ایک طرف پی آئی اے کا بحران حکومت کے قابو نہیں آرہا تو دوسری طرف بجلی کے بلوں میں عوام کے ساتھ ایسا ہاتھ ہوا ہے کہ انہیں دن میں تارے نظر آ گئے ہیں۔
اللہ کے فضل سے نون لیگ نے پیپلزپارٹی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ان میں اہم ترین ڈھٹائی ہے۔ پیپلزپارٹی کا سابق دور اس کی بدترین مثال ہے۔ کرپشن اور اقرباپروری کے کون سے ایسے ریکارڈ ہیں جو اس حکومت نے نہیں توڑے۔ ان کی اصل کارکردگی کرپشن نہیں بلکہ کرپشن سامنے آنے پر دانت نکالنا اور ریت میں سر دینا تھا۔ میڈیا کے روزانہ ڈیڑھ سو ٹاک شوز‘ بریکنگ نیوز اوراخبارات کے اڑھائی سو کالم اپنی جگہ شور مچاتے رہے تاہم سابق حکمرانوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ کسی کا دبائو لیں گے نہ ہی ٹینشن۔ آخری لمحات تک پیپلزپارٹی اس پالیسی پر کامیابی کے ساتھ عمل پیرا رہی۔رینٹل پاور پروجیکٹ ہو یا ایل این جی کے ٹھیکے‘ حکمرانوں نے جیسا سوچا ‘ویسا کیا‘ میڈیا اور اپوزیشن ایک پتہ تک نہ ہلا سکی۔ غور سے دیکھیں تو یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔نون لیگ پیپلزپارٹی کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ یہ سوچے بغیر کہ یہ بھی اسی انجام سے دوچار ہو گی اور پیپلزپارٹی کا انتخابات میں حشر کیا ہوا تھا‘ یہ اسے مسلسل کاپی کرنے میں لگی ہے۔ آپ پی آئی اے کو ہی لے لیں۔وزیراعظم نوازشریف کی سابق دور کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں‘وہ ببانگ دہل اعلانات کرتے دکھائی دیتے تھے کہ پی آئی
اے کی نج کاری سراسرخسارے کا سودا ہے اور اگر وہ اقتدار میں آئے تو انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر ادارے میں ایسی تبدیلیاں لائیں گے کہ غیر ملکی فضائی کمپنیوں کو جنم دینے والی یہ کمپنی ایک مرتبہ پھر دنیا کے لئے ایک مثال بن جائے گی۔وہ پیپلزپارٹی کی پرائیوٹائزیشن پالیسی کے سخت ناقد تھے ۔ شاید درون خانہ ان کی خواہش تھی کہ یہ نیک کام ان کے اپنے ہاتھوں سر انجام پائے۔ آج جب ان کی یہ خواہش پوری ہونے کا وقت آیا ہے تو میڈیا نے ان کی تقاریر کے کلپس چلا کر نجکاری کا ذائقہ خراب کر دیا ہے۔چند ماہ قبل تک جب بجلی کا بحران عروج پر تھا تو میڈیا ان کے وہ کلپس نکال کر لے آیا جن میں وہ اور ان کے وزرا اُچھل اُچھل کر چھ ماہ سے لے کر دو سال تک کے عرصے میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرتے دکھائی دئیے۔ آج نصف دور گزر چکا مگر لوڈشیڈنگ میں ایک منٹ کی کمی واقع نہ ہو سکی۔ اس پر ستم یہ کہ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی شرح میں سو فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ لیسکو نے جنوری کے صارفین کو جو بل بھیجے ہیں ان میں کسی غیر مرئی طاقت نے ایسا کمال دکھایا ہے کہ لیسکو کے بڑے بڑے افسران اس کی توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ سب سے پہلے ٹیکسوں کی بات کر لیتے ہیں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ چند ماہ قبل لیسکو نے امریکی تعاون سے بجلی کے بلوں کا ڈیزائن یکسر تبدیل کر لیا ہے۔ اب چیزیں بظاہر واضح کر دی گئی ہیں لیکن ان کی تفاصیل پھر بھی کسی کو معلوم نہیں۔ہر بل پر آپ کو درمیان میں ایک پائی چارٹ نظر آئے گا جس میں آپ کو لیسکو کے واجبات اور ٹیکسز کی شرح نظر آئے گی۔ آپ کوئی بھی بل اُٹھا کر دیکھ لیں‘ آپ کو بل میں 62فیصد بجلی کے واجبات اور 38فیصد ٹیکسز دکھائی دیں گے۔ اگر کسی کو سوا سو یونٹس کا بل بھیجا گیا ہے تو اس کی لاگت ساڑھے بارہ سو روپے لکھی گئی ہے‘ اس میں اگر 38فیصد ٹیکس ڈالے جائیں تو بل اٹھارہ سو کے قریب بنے گا۔یہاں پر غیر مرئی قوتوں کا کام شروع ہوتا ہے۔بل کے سامنے رقم سولہ سو ساٹھ درج ہے لیکن اصل کام اس سے نچلے خانے میں ڈالا گیا ہے۔ یہاں بقایا جاتAge/
