اتوار کو بھارت سے فائنل کے دوران کچھ چیزیں غیر معمولی دکھائی دیں مثلاً یہ کہ تمام کھلاڑی ٹیم ورک کرتے نظر آئے۔ یہ نہیں ہوا کہ ہر کھلاڑی اپنا انفرادی کھیل کھیل رہا ہو بلکہ سب ایک لڑی میں پروئے موتیوں کی طرح نظر آئے اور مخالف ٹیم پر حاوی ہو گئے۔ فخر کا شروع میں کیچ ڈراپ ہوا تو اس نے بھی اسے مثبت لیا اور تہیہ کر لیا کہ اسے نئی زندگی ملی ہے تو وہ اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا چنانچہ اس نے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور سنچری سکور کر ڈالی‘ اسی طرح محمد عامر کی گیند پر کوہلی کا کیچ ڈراپ ہوا تو مایوس ہونے کی بجائے ساری ٹیم نے اپنے اعصاب پر قابو رکھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کوہلی اگلی ہی گیند پر شکار ہو گیا ‘ میچ کے دوران ایسا لگا جیسے ٹیم کو خدائی مدد حاصل رہی‘ میدان میں بھارت کے گیارہ فیلڈر موجود تھے لیکن ہمارے شیر جس طرف بھی شارٹ کھیلتے وہاں کوئی بھارتی موجود نہ ہوتا‘ ایسا لگتا تھا جیسے بھارتی کھلاڑیوں کی آنکھوں میں مرچیں پڑ گئی تھیں اور انہیں گیند نظر ہی نہ آ رہا تھا‘ جب پاکستانی ٹیم نے تیس اوورز میں دو سو رنز بنا لئے تھے تو یہ تبصرے کئے جانے لگے کہ شاید پچ بیٹنگ کے لئے سازگار ہے اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ فائنل میں بیٹنگ وکٹس بنائی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سکور ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ چھکے چوکے دیکھنے کو ملیں،بصورت دیگر پچ اگر بائولر ز کیلئے بنائی جائے تو میچ آدھے اوورز میں ختم ہو جائے گا یا پھر سکور انتہائی کم ہو گا جس سے فائنل میچ کا وہ مزا نہیں رہے گا۔ تاہم بھارت کو بھی وہی بیٹنگ وکٹ ہی ملی لیکن اس کے کھلاڑی سرکس کے شیر ثابت ہوئے۔ پاک بھارت مقابلہ اپنی جگہ خود ایک تھرلنگ ایونٹ ہوتا ہے‘ بھارت کی طرف سے ایسے دعوے کئے جا رہے تھے کہ وہ پاکستان کو چاروں شانے چت کر دے گا‘ یہ تمام دعوے ریت کا پہاڑ ثابت ہوئے‘ بھارتی اوپنرز جب بپھرے سانڈ کی طرح پویلین سے اتر کر گرائونڈ میں آ رہے تھے تو ان کے انداز سے غرور اور تکبر جھلک رہا تھا حالانکہ سامنے ایک بڑا سکور تھا اس کے باوجود وہ یوں جھومتے ہوئے آ رہے تھے گویا مخالف کو روند ڈالیں گے‘ یہ اور بات ہے کہ تینوں بڑے بیٹسمین چند ہی منٹوں میں پویلین لوٹ چکے تھے۔ میچ سے قبل رمیز راجہ کا تبصرہ حیران کن تھا حالانکہ رمیز راجہ سے اس پیش گوئیوں کی توقع نہ تھی کیونکہ وہ کرکٹ سے اب تک کسی نہ کسی طرح جڑے ہیں اور زمینی حقائق‘ ٹیم کی نفسیات اور حرکیات سے بخوبی واقف ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آج پاکستان اور بھارت میں سے کس کا پلڑا بھاری رہے گاتو رمیز راجہ نے صاف لفظوں میں کہا‘ پاکستان ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جو ٹیم انگلینڈ‘ سری لنکا اور سائوتھ افریقہ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچی ہو‘ اس پرفارمنس کے ساتھ یہ فائنل میچ ہار جائے۔
اب ہم عمران خان کی طرف آتے ہیں۔ عمران خان وہ واحد کرکٹ کھلاڑی ہیں جن کا کرشمہ ابھی تک اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ جس عمر میں ان کے ہم عمر سٹھیا جاتے ہیں وہ پوری طرح فٹ ‘ سمارٹ اور چاق چوبند ہیں۔ عمران خان سے میچ سے قبل استفسار کیا گیا تو انہوں نے کہا پاکستان کو پہلے کھیلنا چاہیے کیونکہ پاکستان کی بائولنگ مضبوط ہے اور وہ بھارت کے لئے پریشانی پیدا کرسکتی ہے۔ عمران خان نے میچ جیتنے کے لئے صرف ایک زاویے پر روشنی ڈالی ‘ لیکن پاکستانی ٹیم اگر پورے ٹورنامنٹ کی فاتح ٹھہری تو اس کی اصل وجہ پہلے یا بعد میں کھیلنا نہیں بلکہ میرٹ پر کھلاڑیوں کا انتخاب تھاجو ٹیم کی شاندار فتح کا موجب ٹھہرا۔ اس ٹیم میں محمد حفیظ اور شعیب ملک کے علاوہ تقریباً تمام لڑکے نئے تھے۔ ان میں ایسے کھلاڑی بھی تھے جن کی عام پاکستانیوں کو شکلیں تک ٹھیک سے یاد نہیں ہو سکیں حتیٰ کہ جب تک پاکستان نے بھارت سے فائنل جیت نہیں لیا تب تک بہت سے لوگوں کو کئی کھلاڑیوں کے نام تک معلوم نہ تھے۔ اب بھی کسی عام بندے سے پوچھیں گے تووہ آج بھی بانوے کے ورلڈ کپ کی ٹیم کا تو بتا دے گا لیکن آج کی ٹیم کے کھلاڑیوں کے نام نہیں بتا سکے گا۔ آج ٹیم میں حسن علی جیسا نیا ٹیلنٹ موجود ہے جو ایک چھوٹے سے گائوں سے تعلق رکھتا ہے‘ جہاں ان کا چھوٹا سا گھر ہے اور یہ گھر بھی ان کی جیت کے بعد میڈیا نے
دکھایا۔اسی طرح باقی لڑکے بھی نئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایک کرکٹ ٹیم نئے کھلاڑیوں‘ نئے خون اور نئے ٹیلنٹ کے ساتھ ایک بہترین ٹیم کو فائنل میں ایک سو اسی رنز سے شکست دے سکتی ہے تو پھر عمران خان جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو تو مشورے دے رہے تھے‘ وہ اس ٹیم اور اس کی شاندار فتح سے خود سیکھنے کو کیوں تیار نہیں ؟ اگر وہ بانوے کا ورلڈ کپ سفارشی اور کمزور کارکردگی والے کھلاڑیوں کے بل بوتے پر نہیں جیت سکتے تھے تو وہ تھکے ہوئے‘ روایتی سیاستدانوں‘ پیپلزپارٹی ‘ق کے لوٹوں ‘سرمایہ داروں اور وڈیروں کے بل بوتے پر سیاست کا ورلڈ کپ‘ سیاست کی چیمپئنز ٹرافی کس طرح جیت پائیں گے؟ عمران خان سیاست میں اکثر کرکٹ کی ٹرمز استعمال کرتے ہیں‘ کبھی وہ کہتے ہیں وہ ایک بال سے دو کھلاڑی آئوٹ کریں گے کبھی وہ مخالف کو بائونسر مارنے کی بات کرتے ہیں لیکن سیاست کے پہلے اصول پر وہ خود عمل کرنے اور ایک مضبوط سیاسی ٹیم بنانے کو تیار ہی نہیں۔ کہا جاتا ہے وہ شوکت خانم ہسپتال میں کسی مریض کی سفارش کرتے ہیں نہ کسی کو نوکری دلانے کیلئے چٹ لکھنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی ٹیم میں سفارشی کھلاڑی شامل کر رہے ہیں۔ وہ کرپشن کی جنگ جیتنے کا مشن لے کر سیاست میں آئے تھے لیکن اسحاق خاکوانی ایسوں کی سفارش پر مصطفی کھر‘ نذر گوندل اور فردوس
عاشق اعوانوں جیسے شکست خوردہ کھلاڑیوں کو اپنا ہم رکاب بنا رہے ہیں اور ایسا کرنے کے بعد یہ امید بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کی یہ تھکی ہاری ٹیم سیاست کا فائنل جیت کر ایوان اقتدار میں داخل ہو جائے گی اور اس کے بعد اپنے اپنے دور میں کرپشن کے عالمی ریکارڈ بنانے والے یہ کھلاڑی اپنے ''ٹیلنٹ‘‘ کی بدولت ایک ایسا نیا پاکستان تخلیق کریں گے جس کا خواب خود عمران خان نے بیس برس قبل دیکھا تھا۔
مجھے سو فیصد یقین ہے عمران خان کے گرد جس طرح کے لوگوں کا ہالہ موجود ہے وہ کبھی بھی ایسی گزارشات پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کریں گے‘ عمران خان کو یقین دلایا گیا ہے کہ یہ لوگ بااثر بھی ہیں اور مال و دولت میں خود کفیل بھی‘ سیاست میں یہ دو چیزیں کافی ہوتی ہیں‘ رہی بات اخلاقیات‘ ٹیلنٹ اور ساکھ کی تو شاید سیاسی جماعتوں میں اب یہ خوبیاں ناپید ہو چکیں۔ تحریک انصاف اور عمران خان اگر پاک بھارت میچ سے کچھ سیکھ سکتے ہیں تو یہی کہ مخالف کو ہرانے کے لئے بڑا نام نہیں بلکہ بہترین ٹیلنٹ ‘ کمٹمنٹ اور ایمانداری کی ضرورت ہوتی ہے‘ عمران خان کو خود پر یقین ہونا چاہیے‘ ان کی جماعت اس سطح تک پہنچ گئی ہے کہ یہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائے گا۔ ایسے میں لوٹے‘چلے ہوئے کارتوس اور کرپشن کے ڈھیر پارٹی میں گھسانے سے ان لوگوں کا اپنا دال دلیا تو ہو جائے گا لیکن پارٹی کا جہاز ضرور ڈوبنا شروع ہو جائے گا‘ پاک بھارت میچ سے اگر عمران خان یہ سبق بھی نہیں سیکھ سکتے‘ اگر وہ اب بھی اپنی مضبوط ٹیم نہیں بنا پاتے تو پھر ان کا اللہ ہی حافظ!!