کیا آپ نے سوشل میڈیا پر داعش کی وہ فلمیں دیکھی ہیں جن میں لوگوں کے گلے پر چھری چلا کر انہیں ذبح کیا جاتا ہے؟ اگر نہیں دیکھیں تو تیار ہو جائیے ‘عنقریب آپ کو یہ دل دہلا دینے والے خوفناک مناظر پنجاب میں بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں ۔ داعش تو بڑوں اور غیر ملکی صحافیوں کے گلے کاٹنے میں معروف ہے لیکن پنجاب میں جو کام ہونے جا رہا ہے‘ اس میں کیا بچے اور کیا بڑے‘ سبھی اس شقاوت کا شکار ہو سکتے ہیں۔
پنجاب حکومت کے مطابق بسنت کو مخصوص علاقوں یا طے شدہ طریقہ کار کے مطابق منانے کی اجازت دینے پر مشاورت جاری ہے۔نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں رانا مشہود نے بسنت پر پابندی ہٹنے پر غور کا عندیہ دیا تو شہریوں کے ہوش اُڑ گئے۔ معاملہ میڈیا پر آیا تو زعیم قادری نے اپنے ہی ساتھی وزیر کے اعلان کی نفی کر دی۔ رانا مشہود کے مطابق، بسنت مرحلہ وار ہو گی، لاہور میں صرف مخصوص علاقوں میں پتنگیں اڑائی جا سکیں گی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والے کھیل کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جن علاقوں میں اجازت دی گئی ہے کیا وہاں انسان نہیں بستے ؟ بالفر ض اگر ڈور کے حوالے سے کوئی ضابطہ اخلاق بنایا گیا تو اس پر عمل کی ضمانت کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا طریقہ کار ہے جو ماضی میں نہیں اپنایا گیا ؟ ہر طرح کی سختی ماضی میں بھی کی گئی‘ ڈور کی بناوٹ وغیرہ کی تشہیر بھی کی گئی اور دھاتی ڈور ‘ فائرنگ کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے اعلانات بھی کئے گئے لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کیا ان پر عمل ہو سکا؟ کیا ہلاکتوں پر کسی حکومتی وزیر نے ذمہ داری قبول کی؟ ہر مرتبہ درجنوں سڑکیں خون سے رنگین ہوئیں اور مائوں کے
کلیجے کٹ کٹ کر گرتے رہے۔ شرپسند عناصر سے نمٹنے کی آڑ میں البتہ پولیس کو کھل کھیلنے کا موقع ضرور مل گیا۔ وہ چادر اور چار دیواری پامال کرنے کے لئے آزاد ہو گئی اور سیڑھیاں لگا کر لوگوں کے گھروں میں کودنے لگی۔ جہاں تک لوگوں کو شعور دلانے کی بات ہے تو یہ ناممکنات میں سے ایک ہے۔ یہ ایسا بھیانک کھیل ہے جس میں بو کاٹا کی آوازوں کے ساتھ لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ عظیم جانی اور مالی نقصان کے باوجود ''نامعلوم‘‘ ہوائی قاتل ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں۔ جن دنوں بسنت پر پابندی نہ تھی‘ بسنت سے قبل اعلان ہوتا کہ دھاتی ڈور پر پابندی ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ اس کے باوجود کبھی ڈور بنانے والا پکڑا گیانہ ہی دھاتی ڈور سے پتنگ اڑانے والا ہاتھ آیا۔ سڑک پر ایکسیڈنٹ سے ہلاک ہونا اور قاتل ڈور سے ہلاکت کو یکساں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ ایسی بودی دلیلیں لاتے ہیں وہ کبھی ان گھروں میں جا کر دیکھیں جہاں قاتل ڈور سے گلے کٹنے کے باعث صف ماتم بچھی۔کیا انہیں معلوم نہیں کہ بیٹا کیسے جوان ہوتا ہے؟ پنجاب حکومت کا یہ اعلان ہے کہ اگر بسنت منانے کی اجازت دی گئی تو کوشش ہو گی کہ ایسا میکانزم وضع کیا جائے جس سے جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو۔ اگر کم سے کم سے مراد ایک ہلاکت لی جائے تو پھر ہم قرآن کے اس حکم کو کہاں لے جائیں جو یہ کہتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔جو لوگ پتنگ بازی کے شوقین ہیں وہ جانتے
ہیں کہ ایسا کوئی طریق کار ہو ہی نہیں سکتا جس کے تحت ہزاروں گھروں کی چھتوں سے بیک وقت اڑنے والی لاکھوں پتنگوں کی ڈور کو چیک کیا جا سکے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پنجاب حکومت کی کمیٹی کا کوئی نمائندہ ہر گھر سے اڑنے والی پتنگ کی پہلے ڈور چیک کرے اور اس کے بعد اڑنے کی اجازت دے۔ جہاں تک ڈور بنانے والی جگہوں پر چھاپوں کا تعلق ہے تو بھائی یہ ڈور کسی رجسٹرڈ کارخانوں میں نہیں بنتی بلکہ اندرون و بیرون شہر کی اندھیری گلیوں کی ٹوٹی پھوٹی کوٹھڑیوں میں بنتی ہے۔ ہر جگہ تک پولیس رسائی کیسے کر سکتی ہے۔ جو پولیس خفیہ ایجنسی کے اس اعلان پر عمل نہیں کر سکتی کہ فلاں دن چار خودکش حملہ آور فلاں ادارے پر حملہ کریں گے اور فلاں راستے سے آئیں گے‘ وہ انہیں قبل از وقت نہیں پکڑ سکتی تو وہ ہوا میں لاکھوں ڈوروں تک کیسے دسترس رکھ پائے گی؟
یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بسنت میں دھاتی ڈور کا استعمال کیوں کیا جاتا ہے۔ پتنگ بازی کا کھیل کھیلا ہی اس لئے جاتا ہے کہ اپنی پتنگ کے ذریعے دوسرے کی پتنگ کاٹی جائے۔ دھاتی ڈور میں شیشے کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جو اسے خنجر کی مانند انتہائی تیزدھار بنا دیتی ہے۔ اگر ہوا تیز ہو اور پتنگ کا سائز بڑا ہو تو ڈور کا تنائو بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں اس ڈور سے جو بھی ڈور ٹکرائے گی وہ فوراً ہی کٹ جائے گی۔ لیکن جب اس سے بھی زیادہ لمبی دھاتی ڈور والی پتنگ کوئی اور ماہر پتنگ باز اڑا رہا ہو گا‘ وہ پہلے شخص کو چت کر دے گا جس کے نتیجے میں اس کی ڈور میلوں دور تک زمین پر گر جائے گی۔ جس نے ہزاروں روپے خرچ کر کے دھاتی ڈور سے پنا یا چرخی بنوائی ہو گی وہ اسے تیز ی سے کھینچے گا۔ یہ ڈور سڑکوں‘ گلیوں‘ گھروں کی چھتوں اور بجلی کے تاروں سے ٹکراتی ہوئی آئے گی اور اس کے راستے میں اگر کوئی گردن آ گئی تو یہ خنجر اس گردن کے گوشت کو کاٹتا ہوا نرخرے تک پہنچ جائے گااور جیسے ہی نرخرا کٹے گا‘ خون کا اُبلتا ہو ا فوارا پھوٹ پڑے گا اور چند سیکنڈ میں وہ انسان برائلر مرغی کی طرح زمین پر پھڑکنا شروع کر دے گا۔ آپ بتائیں اس دوران میں پنجاب حکومت کے پاس کون سا ایسا جادو کا آلہ ہو گا جو اسے بتائے گا کہ اس وقت فضا میں جو پتنگیں اڑ رہی ہیں‘ ان میں دھاتی ڈور والی کتنی ہیں اور کس نے بنائی ہیں؟ جس ڈور سے کسی کا گلہ کٹے گا‘ کسی گرڈ سٹیشن کا نقصان ہو گا‘ کوئی ٹرانسفارمر تباہ ہو گا ‘ اس ڈور کو کھینچنے والے تک حکومت کیسے پہنچے گی؟ کیا حکومت کے وزیر مشیر‘ پولیس اور بیوروکریسی ہوا میں پرندوں کی طرح اڑیں گے؟
بسنت منانے کے لئے جو قوتیں کوشاں ہیں وہ دراصل اس کی آڑ میں رنگ رلیاں منانا چاہتی ہیں۔ کبھی وہ نیوایئر نائٹ کے نام پر شراب و شباب کی محفلیں رچاتی ہیں تو کبھی بسنت ‘ بلیک فرائیڈے اور ویلنٹائن ڈے کی آڑ میں نوجوان نسل کو عشق و محبت ‘جنسی بے راہ روی اور رقص و سرود کی آگ میں جھونکتی ہیں۔ بسنت میں صرف ڈور ہی قاتل نہیں ہوتی بلکہ ہوائی فائرنگ اور لڑائی جھگڑے کے واقعات سے بھی سینکڑوں پراسرار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ جس طرح قاتل ڈور کو ٹریس کرنا ناممکن ہے اسی طرح پستول کی اندھی گولی کا سراغ لگانا بھی ممکن نہیں۔ ایسا ایسا اسلحہ اس دن منظر عام پر آتا ہے جس کے لائسنس پر بھی پابندی ہوتی ہے لیکن یہ دھڑلے سے یوں چلایا جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ لگی ہو۔ ڈور کے پیچھے بھاگنے والے سڑکوں پر گاڑیوں تلے آ کر کچلے جاتے ہیں یا چھتوں سے گر کر ہلاک و زخمی یا پھر عمر بھر کے لئے دماغی اور جسمانی طور پر معذور ہو جاتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جو محدود اور مخصوص لابی عیدالاضحی کی قربانی پر تنقید کرتی ہے‘ اسے جانور کے گلے پر چھری چلتے دیکھ کر تو بڑی تکلیف ہوتی ہے جو مذہبی حکم بھی ہے اور ہمارے دین و ایمان کا حصہ بھی لیکن کھیل اور موسمی تہوار کے نام پر جب بے گناہوں کی گردنیں تن سے جدا ہوتی ہیں تب ان کے منہ میں گھنگنیاں پڑ جاتی ہیں اور یہ گونگے بن جاتے ہیں۔ گزشتہ روز جیسے ہی پنجاب حکومت کی طرف سے بسنت پر پابندی ہٹنے پر غور کے حوالے سے خبریں آئیں تو ہر طرف شور مچ گیا۔ علما‘ سول سوسائٹی‘ والدین اورمذہبی و سماجی تنظیموں نے ببانگ دہل اعلان کیا کہ وہ پنجاب حکومت کے کسی ایسے فیصلے کو قبول نہیں کریں گے اور اگر بسنت سے پابندی ہٹانے کیلئے بوگس ہدایات و شرائط کا سہارا لیا گیا اور مخصوص علاقوں اور مخصوص ڈور کے میکانزم کی لیپا پوتی کر کے دُھول جھونکنے کی کوشش کی گئی تو پنجاب کا ہر طبقہ ‘ہر بچہ ‘ ہر ماں اور ہر شہری قتل عام کے اس ممکنہ اجازت نامے کیخلاف سینہ تان کر کھڑا ہو جائے گا۔