اگر یہ سچ ہے کہ عمران خان نے اپنے منشور میں جن اداروں کو پرائیوٹائز کرنے کا اعلان کیا تھا ‘ پی آئی اے ان میں سے ایک ہے تو قوم کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اور دیگر جماعتیں مل کر یہ ایشو محض حکومت کو لتاڑنے کے لئے استعمال کرتی رہیں۔ آخر میں نکلا کیا؟پی آئی اے ملازمین کی ایکشن کمیٹی نے ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور وہ بھی مطالبات منوائے بغیر۔ اس ساری بے معنی ایکسرسائز کا حاصل کیا تھا؟ دو قیمتی جانوں کا ضیاع بلکہ دو خاندانوں کی بربادی‘ اڑھائی ارب کا نقصان‘دنیا کے سامنے مزید خجالت و شرمندگی اور کئی دن تک ہزاروں مسافروں کی خواری؟ میرے ایک عزیز لندن سے کچھ دنوں کے لئے اسی دوران میں پاکستان آئے‘ جب ہڑتال ڈرامہ جاری تھا۔پانچ اور چھ تاریخ کی درمیانی رات ان کی پی آئی اے کے ذریعے واپسی تھی ۔ وہ ایئرپورٹ اور ٹریولنگ ایجنٹس کے درمیان فٹ بال بنے رہے لیکن ٹکٹ کنفرم ہونے کے باوجود مقررہ تاریخ کو واپس جا سکے نہ ہی اس دوران کوئی جہاز اڑا۔ ان کے بیٹے نے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا تھا اور سات تاریخ کو وہاں تقریب تھی۔انہیں ہر حال میں اس سے قبل وہاں پہنچنا تھا لیکن ہڑتال کے باعث تقریب میں شریک نہ ہو سکے۔ یقینا اپنے غیرملکی اساتذہ کو ان کے بیٹے نے جب یہ بتایا ہو گا کہ ہماری سرکاری ایئرلائن سڑکوں پر اوندھی پڑی ہے اور چند لوگ یہی چاہتے ہیں کہ یہ سفید ہاتھی اس قوم اور معیشت کو پائوں تلے مسلتا رہے تو عالمی
دنیا میں ہماری کیا عزت باقی رہ گئی ہو گی؟ یہ تو ایک واقعہ تھا۔ ہر کسی کی اپنی کہانی تھی۔ کسی نے کہیں فوتگی پر پہنچنا تھا، کسی نے علاج کے لئے دوسرے شہر جانا تھا تو کسی نے کاروباری معاملات چلانے تھے ۔ لوگ دوسری ایئرلائنز کو زیادہ کرایہ دے کر جانے پر مجبور رہے اور جھولی بھر بھر کر ان لوگوں کو بددعائیں دیتے رہے کہ جن کی وجہ سے انہیں یہ تنگی اٹھانی پڑی۔ سوال یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف الیکشن سے قبل پی آئی اے کی نجکاری کے حق میں تھی اور اگر یہ نجکاری کے بعد بہترین ایئرلائن بن سکتی ہے تو اس کی نجکاری میں کون سی قیامت آ جائے گی؟ جہازوں میں نہ غریب لوگ سفر کرتے ہیں نہ ہی فاقہ کش۔ یہ امیروں کی سواری ہے لیکن سابق ادوار میں اس کے ساتھ جو حشر ہوا‘ اس سے یہ نہ ہی غریبوں کے سفر کے قابل رہی نہ امرا کے۔ اگر نجکاری کے بعد اس کے معیار میں بہتری آ جاتی ہے‘ اگر اس کے جہاز وقت پر اڑان بھرنا شروع کر دیتے ہیں‘ اگر اسے دنیا بھر میں نئے روٹس مل جاتے ہیں اور اگر اس کی ایئرہوسٹسیں مسافروں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے بہتر انداز میں ٹریٹ کرنا شروع کر دیتی ہیں تو پھر اس کی نجکاری میںمضائقہ کیا ہے؟ جو بھی اسے خریدے گا‘ وہ ظاہر ہے اپنی جیب سے خریدے گا اور وہ کبھی اس کا وہ حال نہیں ہونے دے گا‘ جو ہم کسی سرکاری ادارے کی نوکری کرتے ہوئے اس کا حال کرتے ہیں۔
اسے پتہ ہو گا کہ مارکیٹ میں اور بھی ایئرلائنز موجود ہیں‘ مسافر کسی بھی ایئرلائن کا انتخاب اپنی مرضی اور منشا سے کرسکتے ہیں ؛چنانچہ جس ایئرلائن کی سروس مقابلتاً بہتر ہو گی‘ مسافر کا رُخ خودبخود اس کی جانب ہو جائے گا۔ آپ اشرافیہ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں‘ گزشتہ دور میں بھی ہر کسی کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ نجی یا غیر ملکی ایئرلائن میں سفر کرے۔ سوال یہ بھی ہے کہ آج جو ہڑتالی نجکاری کے اعلان پر سڑکوں پر آئے‘ وہ اس وقت کہاں تھے جب یہ خسارے کی طرف اڑان بھر رہی تھی‘ جب اس میں سیاسی بھرتیاں کی جا رہی تھیں اور جب ایک ایک جہاز کی خدمت پر سات سات سو لوگ مامور کئے جا رہے تھے‘ تب انہیں اس قومی اثاثے کی درستی اور اسے بچانے کا خیال کیوں نہ آیا تھا؟ تب انہوں نے اس مقصد کے لئے کتنی ہڑتالیں کی تھیں اور کتنے جلسے اور جلوس نکالے تھے؟ ہر دوسرا شخص ایسے درجنوں
