نوجوان نے اخبار میرے سامنے رکھا اور جذباتی آواز میں بولا۔''اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سو اٹھائیس ممالک نے امریکہ کو تھپڑ رسید کر دیا‘ صرف آٹھ غیر اہم چھوٹے ممالک امریکہ کے ساتھ کھڑے ہوئے ‘ یہ مسلم امہ کی جیت ہے‘ یہ امریکہ اور اسرائیل کی شکست ہے‘ ‘ وہ ایک لمحے کو رُکا اور پھر بولا '' اس کے باوجود مگر امریکہ کی ڈھٹائی سمجھ سے باہر ہے۔ایک سو اٹھائیس ممالک اس کے خلاف ہیں‘ اگر وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ بیت المقدس میں اپنا سفارتخانہ کھولے اور القدس اسرائیل کا دارالحکومت بنے تو امریکہ پر مسلم ممالک کا دبائو اور ووٹنگ کا اثر کیوں نہیں پڑا۔ کیوں جنرل اسمبلی میں امریکی سفیر نک ہیلی نے کھلے عام اقوام متحدہ کو جوتے کی نوک پر رکھا اور ان ممالک پر معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکی دی جنہوں نے اس کیخلاف ووٹ دیا اورآخری بات یہ کہ اس قرارداد کے بعد تو امریکہ کو شرمندہ ہونا چاہیے تھا لیکن اس دن کے بعد سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی مظالم میں تیزی آ گئی ہے اور ظاہر ہے امریکہ اس کے پیچھے ہے۔گزشتہ چند دنوں کے دوران ایک درجن سے زائد فلسطینی شہری شہید ہو گئے ہیں۔ان میں معصوم بچے بھی تھے اور بے گناہ عورتیں بھی۔ حتیٰ کہ ایک معذور فلسطینی ابراہیم ابوتورایہ جس کی دونوں ٹانگیں اسرائیلی بمباری سے ناکارہ ہو چکی تھیں اور وہ کئی برسوں سے ویل چیئر پر احتجاج کیا کرتا تھا‘ اسرائیلی درندوں نے اسے بھی شہید کر دیا‘کیا یہ ظلم نہیں ہے؟‘‘نوجوان کہنے لگا۔''میں آج تک یہ نہیں سمجھ سکا کہ امریکہ کس منہ سے اپنے آپ کو مہذب کہتا ہے۔ کیا مہذب پن کی یہی نشانی ہے اپنا موقف دوسرے پر زبردستی اور جبر کے ساتھ مسلط کر دیا جائے۔ جھوٹے الزامات لگا کرچڑھائی کر دی جائے۔ بوسنیا سے عراق تک اور عراق سے افغانستان و شام تک تک لاشوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں اور پاکستان کو بھی آگ اور خون میں نہلانے کے بعد ٹرمپ ڈو مور کے تقاضے کر رہا ہے اور ہماری قربانیوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ؟ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔ دوبارہ گویا ہوا ''آپ عام امریکی شہریوں کو ہی دیکھ لیں۔ یہ لوگ کھلے عام شراب پیتے ہیں۔ زناکاری کومعیوب نہیں سمجھتے۔ان کے ہاںفیملی سسٹم بھی موجود نہیں۔بات بات پر گالیاں دیتے ہیں اورسود ی نظام‘ جوئے اور فحاشی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔اس کے باوجود یہ اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق و اقدار کے مالک سمجھتے ہیں۔دوسری طرف ہم لوگ ہیں جو امریکی عسکری قوت سے اتنے متاثر ہیں کہ غزوہ بدر تک کو بھول جاتے ہیں‘ ہم تین سو تیرہ تھے تو ایک ہزار کے لشکرکو شکست دی اور آج ہم اربوں میں ہیں پھر بھی مار کھائے جا رہے ہیں۔آخرہم ٹرمپ کے سامنے سینہ تان کرکھڑے کیوں نہیں ہو جاتے‘ ہم اسے جواب کیوں نہیں دیتے‘‘۔یہ کہہ کرنوجوان خاموش ہو گیا۔شاید وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال چکا تھا۔