کا خانہ ہے جہاں 35سو روپے کی رقم لکھی ہے۔یہ کیا ہے اور کہاں سے آئی؟ پہلا شک اس بات پر جاتا ہے کہ کہیں پچھلے ماہ بل ادا نہ کیا گیا ہو اور یہ وہ بقایا جات ہوں۔ جب بل کے نیچے بائیں طرف دیکھا جائے جہاں پورے ایک سال کی ادائیگیوں اور یونٹس کا ریکارڈ ایک ٹیبل کی شکل میں موجود ہے‘ تو حیرت ہوتی ہے کہ آخری ماہ کا بل وقت مقررہ پر ادا کر دیا گیا تھا اور ویسے بھی وہ رقم اس رقم سے یکسر مختلف ہے۔اس کو یہیں چھوڑیں اور ٹیکسوں والے خانے میں جائیں۔یہاں ٹیکسوں کا اتوار بازار نظر آئے گا۔ اس کی ہیڈنگ ہے ٹیکسز و دیگر۔ یہ دیگر کیا چیز ہے‘ اس کی تفصیل اسحاق ڈار یا ان کے آئی ایم ایف والے مہربان جانتے ہوں گے۔ ٹیکسز کی قطار میں جنرل سیلز ٹیکس‘ ایکسائز ڈیوٹی ‘ نیلم جہلم سرچارج‘ ایف سی سرچارج اور ٹی آر سرچارج کھڑے نظر آتے ہیں۔ جی ایس ٹی خدمات یا چیز بیچنے والے کو دینا چاہیے لیکن یہاں صارف دیتا ہے۔ نیلم جہلم سرچارج بیس پچیس سال سے چلا آرہا ہے۔ اس پر عدالت نے پابندی بھی لگائی لیکن یہ مسلسل صارف سے لیا جا رہا ہے۔ایف سی سرچارج اور ایکسائز ڈیوٹی بھی غیرمعروف نہیں۔ لیکن یہ ٹی آر سرچارج کیا ہے؟ اس بارے میں ‘ میں نے لیسکو کے انتہائی اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا تو موصوف نے حیرانی سے پوچھا‘ اچھا ایسا بھی کوئی ٹیکس ہے۔ پھر ایک نمبر ملایا اور اپنے محکمے کے ایک افسر سے اس کی تفصیل پوچھی۔ اس افسر نے بتایا کہ لیسکو کو جو لائن لاسز‘ بجلی چوری و دیگر مالی نقصانات ہوتے ہیںیا محکمے پر جو قرض کا اضافی بوجھ ہوتا ہے‘ اُسے ٹی آر سرچارج میں شامل کر کے صارفین میں بانٹ دیا جاتا ہے۔اس کی شرح بل میں موجود ٹیکسوں کا پچاس فیصد ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صارفین کئی ماہ سے چپ چاپ یہ سرچارج دیتے چلے جا رہے ہیں اور انہیں معلوم تک نہیں کہ انہیں اس گناہ میں شریک کیوں کیا گیا۔ کسی کا چار ہزار بل ہے تو اس میں ایک ہزار روپے ٹی آر سرچارج ہو گا۔ حکمران خدا کا خوف کریں‘ اس قدر ٹیکس لے رہے ہیں اور پھر عوام کو طعنے دیتے ہیں کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام کی جیب پر ڈاکہ مارا جا رہا ہے۔ جس محکمے کو خواجہ آصف اور عابد شیر علی جیسے ''قابل‘‘ لوگ چلا رہے ہوں‘ وہاں آپ اداروں سے کیسی کارکردگی کی توقع کریں گے۔ البتہ سپریم کورٹ نوٹس لے تو بہت کچھ واضح ہو سکتا ہے!
پی آئی اے کو روزانہ دس کروڑ کا جو ٹیکا لگ رہا ہے‘ وہ لامحالہ عوام کی جیب سے پورا ہو گا۔لیسکو بھی اپنی نااہلی کا بوجھ عوام پر منتقل کر رہا ہے اور عوام چپ چاپ سہے جا رہے ہیں۔ آخر یہ ظلم کب تک چلے گا؟کب تک عوام ٹیکس کے بدلے خالی اعلانات اوردعوے سنتے رہیں گے؟ وہ اپنی بپتا کس کو اور کیسے سنائیں؟کیا اس ملک میں سب گونگے بہرے ہیں؟غلطیاں اور نقصانات محکمہ کرے اور بھریں عوام۔وہ احتجاج کریں تو خطاکار‘ چپ رہیں تو گناہگار۔حکمرانوں نے جس کے دعوے کئے تھے‘ کیا یہی ہے وہ چمتکار؟