پچا س لاکھ گھروں کی تعمیر کئی انداز میں کی جا سکتی ہے۔ اس سلسلے میں فلپائن کا ماڈل انتہائی دلچسپ اور کامیاب ہے۔ فلپائن میں کئی تعمیراتی ادارے چھوٹے گھر کم وقت اور کم لاگت میں بنا کر دے رہے ہیں۔ یہ گھر اینٹوں سے بنے روایتی گھروں سے مختلف لیکن کہیں زیادہ مضبوط اور سستے ہیں۔ ان میں دیواریں اور چھتیں سٹیل اور فائبر ملا کر بنائی جاتی ہیں۔ یہ زلزلہ پروف بھی ہوتے ہیں اور آگ اور دیمک بھی ان پر اثر نہیں کرتی۔ان کی تعمیر کے دوران ہزاروں لیٹر پانی اور دیگر وسائل ضائع نہیں ہوتے اور بہت سے غیر ضروری اخراجات کی بھی بچت ہو جاتی ہے۔گھروں کا تمام میٹریل ایک فیکٹری میں تیار ہوتا ہے اور ٹرکوں پر لاد کر متعلقہ جگہ پہنچا دیا جاتا ہے۔ایک اور فائدہ یہ ہے کہ یہ گھر کبھی بھی کھول کر نئی جگہ منتقل کئے جا سکتے ہیں۔ایک بیڈ روم‘ کچن‘ باتھ روم اور لائونج پر مشتمل ایک گھر کی تعمیر میں دو سے تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ایسے ایک گھر کا کل خرچ چھ لاکھ پاکستانی روپے آتا ہے۔ کئی ایسی کمپنیاں بھی ہیں جو صرف ایک دن میں بھی گھر بنا کر دیتی ہیں۔ یوٹیوب پر ان کی بھی ویڈیوز موجود ہیں۔ یہ ایک کرین اور بارہ سے چودہ افراد کی مدد لیتی ہیں اور صبح چھ بجے گھر شروع کر کے شام تک مکمل کر دیتی ہیں۔چنانچہ ہمارے وہ مہربان‘ جو کہتے ہیں اس طرح تو ایک دن میں اٹھائیس سو گھر بنانا پڑیں گے تو جناب اگر مقصد کرپشن کرنا اور بھائیوں‘ بیٹوں اور دامادوںکو نوازنا نہ ہو تو دنیا کا ہر کام ہو سکتا ہے ۔
وزیراعظم عمران خان نے پچاس لاکھ گھر بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ اگر ایک گھر دو منزلوں پر مشتمل ہو اور اس میں اوسطاً دس افراد مقیم ہوں تو پچاس لاکھ گھروں میں پانچ کروڑ افراد سکونت اختیار کر سکیں گے۔ اس طرح پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی کو اپنا گھر اور اپنی چھت نصیب ہو سکے گی۔ اس مقصد کیلئے نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی قائم ہو چکی جو پاکستان بھر میں رہائش کیلئے جگہ مختص کرے گی اور بینکوں سے قرض لے کر گھر بنانے تک تمام معاملات ‘ ون ونڈو آپریشن کے تحت انجام پائیں گے۔ لوگ جو کرایہ دیں گے وہ اقساط کی صورت میں کٹتا جائے گا اور یوں چند برس میں وہ اپنے گھر کے مالک بن جائیں گے۔ اس سارے عمل میں شفافیت اصل امتحان ہے جس پر سب سے زیادہ فوکس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ تعداد پر زیادہ زور ہونا بھی نہیں چاہیے۔ اس میں سے ایک چوتھائی بھی گھر بن جائیں تو بڑی کامیابی ہے۔ اصل مقصد عوام کی زندگی میں آسانی لانا ہے۔ اگر ابتدا میں مختلف شہروں میں پائلٹ پراجیکٹ کامیاب ہو گئے تو انہیں پھیلانے میں چنداں مشکل پیش نہ آئے گی۔ وزیراعظم کو داد دینا پڑے گی جنہوں نے انتہائی بنیادی ایشو کو اپنے منشور کا حصہ بنایا۔ پرسکون زندگی کے لئے اپنا گھر بہت معنی رکھتا ہے۔ جو لوگ اس سکیم کا مذاق اڑا رہے ہیں شاید انہیں بے گھر افراد کی مشکلات کا اندازہ نہیں۔کرائے پر جو خاندان او ر افراد مقیم ہیں ان کی آمدنی کا بڑا حصہ کرایہ لے مرتا ہے۔ وہ بیس بیس برس پانچ دس مرلے کے مکان کے برابر کرایہ دیتے رہتے ہیں لیکن وہ گھر ان کا اپنا نہیں ہو پاتا۔ جب چاہے مالک مکان انہیں نکال دیتا ہے۔ وہ سامان اٹھاتے ہیں اور نئی پناہ گاہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ کرائے کا مکان بھی ایک درد ِ سر ہے۔ خدا کی پناہ ہے‘تین تین ماہ کی سکیورٹی اور کرایہ الگ سے۔ ایک فیملی میں اگر چار افراد کماتے ہیں تو دو افراد کی تنخواہ تو کرایہ لے اُڑتا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم نے جن محروم افراد کے لئے یہ منصوبہ بنایا ان میں کچی آبادیوں کے مکین بھی ہیں۔ یہ لوگ اپنے ہی وطن میں مہاجرین کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے خیموں میں مقیم ہیں۔ نہ ڈھنگ کی رہنے کی جگہ نہ باتھ روم اور نہ ہی پردے کا انتظام۔ فلپائن ماڈل کے گھر خاص طور پر کچی آبادیوں کے مکینوں کے لئے بنائے جا سکتے ہیں اور ان سے انتہائی کم کرایہ لے کر انہیں مالکانہ حقوق دئیے جا سکتے ہیں۔یہ لوگ جیسے بھی ہیں بہرحال معیشت کا کسی نہ کسی طور حصہ بن چکے چنانچہ انہیں بھی زندگی کے دھارے میں واپس لانا ایک بڑا چیلنج ہے جو اگر آسان نہیں تو ناممکن بھی نہیں۔ اصل چیز کمٹمنٹ اور جذبہ ہے۔ اگر آپ کا مقصد نیک ہے تو دنیا کا مشکل ترین کام بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں‘ آپ ایسی سکیموں کی آڑ میں جعلی کمپنیاں بناتے ہیں‘ سستی سرکاری اراضی کو اپنی ہائوسنگ سوسائٹی میں ضم کر لیتے ہیں اور اس سے اربوں روپے اپنے اکائونٹس میں بھرنا چاہتے ہیں تو پھر ایسی سکیمیں واقعتاً ناکام ہو جاتی ہے جس کی مثال آشیانہ ہائوسنگ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کا مقصد اگر غریب لوگوں کر چھت دینا ہوتا تو آج سابق وزیراعلیٰ کو ہتھکڑیوں کی بجائے پھول پہنائے جا رہے ہوتے۔ کون نہیں جانتا کہ اس سکیم میں جتنے بھی گھر ملے وہ لوگوں کو سیاسی قربت کی بنا پر ملے اور ایسے لوگوں کو ملے جن کے اپنے ہی پہلے سے گھر موجود ہیں۔ یہی حال پیلی ٹیکسی سکیم کا ہوا تھا کہ لوگوں نے ٹیکسیاں لے کر رنگ تبدیل کر لئے‘ ذاتی استعمال میں لے آئے اور قسطیں تک ادا نہ کیں۔ایسی سکیمیں انتہائی کمزور بنیادوں اور غلط مقاصد پر کھڑی کی جاتی ہیں اور کچھ ہی عرصے میں ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔وزیراعظم کی پچاس لاکھ گھروں کی سکیم کا دوسرا فائدہ معیشت کو ہو گا۔ گھرسازی سے پچاس صنعتیں براہ راست منسلک ہوتی ہیں۔ اینٹوں سے لے کر سریے تک اور بجلی سے لے کر لکڑی تک تمام شعبے لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔ یہ پراپیگنڈا گمراہ کن ہے کہ اس سے ان چیزوں کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔ جب ان اشیا کی طلب بڑھے گی تو لامحالہ سپلائی میں بھی تیزی اور وسعت آئے گی۔ چھوٹی اور درمیانے درجے کی نئی صنعتیں لگیں گی جس سے معیشت اور کاروبارِ زندگی کو ایک نئی آکسیجن ملے گی۔ تیسر بڑا فائدہ ہنرمندوں اور بے روزگار افراد کو ہو گا۔ گھر ہنرمند افراد کی مرہون منت ہوتے ہیں۔ چنانچہ سکلز ڈویلپمنٹ میں تیزی آئے گی۔ جو لوگ ہنر سیکھ کر بیٹھے ہیں جنہیں کام نہیں ملتا اور وہ یہی کام مشرق وسطیٰ کے ممالک میں انتہائی کم معاوضے پر کر رہے ہیں وہ اپنے ہی ملک میں کر سکیں گے‘ اپنے بچوں کے قریب رہیں گے اور غیرممالک میں اذیتوں اور وطن واپسی کی پابندیوں سے نجات پا سکیں گے۔ملک بھر میں نیوٹیک او ٹیوٹا پہلے سے ہنرمندی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ایسے اداروں کی افادیت مزید بڑھ جائے گی اور لوگ ہنر مندی کی طرف راغب ہو سکیں گے۔ بیروزگاری کا ایک بڑا سبب ہماری اپنی نالائقی بھی ہے۔ ہم ابھی تک وہی پرانی سوچ گھسیٹتے آ رہے ہیں کہ بی اے ایم اے تھرڈ ڈویژن میں پاس کر لو اور اس کے بعد نوکری کے لئے جوتے چٹخاتے رہو۔ دور بدل چکا ہے۔ اب تو خالی ایم بی اے کو بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ ہاں اگر ساتھ آئی ٹی میں کچھ کیا ہے جیسا کہ بیچلرز یا ماسٹرز اِن مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی تو پھر آپ کم از کم انٹرویو کے لئے اہل ہو جائو گے۔ جنہوں نے ایم اے یا بی اے بھی نہیں کیا ان کی حالت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ وہ ہنر کے بغیر ایسے ہی ہیں جیسے زندہ مچھلی بنا پانی کے۔
جو لوگ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے حوالے سے پریشان ہیں انہیں بخوبی علم ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے بارے میں ان کے ناقدین بھی کہتے ہیں وہ کرپٹ انسان نہیں ہیں اور اقتدار کے حصول میں ان کا مطمح نظر پیسہ بنانا ہرگز نہیں ۔ چنانچہ اس بارے میں انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ایسا کوئی خدشہ ہونا چاہیے۔خان صاحب نے اگر مال ہی بنانا ہوتا تو وہ اتنی لمبی جدوجہد کر کے یہاں تک نہ پہنچتے ‘ وہ اپوزیشن میں رہ کر بھی لمبے ہاتھ مار سکتے تھے جیسا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ ایک دوسرے کے ادوار میں کرتی رہی ہیں کہ جب ن لیگ حکومت میں ہوتی تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا سربراہ پیپلز پارٹی کا ہوتا اور پی پی کے دور میں ن لیگ کا۔ اگر نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی قابل عمل پلان دے گی تبھی وزیراعظم اسے آگے بڑھائیں گے وگرنہ کرپشن کے داغ اپنے کپڑوں پر لگانے کا عمران خان کو ماضی میں کوئی تجربہ ہے نہ شوق!