے نمبر بنائے۔ چالان جمع کرانا اور لائسنس واپس لینا الگ عذاب ہے۔ چالان کے پیچھے لکھا ہوتا ہے کہ نیشنل بینک کی کسی بھی برانچ میں جمع کرائیں جبکہ وارڈن اوپر لکھ دیتا ہے کہ جس علاقے میں چالان ہوا‘ وہیں کے بینک میں جمع ہو گا۔ یعنی پہلے دو گھنٹے بینک ڈھونڈنے میں ضائع کرو‘ پھر طویل قطار میں لگو اور اس کے بعد تھانہ ڈھونڈو جہاں سے لائسنس واپس ملنا ہے۔ خیبر پی کے میں چالان فوری موقع پر ادا کرنے کی سہولت ہے۔ لیکن یہاں عوام کو اذیت دینا یہاں کے حکمرانوں اور ٹریفک کے شعبے کی ترجیح ہے ۔ شہر میں ٹریفک کی صورتحال ایک عذاب کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ وارڈنز ہمہ وقت اپنے موبائل فونز سے کھیلتے رہتے ہیں او ر کسی درخت یا دیوار کے پیچھے سے نکل کر شکار پر یوں حملہ آور ہوتے ہیں جیسے چھپکلی کیڑے مکوڑے کھانے کے لئے لپکتی ہے۔ گزشتہ روز ایمبولینس کو جس وارڈن نے روکا‘ اگر اسے معلوم ہوتا کہ ایمبولینس میں اس کا اپنا باپ‘ ماں یا بھائی بہن مریض موجود ہے تو کیا وہ کبھی ایسا کرتا؟
اگر تو اورنج ٹرین اور دیگر کھلونوں پر لگنے والا پیسہ ٹرانسپورٹ کے لئے مختص بجٹ سے آ رہا ہوتا تو کیا بات تھی۔ لیکن یہ پیسہ چونکہ دیگر شعبوں اور اداروں کا بجٹ کاٹ کر اور غریب طبقے پر نت نئے ٹیکس لگا کر نکالا جارہا ہے تو یہ سیدھی سیدھی ...گردی ہے۔میں صرف تین مثالیں دوں گا‘ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ میٹروبسیں‘ یہ سگنل فری سڑکیں اور یہ اورنج ٹرینیں چلانے کے لئے پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ سب سے پہلا کٹ تعلیم پر لگایا جا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اس مرتبہ پنجاب حکومت نے ستائیس فیصد بجٹ تعلیم کے لئے مختص کیا ہے۔ جب یہ اعلان ہوا تو سارے دنگ رہ گئے کہ یکایک لیگی حکومت کو کیا ہو گیا ہے۔ اب سمجھ آئی ہے۔ اگلے چند ماہ کے دوران آپ کو پنجاب بھر کے سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ سڑکوں پر دکھائی دیں گے کیونکہ جو سب سے بڑا کٹ لگے گا وہ اساتذہ کی تنخواہوں اور سرکاری تعلیمی اداروں کے اخراجات میں لگایا جائے گا۔ سکولوں کی ٹوٹی دیواروں‘ فرنیچر وغیرہ پر جو پیسہ بجٹ میں مختص کیا گیا‘ وہ اب اورنج ٹرین کو دھکا لگانے کے کام آئے گا۔ دوسرا کٹ قبرستانوں کے بجٹ کو لگایا گیا ہے۔ لاہور شہر میں دفن ہونا انتہائی مشکل ہو چکا کہ سرکاری قبرستان تو کب کے بھر چکے۔ نجی سکیموں میں دیگر افراد کو جگہ نہیں ملتی چنانچہ اس بجٹ میں قبرستانوں کے لئے مختص جگہ اور فنڈ اب اورنج ٹرین میں استعمال ہوں گے۔ تیسرا بڑا کٹ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے نے لگانا ہے۔ ہر انسپکٹر کو اپنے علاقے میں زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی کے لئے کمزور طبقے کو رگڑنے کا ٹاسک ملا ہے۔اگر کسی نے سنگل سٹوری پر مکان کرایہ پر دیاہے تو اسے ڈبل سٹوری کا ٹیکس بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ میں مین روڈ اور کارنر لکھ کر مزید ٹیکس بڑھایا جا رہا ہے۔ اگر کوئی ٹھیک کرانے جاتا ہے تو اس سے اتنی رشوت طلب کی جاتی ہے کہ وہ بے چارا اضافی ٹیکس دینے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ یہ صرف تین مثالیں ہیں۔ صحت کا بجٹ اس سے قبل ہی ترقیاتی کاموں اور وی وی آئی پی سکیورٹی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ سرکاری ہسپتال بھوت بنگلوں کا منظر پیش کر رہے ہیں اور لوگ دفن ہونے کے لئے سفارشیں کروا رہے ہیں ۔ ستم برستم یہ کہ میٹرو بس ایک ارب روپے ماہانہ ٹیکس کی سبسڈی پر چل رہی ہے تواورنج ٹرین کو چلانے کے لئے تین سے چار ارب ماہانہ درکار ہوں گے۔ یہ کہاں سے آئیں گے؟ ایک طرف کا کرایہ ایک سو ساٹھ روپے ہو گا۔یہ کون دے گا؟نتیجہ کیا نکلے گا ؟ لاہور کا حسن اور معیشت مزید برباد ہو جائے گی اور حکمران کرینوں پر بیٹھ کر قہقہے لگاتے کسی اور شہر پر چڑھ دوڑیں گے۔