دربار لگا تھا۔ سارے مصاحب‘ خواص اور امراء موجود تھے۔ خلیفہ ہارون الرشید کو پیاس لگی۔ ٹھنڈے میٹھے پانی کا کٹورا پیش کیا گیا۔ ہارون نے ہاتھ بڑھا کر کٹورا تھاما اور اسے ہونٹوں سے لگانے کو تھا کہ ایک عالم اپنی جگہ سے اٹھا‘ ہارون کے قریب آیا اور بولا ''امیرالمومنین! ذرا رُک جائیے۔ پانی کا پیالہ منہ سے لگانے سے پہلے ہمیں ایک بات بتائیے۔ ایسے وقت میں جب آپ کو پیاس نے تنگ کر رکھا ہے‘ اگر یہ پیالہ آپ کے ہاتھ سے چھین لیا جائے‘ آپ کے ہونٹ اس پیالہ تک نہ پہنچ سکیں اور آپ سے کہا جائے کہ آپ اس ایک پیالہ پانی کی قیمت ادا کریں تو بتائیے آپ اس کی زیادہ سے زیادہ کیا قیمت دے سکیں گے۔ہارون کو سخت پیاس لگی تھی۔سوال سننے اور اس کا جواب دینے کیلئے جو وقفہ آیا‘ وہ بھی اس کیلئے بہت زیادہ تھا۔ ہارون نے جواب دیا۔ ''ہم اپنی آدھی سلطنت اس ایک پیالہ کی قیمت کے طور پر نذر کر دیں گے‘‘۔ وقت کا یہ عالم دوبارہ مخاطب ہوا '' اور اگر خدانخواستہ آپ کا پیشاب رُک جائے‘ کسی طرح کھل نہ سکے اور آپ سے اس کے کھولنے کی قیمت مانگی جائے ‘‘ ہارون نے جلدی جلدی جواب دیا ''تو بھی ہم اپنی آدھی سلطنت اس کے عوض دے دیں گے‘‘ عالم مسکرایا‘ ہارون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولا ''اے سلطنت کے بادشاہ! کیا ایسی سلطنت جو ایک پیالہ پانی کے عوض اور پیشاب کھلوانے کی قیمت میں بک جائے‘ کیا اتنی وقعت رکھتی ہے کہ انسان اس کی ہوس میں ڈوب جائے‘ اس
کی خاطر عوام کے حق مارے اور ان پر ظلم اور زیادتی کرے‘‘۔ عالم کی بات سن کر ہارون کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ‘ ہچکی بندھ گئی اور جسم کانپنے لگا۔
سوال یہ ہے اگر ایک سلطنت کی قیمت ایک پیالہ پانی سے بھی کم ہے تو پھر ہمارے حکمران ہوس اقتدار مال و زر کے نشے میں اتنے کیوں کھوئے ہوئے ہیں کہ چند بیش قیمت فلیٹس کو بچانے کے لئے آئے روز بیانات تبدیل کر رہے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر سندھ اسمبلی شہلا رضا نے ایک پروگرام میں دلچسپ بات کہی۔ کہنے لگیں کہ اس فیملی کو چاہیے کہ سارے اکٹھے بیٹھ کر سوچیں کہ چلو مل کر کوئی ایک ہی جھوٹ بول لیں۔عدالت میں وہ جو بھی پیش کریں‘ جو بیانات انہوں نے کروڑوں لوگوں کے سامنے درجنوں مرتبہ دئیے ہیں‘ جو تقریر وزیراعظم نے اسمبلی میں کی‘ کیا اسے بھی یونہی نظرانداز کردیا جائے گا‘جس میں انہو ں نے سپیکر قومی اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جناب سپیکر !یہ ہیں وہ ذرائع جن سے لندن کے فلیٹس خریدے گئے ، دوٹوک الفاظ میں کہتا ہو کہ جدہ سٹیل ملز ہو یا لندن کے فلیٹس یا کوئی اور ادائیگی، پاکستان سے ایک پیسہ ان کے لیے باہر نہیں بھیجا گیا۔اب وزیر اعظم کے
بچوں کی جانب سے عدالت عظمی میں جمع بیان میں کہا گیا ہے کہ دبئی سٹیل ملز کی 1980 ء میں فروخت سے ایک کروڑ درہم کی رقم ملی وہ ان کے دادا میاں شریف مرحوم نے قطر کے الثانی خاندان کو رئیل اسٹیٹ کے بزنس میں سرمایہ کاری کے لیے دے دی۔ 1999ء میں شریف فیملی کو سعودی عرب میں جلا وطن کیا گیا تو میاں شریف نے الثانی خاندان کو رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری کو منافع کے ساتھ حسین نواز کو دینے کی نصیحت کی جس کے نتیجے میں الثانی خاندان اور شریف فیملی کے درمیان سرمایہ کاری کے معاملات طے ہوئے جس کے بدلے لندن کے اپارٹمنٹس ملے۔
