اتوار کو لاہور جلسے سے قبل شہر میں تحریک انصاف نے جو بینرز لگائے تھے ان میں تحریک انصاف کے سربراہ کو شیروانی پہنے اور سینے پر ہاتھ رکھے دکھایا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ گارڈ آف آنر لے رہے ہوں‘ ان کے ساتھ چینی یا امریکی صدر کھڑے ہوں اور سامنے سے فوجی دستہ انہیں سلامی دیتے گزر رہا ہو۔ خواب دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں‘ مگر سمت بھی تو درست ہونی چاہیے اور عمل؟ اس سے قبل جماعت کے تشہیری مواد میں خان صاحب کی تصاویر مختلف ہوتی تھیں۔ ان میں انہیں مکے لہراتے یا دونوں ہاتھ ہوا میںہلاتے دکھایا جاتا گویا وہ قلعہ فتح کرنے یا کشتی لڑنے چلے ہوں۔ ان کی میڈیا ٹیم کو غالباً بیس برس بعد احساس ہوا کہ خان صاحب تو وزیراعظم کے عہدے کے متمنی ہیں اور اسی کے لئے یہ ساری جدوجہد کی جارہی ہے چنانچہ ایسی جارحانہ تصاویر قومی لیڈر کے شایان شان نہیں۔ ان کا ایسا امیج پیش کیا جانا چاہیے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ یہاں تک تو بات تھی تصاویر کی‘ لیکن ان تقاریر کا کیا کیا جائے جن میں خان صاحب مخالفین کے لئے ایسے جملے اور محاورے بدستور استعمال کررہے ہیںجو ایک قومی لیڈر چھوڑ کے‘ ایک کونسلر کے شایان شان بھی نہیں۔ دھرنے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ لیڈروں کو سیکھنے کے عمل سے گزرتے رہنا چاہیے ‘ خاص کر انہیں جو تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اتوار جلسے کے صرف دو جملے ملاحظہ ہوں۔
٭اسمبلی میں مولا جٹ بن کر چلنے والے خواجہ آصف لاہور کے رنگ باز کے علاوہ کچھ نہیں۔
٭ایک وزیراسمبلی میں مولا جٹ بن کر چلتا ہے لیکن یہی وزیر ایک ٹی وی پروگرام میں آیا تو لگا چوہا سوٹ پہن کر بیٹھا ہے اور چوں چوں کرر ہا ہے۔
اب آپ خود بتائیں کہ اس قسم کی تقاریرکوئی لیڈر اپنے جلسے میں کرے گا تو وہ اپنے کارکنان کو کیا پیغام اور تربیت دے گا۔ وزیراعظم نواز شریف سے ہم لاکھ اختلاف کر سکتے ہیں‘ ہم کہہ سکتے ہیں وہ پانامہ ایشو پر سنجیدہ نہیں ہیں‘ وہ اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ انہوں نے اپوزیشن کی مرضی کے ٹی او آر نہیں بنائے لیکن کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے اپنے بدترین مخالف کے خلاف اخلاق سے گری زبان استعمال کی ہو۔ وہ ہمیشہ عمران خان کو خان صاحب کہہ کر پکارتے ہیں بلکہ ہر ایک کے ساتھ صاحب لگاتے ہیں۔ چلیں آپ انہیں فالو نہیں کرنا چاہتے نہ کریں لیکن یہ ضرور دیکھ لیں کہ اس طرح کی زبان استعمال کرنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جو آپ کے جلسے میں آیا ہے‘ جسے بیروزگاری اور حالات کے جبر نے پہلے ہی ستایا ہوا ہے کیا آپ کی اس طرح کی زبان اس میں مخالفین پر چڑھ دوڑنے کی تحریک نہیں پیدا کرے گی؟ کیا وہ یہ نہیں چاہے گا کہ ووٹ کی طاقت سے مخالف کو گرانے کی بجائے ڈنڈے اور ہتھیار کے زور پر فیصلہ کیا جائے؟ اگر آپ کہیں گے کہ منتخب وزیراعظم کو گریبان سے پکڑ کر ایوان سے باہر نکالو تو آپ کا ورکر اس سے کیا سیکھے گا؟ ایک
طرف آپ نے اتوار کے جلسے میں ہمیشہ کی طرح مغرب کی مثالیں دیں‘ آپ نے فرمایا ‘مجھ سے زیادہ کس نے مغرب میں وقت گزارا ہو گالہٰذا میں بتاتا ہوں وہاں جمہوریت کیوں مضبوط ہے۔ تو جناب آپ خود بتائیں کیا وہاں کا اپوزیشن لیڈر اس طرح کے کلمات ادا کرتا ہے‘ کیا وہ رستم کے دنگل سٹائل کی سیاست کرتا ہے؟
