امجد صابری کا قتل اور چیف جسٹس سندھ کے بیٹے کا اغوا ‘کراچی آپریشن کی کامیابی جنہیں کھٹک رہی تھی‘ یہ سب انہی قوتوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ درست ہے کہ دونوں واقعات شدید نوعیت کے تھے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کمزور پڑ چکی یا پھر یہ کہ دہشت گردوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے جائیں۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ کراچی آپریشن کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کراچی عشروں سے ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوابرائے تاوان جیسی لعنتوں کا شکار ہے۔ اسے ایک دن یا کسی ایک مرحلے میں مکمل درست کر دینا ممکن نہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ آپریشن کے بعد کتنے فیصد بہتری آئی ہے۔ کیا حالات پہلے جیسے ہیں؟کیا وہاں اب بھی ہڑتالوں اور بوری بند لاشوں کا رواج ہے؟ کیا بھتہ مافیا اب بھی آزاد ہے؟اس کا جواب وہاں کا تاجر یہ دیتا ہے کہ اب کوئی زبردستی ان کی دکانیں بند نہیں کرا سکتا‘ کوئی بزور طاقت انہیں ہڑتال پر مجبور نہیں کرتا‘ کتنے ہی مہینے گزر گئے بھتے کی پرچیاں بھی ملنا بند ہو گئیں‘آخر یہ سب کامیابیاں نہیں تو کیا ہیں؟ موبائل چھیننے کی وارداتیں اگر بڑھ رہی ہیں تو ہر کام رینجرز کے ذمے تو نہیں لگایا جا سکتا۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کا جواب دے۔ آخر وہاں کی پولیس کس مرض کی دوا ہے۔ ہر سال بجٹ میں پولیس کے لئے جو رقم رکھی جاتی ہے‘ وہ کہاں جاتی ہے۔ جہاں تک معاملہ ہے کہ امجدصابری کو کیوں مارا گیا اس کا جواب بڑا سیدھا ہے۔ جو قوتیں
اس وقت کراچی میں بیک فٹ پر جا چکیں‘ اداروں کے ساتھ لڑائی جن کے لئے ممکن نہ رہی‘ سافٹ ٹارگٹ ہی ان کے لئے آخری اور آسان ترین ہدف بچے تھے۔ دشمن جانتا ہے کہ قوم کو جب تک جذباتی ضرب نہ لگائی جائے‘ کوئی بھی آپریشن پر انگلی نہیں اٹھائے گا۔ ایک سو پولیس والوں کو مارنے سے اتنی بڑی خبر نہ بنتی جتنی کہ ایک امجد صابری کے قتل سے۔یہی وجہ ہے کہ اس سانحے کے بعد فخر عالم سمیت ساٹھ اداکار ڈیفنس تھانے جا پہنچے اور اپنے تحفظ کیلئے درخواست دے دی۔ ان کا موقف تھا لوگ انہیں سیاستدانوں سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ کراچی کا مقامی سیاستدان لاہور چلا جائے تو شاید اسے کوئی نہ پہچانے لیکن کسی بھی شہر کا مشہور اداکار ‘ گلوکار یا فنکار ملک کے کسی بھی حصے میں چلا جائے‘ اسے ہر کوئی پہچانے گا بھی اور اس کی عزت بھی کرے گا۔ لیکن اگر کوئی شردماغ انہیں نقصان پہنچانا چاہے تو فنکاروں کے پاس تو کسی قسم کی سکیورٹی نہیں ہوتی جبکہ سیاستدان اور بیوروکریسی کے پاس پروٹوکول کی کئی کئی گاڑیاں ہوتی ہیں۔فنکار کے ساتھ لوگوں کی یادیں‘ محبتیں اور جذبات نتھی ہوتے ہیں۔ انہیں کوئی ضرب پہنچے تو چاہنے والوں کو شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ امجد صابری کے قتل کے پیچھے بھی یہی محرک کارفرما ہے۔ اس سانحے کے ساتھ ہی میڈیا میں یہ چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ کراچی آپریشن کی کامیابی کے دعوے کہاں گئے؟ سوال یہ ہے کہ کیا اِکا دُکا واقعات اگرچہ نقصان کی شدت زیادہ ہی سہی‘ کو پورے آپریشن کی ناکامی یا کامیابی پر محمول کیا جا سکتا ہے؟ امجد صابری اور چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا کے بعد کیا ایک مرتبہ پھر سول اور ملٹری فورسز متحرک اور یکجا نہیں ہوئیں؟ ڈی جی رینجرز اور وزیرداخلہ کا امجد صابری کے گھر جا کر تعزیت کرنا‘کراچی میں کورکمانڈرز کی ہنگامی کانفرنس‘ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور
