مریم نواز نے بتایا: میرے والد نے آپریشن سے چند لمحے قبل کہا: میں خود کو اللہ کے حوالے کرتا ہوں۔
وزیراعظم نواز شریف جس ہسپتال میں زیرعلاج تھے وہ دل کی سرجری کے لئے برطانیہ کا بہترین ہسپتال شمار ہوتا ہے۔دی ہارلے سٹریٹ کلینک میں 34 بہترین ڈاکٹرز اور سرجن اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔وزیراعظم کا آپریشن جن تین سرجنز نے کیا‘ وہ لندن کے چوٹی کے سرجن مانے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ہم دیکھیں تو وزیراعظم دنیا کی محفوظ اور بہترین جگہ پر موجود تھے جہاں علاج و معالجہ کی سہولیات دنیا بھر سے بہتر تھیں۔ صرف وزیراعظم نواز شریف ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جسے اللہ نے استطاعت دی ہے‘ اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ بہترین جگہ سے علاج کرائے۔ چلیں یہ تو حکمران اور اشرافیہ کی بات تھی‘ لیکن وہ لوگ کہاں جائیں جو ان حکمرانوں کو ووٹ بھی دیتے ہیں‘ انہیں اقتدار میں بھی لاتے ہیں اور انہیں دنیا میں کہیں سے بھی علاج کرانے کے قابل بھی بناتے ہیں لیکن وہی اٹھارہ کروڑ لوگ اپنے ملک میں دل جیسے بڑے آپریشن افورڈ کرنا تو دُور کی بات‘ ہیپاٹائٹس اور یرقان جیسی بیماریوں کا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔میں ایک حقیقی کردار کو حکمرانوں ‘اشرافیہ اور آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ یہ میری آنکھوں دیکھی کہانی ہے‘ آپ اسے پڑھئے اور خود فیصلہ کیجئے‘ یہ کون لوگ ہیں اور ان کا قصور کیا ہے:
چکوال کے اٹھارہ سالہ حمزہ کے ناخن نیلے پڑنے لگے تو اس کا والد اسے لاہور لے آیا‘ یہ لوگ پنجاب کارڈیالوجی پہنچے جہاں انہیں پانچ ہزار کے ٹیسٹ لکھ دئیے گئے‘ یہ لوگ جو پہلے ہی کرائے کی گاڑی ادھار پکڑ آئے تھے ایک مرتبہ پھر مشکل میں پڑ گئے کہ ٹیسٹ کہاں سے کرائیں۔ انہوں نے رحم کی درخواست کی تو جواب ملا مفت علاج کرانا ہے تو قطار میں لگ جائو دو تین مہینوں میں باری آ جائے گی۔ مجبوراً کہیں سے پیسے پکڑ کر ٹیسٹ کرائے‘ معلوم ہوا حمزہ کے دل کے دو والو بند ہیں اور اس کے دل کی صاف اور گندے خون کی نالیاں بھی ایک ہیں‘ یہ آپس میں جڑی ہوئی ہیں‘ حمزہ کا آپریشن ہو گا تو بچے گا وگرنہ یہ دو تین برس سے زیادہ نہیں جی پائے گا۔یہ سن کر یہ سب اِدھر اُدھر بھاگے ‘ اخباروں کے دفاتر میں پہنچے اور علاج کی اپیل چھاپنے کی درخواست کی‘ ایک جگہ ان کی خبر چھپ گئی‘ خبر کا نوٹس لیتے ہوئے حکومت پنجاب نے حمزہ کے مفت علاج کے احکامات جاری کر دئیے۔ حمزہ کو پنجاب کارڈیالوجی میں داخلے کی ہدایت ملی اور اس کے آپریشن کے تمام اخراجات حکومت پنجاب نے اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ لوگ پنجاب کارڈیالوجی پہنچے ‘ ان کا خیال تھا خط دیکھ کر فوراً بچے کو داخل کر لیا جائے گا‘ اس کے ٹیسٹ ہوں گے‘ بچے کا آپریشن ہو جائے گا اور یہ خوشی خوشی واپس چلے جائیں گے مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو۔ سرسری سے چیک اپ کے بعد انہیں ایک کاغذ تھما دیا گیا جس میں لکھا تھا بچے کی ای سی جی‘ ایکس رے اور خون کے ٹیسٹ ہوں گے جن کیلئے وہ بچے کو سوا سال بعد صبح آٹھ بجے خالی پیٹ لے کر آئیں اور اس کے بعد اگلے دن اس کی انجیوگرافی کی جائے گی۔ انجیو گرافی کے لئے حمزہ کو جو وقت دیا گیا اس میں ایک سال دو ماہ چوبیس دن یا چونسٹھ ہفتے باقی تھے‘ دوسرے لفظوں میں حمزہ اور اس کے والدین کو تکلیف اور درد کے مزید انتالیس لاکھ باون ہزار آٹھ سو سیکنڈز سے گزرنا تھااور اس کے بعد بھی کچھ پتہ نہیں اِن کے ساتھ کیا ہوتا‘ علاج ہوتایا پھر کوئی نئی تاریخ مل جاتی ڈاکٹر صاحب چھٹی پر چلے جاتے‘نئی حکومت آ جاتی یا پھر موت کا فرشتہ حمزہ کو اُچک کر لے جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ یہی حمزہ اگر صدر‘ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے گھر پیدا ہوا ہوتا‘ یہ اگر کسی بزنس مین‘ سیاستدان یا کسی امیر گھرانے میں جنم لیتا تو کیا یہ علاج کیلئے ایسے ہی تڑپتا‘ کیا یہ سرکاری ہسپتالوں کے دھکے کھاتا؟کیا اسے علاج کیلئے ڈیڑھ سال کا وقت ملتا اور کیا اس کے والدین قدرت کا لکھا یونہی قبول کر لیتے؟ آپ حکمرانوں کی اپنی ذات اور اپنے مہربانوں کیلئے مہربانیاں ملاحظہ کیجئے یہ لوگ چھینک بعد میں مارتے ہیں لیکن علاج کیلئے یورپ اور امریکہ پہلے پہنچ جاتے ہیں‘ یہ اپنے لئے دنیا کے بہترین ہسپتال‘ بہترین سرجنز اور بہترین انوائرمنٹ ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن جب غریب‘ نادار اور مجبور لوگوں کی باری آتی ہے تو انہیں انتظار اور نااہلی کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ کیا ہمارے حکمران ان حقائق سے ناآشنا ہیں کہ پاکستان میں سالانہ چالیس ہزار بچے دل کے بعض نقائص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں؟ ان میں سے دس ہزار کو آپریشن اور انجیوپلاسٹی کی ضرورت ہوتی
ہے باقی ادویات سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے ایسے ہوتے ہیں جو صحت مند پیداہوتے ہیں لیکن بعد میں دل کے مریض بن جاتے ہیں‘ اِن دس ہزار میں دو سے تین ہزار بچے انجیوپلاسٹی سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جبکہ سات آٹھ ہزار بچوں کو اوپن ہارٹ سرجری کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں کل ملا کر پندرہ سو سے دو ہزار سرجیکل آپریشن ہو رہے ہیں‘ دوسرے لفظوں میں پانچ سے چھ ہزار بچے ہر سال خاموشی سے سفر آخرت پر روانہ ہو جاتے ہیں کیونکہ سرجری اور انجیوپلاسٹی دو لاکھ سے چار لاکھ میں ہوتی ہے اور یہ اخراجات عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں اُن بچوں کا علاج بھی ممکن نہیں جن کے دل کا والو مکمل طور پر بند ہوتا ہے یا بنا ہی نہیں ہوتا‘ انہیں کسی اور انسان یا جاندار کا والو لگانا پڑتا ہے اور اس علاج کا سیٹ اپ بھی یہاں موجود نہیں۔