میں نے اخبار میز پر رکھا اور نوجوان سے مخاطب ہوا''تم ٹھیک کہتے ہو امریکہ ظالم ملک ہے اور امریکیوں میں ایک سے ایک بڑھ کر خامی موجود ہے۔لیکن کیاہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بیٹھے بٹھائے مسلمانوں پر یہ افتاد کیوں ٹوٹ پڑی۔نو گیارہ کے بعد امریکی توپوں کا رُخ مسلمانوں کی طرف کیوں ہو گیا۔ہم آج ان کے اندر توکیڑے تلاش کر رہے ہیں لیکن کیا یہ بہتر نہیں کہ غیروں کی طرف انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لیا جائے۔کیا شراب‘ زناکاری‘سودی نظام‘بکھرتا ہوا فیملی سسٹم‘جوئے اور فحاشی کے اڈے مسلمان ممالک میںموجود نہیں؟ کیا آج یورپی ریاستوں میں جوئے پر سب سے زیادہ پیسہ عرب شہزادے نہیں لٹا رہے؟۔ ہم لوگ اپنے آپ کو توحید و سنت کا علمبردار بھی کہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے کتاب اللہ کو طاقوں میں سجا دیا ہے اور جب عمل کی باری آتی ہے تو ہم منافقت کا لحاف اوڑھ لیتے ہیں ۔ تم مسلمانوں کی انفرادی زندگی کو دیکھ لو۔ہم نماز کیلئے مسجد جاتے ہیں۔ سورۃ الماعون کی تلاوت کرتے ہیں۔ سلام پھیرتے ہیں۔ مسجد سے باہر آتے ہیں۔ سامنے کھڑاسوالی سوال کرتا ہے اسے
جھڑک دیتے ہیں۔ کوئی یتیم فریاد کرتا ہے‘ اسے دھتکار دیتے ہیں۔کوئی کھانا مانگ لے ‘ اسے بوٹ کی ٹھوکر سے ہٹا دیتے ہیں۔ کاروبارپر پہنچتے ہیں۔مال ناقص ہوتا ہے لیکن اعلیٰ بتا کر فروخت کرتے ہیں۔ گندم‘ چینی‘ گھی‘دالیں اور آٹا سٹور کر لیتے ہیں‘ رمضان میں طلب بڑھنے پر بلیک میں فروخت کردیتے ہیں۔ کاروبار میںکروڑوں کا فائدہ ہوتا ہے لیکن نقصان ظاہر کر کے لاکھوں کا ٹیکس بچالیتے ہیں۔ میٹر ریڈر کی مٹھی گرم کر کے بجلی چوری کرتے ہیں۔جعلی نام سے کمپنیاں بناتے ہیں‘ کروڑوں کا فراڈ کرتے ہیں‘ پھر نئے نام سے نئی کمپنی کھول لیتے ہیں۔ شرافت کانقاب چہرے پر ڈال کر گھر سے نکلتے ہیں۔جھوٹ‘ فراڈ اور دھوکے بازی سے دولت کماتے ہیںاوررات کودوبارہ انہی کاموں کی نیت کر کے سو جاتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی یہ سمجھتے ہیں ہم سے بڑا مومن‘ ہم سے بڑا مسلمان دنیا میں کوئی نہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں انسان پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے‘ اُس کے نامہ اعمال کی سیاہی کی وجہ سے آتی ہے۔ہماری اس سیاہی نے سمندروں کے سمندر گدلے کر دئیے ‘پھر بھی ہم ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہیں ۔اس کے بعد جب کوئی آفت‘ کوئی مصیبت ہمارے گھر اورہمارے ملک کا راستہ دیکھتی ہے تو ہم چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں اور بغض اور حسد کا چشمہ لگا کر غیروںمیں عیب تلاش کرنے لگتے ہیں۔ بندوق کی گولی ہاتھ سے روکنا چاہتے ہیں اورخواہشات کا محل بنانا شروع کر دیتے ہیں‘‘۔یہ کہہ کر میں نے لمبا سانس لیا۔پھردوبارہ گویا ہوا۔