وزیرداخلہ چودھری نثار کا ایک ساتھ کراچی پہنچنا اور کراچی آپریشن کو نئی حکمت عملی کے ساتھ تیز کرنا کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اس معاملے میں دونوں فریق سنجیدہ ہیں۔ انہیں حالات کی سنگینی کا بھرپور احساس ہے اور وہ کراچی کو بے لگام نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ضرب عضب جون دو ہزار چودہ میں شروع ہوا۔ اس کے بعد سے بتدریج دہشت گردی میں کمی ہی آئی ہے۔ شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے صاف کرا لیا گیا ہے۔ کراچی بھی ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ پرسکون ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ امجد صابری کے قتل کے پیچھے وہی جماعت ہے جو برسوں سے کراچی کے امن کی تباہی کی ذمہ دار رہی ہے۔ ذمہ دار کوئی بھی ہو‘ یہ اب حکومت اور فوج کا فرض ہے کہ اسے سامنے لائے اور کیفرکردار تک پہنچائے۔ ان کی زبان کو بھی لگام ضروری ہے جو اس بہانے اداروں کو رگڑا لگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس سانحے کی آڑ میں ضرب عضب آپریشن کے لتے لے رہے ہیں۔ دہشت گردی بندوق سے ہو‘ مال سے یا زبان سے‘ ہر قسم کی پابندی اس پر ہونی چاہیے۔ مادرپدر آزادی کو آزادی ٔرائے کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
ویسے یہ قوم صرف کراچی کے معاملے میں ہی جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کر رہی‘ مجھے یہاں کرکٹ کی تاریخ بھی یاد آ رہی ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ میں ابتدا میں جب ہماری ٹیم نے بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو اس کا وہ ریکارڈ لگایا گیا‘ ایسے ایسے الزامات اس پر لگائے گئے کہ الامان والحفیظ۔ کبھی کہا گیا کہ دشمن کی ٹیم ہے‘ کبھی کھلاڑیوں کے لئے چوڑیاں بھجوائی گئیں‘ کبھی انہیں دوپٹے پہن کر گھروں میں بیٹھنے کے مشورے دئیے گئے پھر جب آہستہ آہستہ ٹیم میچ جیتتی چلی گئی تو کہا جانے لگا کہ ایسی ٹیم تو دنیا میں کوئی ہے ہی نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ ماضی میں ہم جو کرتے اور کہتے ہیں وہ پل بھر میں بھول جاتے ہیں۔ جو قوم کرکٹ کے معاملے میں یکسو نہیں ہو سکی‘ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کس طرح سنجیدگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔اگر ساٹھ ہزار سے زائد عام لوگوں نے اس جنگ میں اپنی جانیں دی ہیں تو ہمیں فوج کے ان افسروں اور جوانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو دفتر جاتے‘ شاپنگ کرتے یا سیرو تفریح کے دوران شہید نہیں ہوئے بلکہ اگلے محاذوں پر جا کر انہوں نے شہادت کا جام پیا ہے۔ یہ سب جرأتوں اور ولولوں کی بلندیوں پر فائز تھے‘ یہ دھرتی کے سینے پر مائوں اور بہنوں کے گرنے والے آنسو لوٹا گئے‘ یہ ہم وطنوں اور جوانوں کے لہو کا قرض اتار گئے ‘ یہ اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کر گئے اور اپنی زندگیوں‘ اپنی وفائوں اور اپنی جفائوں کو اس وطن اور اس کے اٹھارہ کروڑ عوام کے نام کر گئے اور اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر گئے کہ شہادت سے بڑا کوئی عہدہ اور شہید سے بڑا کوئی اعزاز نہیں ہوتا۔ فوج اور حکومت اگر اسی طرح اکٹھے اور یکسو رہے تو کوئی شک نہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک میں دیرپا امن قائم ہو جائے گا۔