لوگوں کو جانتا ہے جو پی آئی اے میں ملازمت کرتے ہیں لیکن وہاں محض تنخواہ لینے یا سیاست کے لئے جاتے ہیں۔جب بھی ہمارا کوئی عزیز وطن کی سرزمین پر قدم رکھتا ہے‘ اس کا واسطہ سب سے پہلے پی آئی اے کے سٹاف ‘ امیگریشن اور کسٹم حکام سے پڑتا ہے۔ فضا میں تو اس کے ساتھ جو ہوتا ہے ہو چکا ہوتا ہے‘ لیکن زمین پر اس کی درگت بنانے کو جو لوگ بے چین ہوتے ہیں‘ وہ یہی ہڑتالی چھاتہ بردار ہوتے ہیں جنہیں پیپلزپارٹی کی حکومت نے پرچیاں تھما کر پی آئی اے میں اُتارا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے میں بھرتی کے لئے جس درخواست پر سابق صدر کی ہمشیرہ کے نام کے پہلے تین حروف لکھے ہوتے تھے‘ وہ درخواست کبھی رد نہیں کی جاتی تھی۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ نجکاری نہ کرو ‘ اس کی مینجمنٹ بہتر کرو تو جب نااہل ملازمین کی چھانٹی کی باری آتی ہے تو یونین سڑکوں پر آ جاتی ہے اور ان کے پیچھے یہی سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپ بھونپو اُٹھا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس اندیشے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ نجکاری کے بعد کرایوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ تو بھائی کیا ہم بہتر معیار کے حصول کے لئے زیادہ رقم نہیں خرچتے۔ کون بیوقوف ہے جو اخراجات کا بوجھ اپنی جیب پر ڈالے گا۔ موجودہ صورتحال میں تو یہی ہو رہا ہے۔ یہ سرکاری ایئرلائن ہے چنانچہ نہ ملازمین کو اس کی فکر ہے نہ یونین کو نہ پائلٹس کو۔ اگر کسی کو فکر ہے تو اپنی تنخواہوں‘ مراعات اور عیاشیوں کی جو وہ کروڑوں غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر کر رہے ہیں۔ جب اس کی نجکاری ہو گی تو لامحالہ یہ ٹیکس کے دائرے میں آئے گی اور اگر کسی قابل کے ہاتھ آئی تو وہ اسے منافع بخش بنا کے چھوڑے گا جس کے نتیجے میں ٹیکسوں کا حجم بڑھے گا اور لوگ غیرملکی ایئرلائنوں کی جیب میں پیسہ ڈالنے کی بجائے اپنے ملک کی ایئرلائن کو ترجیح دیں گے مگر یہ سب ان سیاستدانوں کو کیسے بھائے گا جن کا پہیہ صرف دبائو کی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔یہ لوگ غریبوں کا نام تو لیتے ہیں‘ ان کی لاشوں کو اپنے مقصد کے لئے استعمال بھی کر لیتے ہیں لیکن اُن کے اپنے ہی اداروں میں غریبوں اور ورکروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ ہڑتالی کمیٹی نے قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا‘ اس پر تو اُن سے باز پرس ہونی ہی چاہیے‘ اب ان پر حکومت کو ایسے چھاننی لگا دینی چاہیے کہ روڑے کنکر سب الگ الگ ہو جائیں۔ ان لوگوں نے جس طریقے سے مطالبات منوائے بغیر یوٹرن لیا ہے‘ اس سے واضح ہو تا ہے ‘ یہ لوگ گیدڑ بھبکیوں کے زور پر ایئرلائن کو یرغمال بنانا چاہتے تھے اور اسی مقصد کے لئے وہ دو لوگوں کی لاشوں پر سیاست کرنے سے بھی باز نہ آئے۔ اور تو اور‘ انہوں نے یوٹرن لینے پر ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی پیچھے چھوڑ دیا‘ جو ماڈل ٹائون کی چودہ لاشیں اٹھا کر اسلام آباد پہنچے اور بات نہ بنی تو کینیڈا یاترا کیلئے نکل گئے ۔
یہی کچھ ایکشن یا یوٹرن کمیٹی نے مظاہرین کو استعمال کر کے کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیااس ہڑتالی کمیٹی کو دونوں خاندانوں کے لواحقین کراچی کی سڑکوں پر بہنے والا خون کبھی معاف کرسکیں گے؟کیا ان کا خون ہڑتالیوں ‘ جیالوں اور جیالیوں کی سیاسی انا کی تسکین کے لئے رگوں میں گردش کر رہا تھا؟کیا یہ خون رائیگاں چلا گیا؟