''ایک وہ دور تھا کہ جب مسلمان طبیعات‘ کیمیا‘ حیاتیات اور ریاضی سمیت دیگر علوم میں سب سے آگے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو دین اوردنیا دونوں کو ساتھ لیکر چلتے تھے اسی لئے ہزار برس تک دنیا پرحکومت کرتے رہے۔ہمارا زوال تب شروع ہوا جب کامیابیوں اورکامرانیوں کا فارمولا مغرب نے اپنا لیا اور مغرب کی فحاشی اور عیاشی کو کامیابی کی کنجی سمجھ کرہم نے قلم اور کتابوںکوقفل لگا دیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہم نے پتھر کے دور کی طرف سفر شروع کر دیا جبکہ غیروں نے نئی دوائوں‘ دنیائوںاور ایجادات کو دریافت کرلیا۔ ہم ایسے بدنصیب ہیں اپنے آپ کو نہیں بدلتے لیکن غیروں کی ترقی پر جلتے اورکڑھتے رہتے ہیں۔ آج امریکہ اگر مسلمان ممالک کو نشانہ بنا رہا ہے تو اس حال تک پہنچنے کے ذمہ دار بھی ہم لوگ ہیں۔ اگر ہم امریکہ سے بدلہ لینا چاہتے ہیں تو ہمیں غلیل کی بجائے قلم اور کمپیوٹر اٹھانا ہو گا۔اگر ہم نے جذبات میں آ کرامریکہ کو للکار دیا تو ہمارا حال بھی جاپان سے مختلف نہیں ہو گا۔ جب 7 دسمبر1941ء کو جاپان نے امریکہ میں پرل ہاربر کے مقام پر چند سو امریکیوں کو ہلاک کیا تو اس کے صرف چار برس بعد امریکہ نے دو ایٹم بم جاپان کے دو شہروں پر گرا کر انہیں ملیامیٹ کردیا۔ اس واقعے میںڈھائی لاکھ سے زائد جاپانی لقمہ اجل بن گئے۔اس سانحے کے بعد جاپانی قوم بھی بدلے کی آگ میں اسی طرح جلنے لگی جس طرح آج ہم جل رہے ہیں۔لیکن انہوں نے ایٹم بم کا جواب جنگ کی بجائے معیشت کے میدان میں دیا اور چند ہی عشروں کے بعد جاپان دنیا کا معاشی ٹائیگربن گیا۔یوں جاپان نے ایک بھی گولی چلائے بغیر امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ۔ہم کم تعداد میں ہونے کے باوجود بھی دشمن پر غالب آ سکتے ہیں لیکن افسوس کہ آج ہمارے اندر غزوئہ بدر کے جاں نثاروں والا ایمان موجود ہے نہ ہی مطلوبہ عسکری قوت۔ پھر بھی ہم ہر رات امریکہ کو فتح کرنے کا خواب دیکھتے ہیں اور ہر صبح اس کے ٹکڑے ہونے کی دُعا کرتے ہیں۔ آج ہم خوشیاں منا رہے ہیں کہ ہم نے امریکہ کی قرارداد کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا ‘دوسری جانب پاکستان ہی 128 ممالک میں وہ ملک ہے جو اسرائیل اور مصر کے بعد امریکہ سے سب سے زیادہ بالواسطہ اور بلا واسطہ فوجی اور غیر فوجی امداد بھی لے رہا ہے‘ یا تو ہم امریکہ سے امداد نہ لیں اور ڈٹ کر اس کی مخالفت کریں اور اگر سب سے زیادہ امداد بھی لیتے ہیں اور اس کے خلاف ووٹ بھی دیتے ہیں تو پھر ہمیں غیرت اور حمیت کے نعرے لگانے سے پہلے کم از کم سو مرتبہ سوچنا چاہیے کیونکہ ہماری یہی دوعملی اور دو رنگی ہی تو مسلم اُمہ کو لے ڈوبی ہے ‘‘۔