قطر کے شہزادے حمد بن جاسم شریف خاندان کو پاناما کے بھنور سے نکال پاتے ہیں یا نہیں یہ تو آئندہ چند روز یا چند ہفتوں میں پتہ چل جائے گالیکن قطری شہزادے کی دھماکے دار اینٹری سے کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ سب سے بڑی مشکل عوام کے لئے پیدا ہو گئی ہے کہ وہ جو پہلے ہی اپنے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے بدظن تھے ‘ اب بدلتے بیانات دیکھ کر انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے حکمران اگر عوامی جلسوں حتیٰ کہ اسمبلی کے فلور پر بھی کوئی حقائق پیش کر تے ہیں تو یہ سب خالصتاً سیاسی حکمت عملی کے تحت کیا جاتا ہے اور اس کا حقیقت کی دنیا سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ روایتی اور پارٹی سیاست پر تو مارجن دیا جا سکتا ہے لیکن اپنے ذاتی اثاثوں کی ملکیت کے حوالے سے بھی اگر موقف میں تضاد پایا جائے تو ایسا حکمران اپنے ملک اور اپنے عوام کے ساتھ کیسے مخلص ہو گا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر اخباری تراشے اور ٹی وی بیانات اہمیت نہیں رکھتے تو پھر ان پر جب کوئی ایسی بات نشر ہوتی یا لکھی جاتی ہے جس پر پیمرا نوٹس بھیج دیتا ہے تو تب یہی اخبار اور یہی ٹی وی معتبر تسلیم کر لیے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو البتہ عدالت میں ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ جانا چاہیے تھا۔ گزشتہ چھ ماہ جب سب ٹی او آرز کمیٹی کا کھیل کھیل رہے تھے تو شریف فیملی یقینا اپنے بچائو کے راستے تلاش کر رہی تھی۔ پی ٹی آئی اس وقت کا بہترین استعمال کرسکتی تھی مگر افسوس وہ وقت واپس نہیں آ سکتا۔ اصل کیس گزشتہ روز قطری شہزادے کے خط جمع کرانے کے بعد شروع ہوا ہے۔اس وقت جو بڑا تضاد دور ہونا باقی ہے وہ فلیٹس کی خریداری کا وقت ہے۔ صدیق الفاروق کہہ چکے ہیں کہ وہ 1993ء میں لندن فلیٹس میں خود گئے۔ اسی طرح چودھری نثار علی خان نے بھی فلیٹس کی خریداری کا وقت بیس بائیس سال قبل بتایا۔پی ٹی آئی نے اگر صرف کتابوں اور اخباری تراشوں کے ساتھ اس کیس کو لڑنا ہے تو پھر یہ کیس وہ جیت گئی۔ اس نے شریف خاندان کے خلاف جس جس کتاب میں مواد موجود تھا‘ اس اس کی کلپنگ شامل کر دی ہے اسی وجہ سے معزز جج کو یہ کہنا پڑا کہ ہم اس کیس کو چار فلیٹس کی خریداری تک محدود کرنا چاہتے ہیں ورنہ یہ کیس پھیلتا چلا جائے گا ۔ حکمران خاندان اگر اس کیس میں فاتح ٹھہرا تو اس میں اس کی اپنی عقلمندی اور ہوشیاری سے زیادہ تحریک انصاف کی کمزوریوں کا کردار ہو گا۔
حکمران چاہے کیسے بھی ہوں‘ پاناما کمپنیوں اور لندن فلیٹس کی خریداری کے ثبوت وہ تبدیل کر سکتے ہیں‘دنیا کی حقیقت مگر بڑے سے بڑا حکمران نہیں بدل سکتا۔ دنیا کی قیمت اور حقیقت آج بھی وہی ایک پیالہ پانی ہے جو خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں تھی ‘وہ سخت گیر حاکم تھا نہ ہی عوام پر ظلم کرتا لیکن اس ایک واقعے نے اس میں مزید انکساری و عاجزی پیدا کر دی اور دنیا کی حقیقت اور اقتدار کی اصلیت کھل کراس کے سامنے آ گئی ۔ جب تک اقتدار کو '' ایک پیالہ پانی‘‘ کے برابر نہیں تولا جائے گا تب تک حکمران‘ حکمران کہلا سکتے ہیں نہ خدمت کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔کاش ہمارے حکمران اس چند روزہ زندگی کی حقیقت کو پا لیں‘خلیفہ ہارون الرشید کی طرح وہ بھی ایک پیالہ پانی کی قیمت جان سکیں۔