عجیب بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو علم تھا کہ مال روڈ لاہور پر جلسہ جلوس کی پابندی ہے۔ یہ پابندی کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ ہوا یہ تھا کہ مال روڈ کے تاجران روز روز کے جلوسوں سے تنگ آ کرعدالت پہنچے اور درخواست کی کہ ہم یہاں رزق کمانے آتے ہیں‘ یہ لاہور کی پرانی کاروباری اور مصروف ترین گزرگاہ اور مارکیٹ ہے لیکن اگر یہاں چند سو کا مجمع اکٹھا ہو جائے تو ہزاروں تاجروں اور لاکھوں شہریوں کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔اس پر ہائی کورٹ نے اس سڑک پر دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی۔ آپ مغرب کی جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو پھر مغرب کے عدل کی بات بھی کیجئے۔ آپ بتائیں کہ کیا وہاں جلسے کرنے کے لئے جگہیں مخصوص نہیں؟ کیا وہاں اس طرح سڑکیں اور چوراہے بند کئے جاتے ہیں؟پورا لاہور چھوڑ کر آخر آپ نے مال روڈ کا انتخاب کیوں کیا؟ آپ مینار پاکستان چلے جاتے‘ کسی اور پارک یا کھلی جگہ پر انگلی رکھ دیتے اور وہاں جلسہ رکھتے ۔اس سے آپ کو دو فائدے ہوتے‘ ایک تو ہزاروں لوگ جو اتوار کے جلسے کی وجہ سے سڑکیں بند ہونے سے خوار ہوئے‘ وہ ایمبولنسیں جنہیں جگہ جگہ کنٹینر ہونے کی وجہ سے دربدر بھٹکنا پڑا‘ یہ سب لوگ اطمینان کے ساتھ اپنا کام جاری رکھتے اور دوسرا فائدہ آپ کی جماعت کی ساکھ کو ہوتا۔ پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر آپ نے جلسے کی خواتین سے معافی مانگی اور وعدہ کیا کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا اور انتظامات بہتر ہوں گے تو جناب اگر آپ یہ جلسہ کھلی جگہ رکھتے تو خواتین کے لئے انکلوژر میں آنے اور جانے کے راستے مردوں سے الگ ہوتے جو چیئرنگ کراس پر ممکن نہ تھا۔ بھگدڑ کے بعد آپ کے ہر رہنما نے یہی کہا ہم تو جلسہ ختم ہونے کے بعد چلے گئے تھے یہ واقعہ بعد میں ہوا۔ یعنی عوام کو آپ نے حالات پر چھوڑ دیا حالانکہ لیڈروں کو اصولاً شرکا کے جانے کے بعد وہاں سے جانا چاہیے اور عوام کا خیال اپنے بچوں کی طرح رکھنا چاہیے۔لیکن آپ اس مرتبہ بھی خواتین سے کئے گئے وعدے کی لاج نہ رکھ سکے اور یوں لوگوں کو انگلیاں اٹھانے کا موقع مل گیا کہ جو لیڈر سینکڑوں جلسوں کے بعد بھی جلسے کے انتظامات درست نہیں کروا سکا‘ جو مائوں بہنوں کی حفاظت نہ کر سکا‘ وہ ملک کا نظم کیسے درست کرے گا؟اگر آپ کسی پارک میں جلسہ رکھتے تو اتنی بڑی تعداد میں پولیس اور دیگر اداروں کو نہ کھپانا پڑتا جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر چلتے ہیں۔ اگر ان لوگوں کو وی آئی پی موومنٹ کے لئے استعمال کرنا درست نہیں تو پھر ایک ایسے جلسے کے لئے استعمال کرنا کیسے درست ہو گیا جس میں آپ نے کوئی ایک بات نئی نہ کہی ہو۔ اگر آپ پانامہ لیکس پر حکمرانوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے جلسوں کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اپنی ٹیم اگر کوئی ہے تو اس کے ساتھ بیٹھیں اور ٹی او آر بنا کر پریس کانفرنس کر دیں‘ سارا میڈیا آپ کو لائیو دکھا دے گا۔اس کیلئے اتنے لمبے بکھیڑے اور لوگوں کو گرمی میں اَدھ موا کرنے کی کیا ضرورت؟رہی بات جلسے میں کتنے لوگ تھے تو اس کا حل بڑا سادہ ہے۔ جلسے میں داخل ہونے والے واک تھرو گیٹ ایسے لگوائیں جن میں سے بندہ گزرے تو وہ تعداد کو سکرین پر ظاہر کر دے۔ ایسے گیٹ عام ملتے ہیں۔ ان واک تھرو گیٹس پر میڈیا اور غیر جانبدار لوگ بٹھا دیں‘ شرکا کی مجموعی تعداد سامنے آ جائے گی۔ لیکن یہ پارٹی ایسا نہیں کرے گی کیونکہ آئندہ جلسوں میں گرمی بھی بڑھے گی اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے باعث شرکا کی تعدادبھی کم ہو جائے گی۔
پس تحریر:معلوم ہوا ہے‘ حکومت پبلک مقامات پر میوزیکل بینڈز کے لائیو میوزک شوز پر سے پابندی ہٹانے کا سوچ رہی ہے۔ ان میں ملکی و غیر ملکی معروف بینڈز اور گلوکار شرکت کریں گے اور یہ فیملی میوزک شوز منظم بھی ہوں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو تحریک انصاف کے جلسوں کا کیا بنے گا؟