یہ بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ میں ہے لیکن مسئلہ وہی ہے کہ ہر بچہ وہاں جانے کے اخراجات نہیں اٹھا سکتا چنانچہ یہاں آ کر پھر سینکڑوں بچے موت کی آغوش میں سونے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جو علاج یہاں ممکن ہے اس کی بھی یا تو کثیر تعداد استطاعت نہیں رکھتی یا پھر ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات‘ فنڈز اور مشینری کی عدم دستیابی‘ محکمہ صحت کی بدانتظامیاں اور ڈاکٹروں کی ہڑتالیں اور من مانیاں ایسے لوگوں کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔
وزیراعظم کا آپریشن خیریت سے مکمل ہو گیا۔ ان کی صحت بہتر ہو رہی ہے۔ اللہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ وہ جلد از جلد صحت یاب ہوں اور واپس آ کر اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وطن پہنچ کر انہیں چاہیے‘ وہ جس نازک مرحلے سے گزرے ہیں‘ اس پر غور کریں اور سوچیں کہ وہ کتنے خوش نصیب انسان ہیں جنہیں علاج کے لئے نہ تو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا‘ نہ کسی سے
سفارش کروانی پڑی‘ نہ آپریشن کا طویل انتظار کرنا پڑااور نہ ہی کسی پیچیدگی کا سامنا کرنا پڑا چنانچہ وہ اس پر جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے؛ البتہ اس کے ساتھ ہی انہیں ایک اور کام بھی کرنا چاہیے ‘ وہ دیکھیں وہ ملک اور وہ عوام جنہوں نے انہیں اتنی عزت دی‘ انہیں تین مرتبہ وزیراعظم بنایا‘ پوری دنیا میں ان کی پہچان کرائی‘ نام بنایا جب ان کو دل کی بیماری لاحق ہوتی ہے‘ جب وہ کسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں تو انہیں کس قدر پیچیدہ اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ حکومت نے چند ماہ قبل نیشنل ہیلتھ سکیم شروع کی لیکن یہ سکیم ابھی تک دو اضلاع سے باہر نہیں آ سکی۔وہ سوچیں وہ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں‘ اور موجودہ دور میں تین سال پورے کر چکے ‘ تو کیا ان کے صحت عامہ کیلئے کئے گئے اقدامات کافی اور تسلی بخش ہیں؟ کیا انہیں بھی آگے بڑھ کر ہر ضلع میں ایک ہسپتال قائم نہیں کرنا چاہیے جہاں نہ صرف عوام بلکہ اشرافیہ اور حکمران بھی علاج کرا سکیں‘ جہاںیہ بیرون ملک جانے کی بجائے اپنے ڈاکٹرز اور اپنے ہسپتالوں کو ترجیح دیں؟ عمران خان اگر حکومت سے باہر رہ کر شوکت خانم جیسا عالمی معیار کا ہسپتال بنا سکتے ہیں تو یہ شریف خاندان کے لئے کون سا مشکل کام ہے؟یہ بات انہیں عمران خان سے بہتر کون سمجھا سکتا ہے۔
عمران خان کو الیکشن سے قبل چوٹ لگی تو نواز شریف فوراً عیادت کیلئے پہنچے‘ اپنی الیکشن مہم بھی ایک دن کیلئے منسوخ کی‘ اخلاقی قرض عمران پر یہی ہے کہ وہ بھی فوری طور پر لندن جائیں ‘ وزیراعظم کی عیادت کریں اور انہیں بتائیں‘ جن لاکھوں لوگوں کی دعائوں کے صدقے وزیراعظم صحت یاب ہوئے ہیں‘ ان میں سے ایک دل کا اٹھارہ سالہ مریض حمزہ بھی ہے!!