بلاول بھٹو فرماتے ہیں میٹرو بھی چاہیے لیکن اس سے قبل پانی‘ بجلی اور گیس فراہم کی جائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بلاول بھٹو یہ بھی بتا دیتے کہ کیا سندھ میں عشروں سے قائم پیپلزپارٹی کی حکومت نے سندھ کے عوام کو یہ سہولیات فراہم کر دی ہیں جو یہ سب کچھ وہ پنجاب کے لوگوں کے لئے مانگ رہے ہیں۔ایسے بیانات دینے سے قبل وہ اپنے والد محترم سے یہ تو دریافت کر لیتے کہ پیپلزپارٹی نے سندھ میں کتنا عرصہ حکومت کی ہے اور اس دوران میں اس نے سندھ کے کروڑوں عوام کے لئے کون سی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔وہ یہ سوال اپنی پھوپھی فریال تالپور سے بھی پوچھ سکتے تھے جو انہیں بتاتیں کہ کس طرح انہوں نے لاڑکانہ کو پیرس بنانے کے لئے دن رات ایک کر دئیے تھے۔ اور کچھ نہیں تو وہ اخبارات میں چند ماہ قبل لاڑکانہ کے ترقیاتی فنڈز میں خردبرد کے حوالے سے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد شاہ کے ریمارکس ہی پڑھ لیتے کہ ڈائن بھی سات گھر چھوڑ جاتی ہے ، لاڑکانہ تو پیپلز پارٹی کا اپنا شہر ہے سندھ حکومت نے لاڑکانہ پر کتنا پیسہ لگایا ذرا اس کا حساب تو دیں آٹھ سال میں تو پورے سندھ میں 90 ارب روپے خرچ نہیں ہوئے لاڑکانہ میں اتنی بڑی رقم کیسے خرچ ہو گئی۔ بلاول بھٹو کو کوئی بتائے کہ ان کے اپنے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے تعلیم کی تباہ کن صورتحال کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ تقریباً ساٹھ لاکھ بچے آج بھی سکول نہیں جا رہے۔ سندھ میں پیسے لیکر محکمہ تعلیم میں 30 ہزار جعلی بھرتیاں کی گئی ہیں اور اب تک کسی کو نہیں نکالا گیا۔ سندھ میں اداروں کی بربادی اور عوام کی بدحالی پر بلاول بھٹو کو مزید تفصیلات درکار ہیں تو وہ کسی دن پیپلزپارٹی کے چند کارکنوں کو بلا کر پوچھ لیں تاکہ آئندہ وہ سوچ سمجھ کر ایسے بیانات دیا کریں۔
صرف بلاول بھٹو ہی نہیں تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اور ان کے دیگر سیاستدان بھی اپنا صوبہ چھوڑ کر باقی صوبوں کو ہی رگیدنے کی کوشش کرتے ہیں۔گزشتہ روز وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے سوال پوچھا گیا کہ پختونخوا میں صحت کے معاملات جوں کے توں کیوں ہیں تو خٹک صاحب نے وہی روایتی جواب دیا جو پیپلزپارٹی یا مسلم لیگ ن کے لیڈر دیا کرتے ہیں۔ فرمانے لگے‘ عشروں سے اس صوبے میں جو تباہی کی گئی اسے دو تین بر س میں ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ پرویز خٹک کی بات پر اعتبار کیا جا سکتا تھا اگر پختونخوا میں صحت عامہ کی بہتری کی جانب کوئی قدم اٹھائے جاتے۔ عمران خان کی وجہ شہرت کرکٹ کے علاوہ شوکت خانم میموریل ہسپتال بھی ہے۔ معلوم نہیں اپنے تجربے کو انہوں نے اپنے صوبے کے لئے کیوں استعمال نہ کیا۔ گزشتہ ہفتے پختونخوا میں بھی ینگ ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے ۔ اس سے قبل یہی صورتحال پنجاب میں تھی۔ جب سے پختونخوا میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کرنا شروع کی ہے‘ تحریک انصاف نے پنجاب کو نشانہ بنانا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں اب آٹے دال کا بھائو معلوم ہو رہا ہے۔ صحت کا شعبہ اس وقت تمام صوبوں میں آخری سانسیں لے رہا ہے۔ عوام کو مہنگائی او ربیروزگاری کے بعد سب سے زیادہ مسائل کا سامنا اسی شعبے سے ہے۔ خیبرپختونخوا اس سلسلے میں پہل کر کے ٹرینڈ سیٹ کر سکتا تھا۔ تحریک انصاف کی البتہ تمام تر توجہ دھرنوں اور بیانات تک محدود رہی۔ درمیان میں جو تھوڑا بہت وقت ملا اس میں یکسوئی کے ساتھ کام نہ ہو سکا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یہ عذر تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ ماضی کی حکومتوں نے بیڑہ غرق کیا ہے اس لئے ٹائم لگے گا کیونکہ جب یہی لوگ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں تو دوسروں کو بھی اس قسم کا مارجن دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ عمران خان نے کئی مرتبہ احتساب اور کرپشن کے خاتمے کے لئے ڈیڈ لائن دینے کے اعلانات کئے۔ ان پر مگر عمل وہ نہیں کر ا سکتے کیونکہ عمل پرویز خٹک جیسے لوگوں نے کرانا ہے جو ماضی کی حکومتوں کا رونا رو رہے ہیں۔ الہ دین کا چراغ کسی کے پاس نہیں لیکن جب یہ سیاستدان جلسوں میں دعوے کرنے پر آتے ہیں تو کوئی چھ ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم کر رہا ہوتا ہے‘ کوئی نوے دن میں کرپشن ختم کرنے کی بات کرتا ہے اور کوئی منٹوں میں قرضے اتارنے کے خواب دکھا رہا ہوتا ہے۔
موجودہ دور حکومت اس لحاظ سے اہم ہے کہ تین بڑے صوبوں میں ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے۔سندھ کے حوالے سے پیپلزپارٹی کی کارکردگی صفر ہے۔کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جو اس کی دسترس سے محفوظ رہا ہو۔ دولت کے ارتکاز کا یہ عالم ہے کہ ڈاکٹر عاصم جیسے لوگوں کے پیٹ اربوں کھربوں لوٹنے کے بعد بھی نہیں بھرے جبکہ وہاں لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جو جانوروں کے ساتھ ہی جوہڑوں سے پیاس بجھانے پر مجبور ہیں۔ پیپلزپارٹی نے حکومت کو جس طرح سہارا دینے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے اس سے اس کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی ہے۔ اگر ڈاکٹر عاصم وغیرہ گرفتار نہ ہوتے تو یہ جو کبھی کبھار بلاول یا ان کا کوئی لیڈر حکمران جماعت کو لتاڑتا ہے‘ یہ بھی ہمیں دکھائی نہ دیتا۔پیپلزپارٹی کو اس ساری تباہی و بربادی کے کریڈٹ کے باوجود ووٹ اس صوبے سے دوبارہ مل جائیں گے کیونکہ ایم کیو ایم پہلے سے کمزور ہو چکی ہے اور تحریک انصاف نے ڈور ٹو ڈور جا کر کام کرنا گوارا ہی نہیں کیا۔ پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کا یہ چوتھا دور حکومت ہے اس کے باوجود
کارکردگی وہ نہیں جو ہونی چاہیے تھی۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی جگہ تحریک انصاف لے چکی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں کسی حلقے سے پیپلزپارٹی پانچ دس فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے سکی۔ شہباز شریف کا فوکس ایک مرتبہ پھر ترقیاتی کاموں پر ہے لیکن درجنوں اداروں کو البتہ انہوں نے کمپیوٹرائزڈ کر دیا ہے۔امن و امان کی صورتحال کچھ بہتر ہوئی تھی لیکن چند ہفتوں سے ایک نئی لہر نے پنجاب بالخصوص لاہور کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حکومتی ایم پی اے انعام اللہ نیازی سے موبائل فون وزیراعلیٰ کے دفتر سے چند گز دور سے چھینے گئے۔اس واردات کی ویڈیو اگر سامنے آ جاتی تو فیصل ٹائون سگنل پر ڈکیتی کی طرح اسے بھی بھرپور توجہ حاصل ملتی۔اس طرح کی وارداتیں ہر صوبے میں ہو رہی ہیں۔ امن و امان میں فرق وہاں نظر آئے گا جہاں ڈکیتی جیسی وارداتوں کا کم وقت میں سراغ لگا یا جائے گا۔صرف پرچہ درج کرنا کافی نہیں ہو گا۔ پختونخوا میں تحریک انصاف کا واحد کریڈٹ پولیس کو آزاد کرنا ہے۔ چند بڑے منصوبے شروع تو ہوئے ہیں لیکن الیکشن سے قبل ان کا مکمل ہونا ممکن نہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کوشش ہے کہ وہ تحریک انصاف کو کم سے کم سپیس دے اسی لئے وہ یہاں قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔بلاول کی مضحکہ خیز تقریروں سے البتہ کامیابی ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس ابھی ایک سال سے زیادہ وقت ہے‘ اگر اس نے پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ عوام کے بنیادی ایشوز پر توجہ دی اور اگر حکمران پاناما کیس سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر آئندہ انتخابات کی فاتح حکمران جماعت ہی ٹھہرے گی۔