"ACH" (space) message & send to 7575

سرکاری اداروں میں ٹیکنالوجی کا استعمال

شارق کمال نیویارک میں ریسٹورنٹ چلاتے ہیں۔ سال میں ایک دو مرتبہ پاکستان کا چکر بھی لگا لیتے ہیں۔ حالات حاضرہ بالخصوص پاکستان کی خبروں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی اہم ایشو سامنے آتا ہے تو لمبی وٹس ایپ کال کرتے ہیں اور خبر کا بیک گرائونڈ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیگر اوورسیز پاکستانیوں کی طرح پاکستان کے ساتھ گہرا لگائو اور عقیدت رکھتے ہیں۔ گزشتہ ماہ چند دنوں کے لئے پاکستان آئے تو مصروفیت کے باعث ملاقات نہ ہو سکی۔ امریکہ لوٹ کر فون کیا تو حیر ت انگیز طور پر اپنی پاکستان آمد بارے چند خوشگوار خبریں سناتے رہے۔ کہنے لگے‘ اس مرتبہ انہیں پاکستان میں کچھ ذاتی کاموں کی وجہ سے آنا پڑا لیکن حیرت یہ ہوئی کہ ان کے یہ کام اس قدر آسانی کے ساتھ اور بروقت مکمل ہو گئے کہ انہیں یقین ہی نہ آیا کہ یہ وہی ملک ہے جس میں وہ پہلے آیا کرتے تھے۔ میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو کہنے لگے: تین چار برس سے کچھ کام تعطل کا شکار تھے جن کی تکمیل کے لئے پاکستان آنا پڑا۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے تین برس قبل پاکستان میں اپنی ہمشیرہ کے لئے گاڑی خریدی تھی۔ اس وقت وہ اپنے نام ٹرانسفر کروا کر چلے گئے تھے اور اب اسے ہمشیرہ کے نام منتقل کروانا تھا۔ دوسرا یہ کہ لاہور میں ان کے سگے بھائی ایک ماہ قبل انتقال کر گئے تھے اور ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنوانا تھا۔ مرحوم بھائی کے بچے بہت چھوٹے تھے اس لئے انہیں ہی یہ کام مکمل کرنا تھا۔ تیسرا کام سب سے مشکل تھا اور وہ ان کی زرعی زمین سے متعلق تھا۔ انہیں اس کی فرد درکار تھی۔ تین چار سال قبل جب وہ یہاں آئے تھے تب پٹواریوں کے ہاتھوں خوار ہو کر واپس چلے گئے تھے۔ چوتھا کام یہ تھا کہ انہیں اپنے بیٹے کے لئے کیریکٹر سرٹیفکیٹ درکار تھا۔ ان سارے کاموں کے لئے وہ ایک مہینے کی چھٹی لے کر پاکستان آنا چاہتے تھے لیکن انہیں یہ بھی پریشانی تھی کہ پیچھے سے کاروبار کا کیا ہو گا۔ امریکہ میں ایک آدھ چھٹی تو ہضم ہو جاتی ہے لیکن اتنا طویل عرصہ نوکری یا کاروبار سے الگ رہنا ممکن نہیں۔ ابھی وہ آنے کی منصوبہ بندی ہی کر رہے تھے کہ ان کی ملاقات ایک پاکستانی فیملی سے ہوئی۔ انہوں نے شارق کمال کو بتایا کہ اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ ان کے یہ سارے کام ایک دن میں بھی ہو سکتے ہیں۔ فیملی نے انہیں بتایا کہ انہیں بھی اس طرح کے ایک سے زیادہ سرٹیفکیٹس وغیرہ درکار تھے لیکن گزشتہ برس ان کے یہ سارے کام ایک ہی دفتر میں جا کر ہو گئے۔ انہوں نے شارق سے پوچھا کہ وہ کب پاکستان جا رہا ہے؟ شارق نے بتایا کہ وہ اتوار کو پاکستان پہنچے گا۔ انہوں نے شارق کے موبائل فون پر پنجاب حکومت کے پروگرام ای خدمت مرکز کی ایپلی کیشن انسٹال کر دی۔ اس ایپلی کیشن میں یہ آپشن موجود تھی کہ آپ پیشگی اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی کام کے لئے اپوائنٹمنٹ بک کروا سکتے ہیں۔ کس سرٹیفکیٹ یا کام کے لئے کون سے کاغذات درکار ہیں‘ سب معلومات وہاں درج تھیں۔ شارق نے اپنے موبائل پر ایپ میں سوموار صبح بارہ بجے کی بکنگ کروا دی۔ 
شارق اتوار کو پاکستان پہنچا۔ پیر کی صبح انہوں نے ضروری مطلوبہ کاغذات لئے اور ٹھیک پونے بارہ بجے متعلقہ مرکز پہنچ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ کوئی بوسیدہ سی عمارت ہو گی جس کے باہر مختلف پراسرار ایجنٹ بیٹھے ہوں گے جو رشوت لے کر اس کا کام کروا دیں گے؛ تاہم عمارت کے باہر کسی ایجنٹ کو نہ پاکر وہ اندر داخل ہو گیا ۔ جیسے ہی شارق نے اندر قدم رکھا‘ اسے لگا‘ وہ کسی فائیو سٹار ہوٹل یا دبئی ایئر پورٹ میں داخل ہو گیا ہے۔ اس قدر جدید اور صاف ستھری سرکاری عمارت کو دیکھ کر ابھی وہ حیرانی کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا کہ ٹائی کوٹ پہنے ایک شخص ان کے قریب آیا اور پوچھا: میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ شارق نے اسے بتایا کہ اس کی بارہ بجے کی اپوائنٹمنٹ ہے۔ جیسے ہی بارہ بجے وہ شخص شارق کو ایک کمپیوٹر نما مشین کے سامنے لے گیا۔ شارق نے اپنا موبائل فون نکالا اور اس مشین کے سامنے اپنی ایپلی کیشن میں موصول ہونے والے بار کوڈ کو سکین کیا تو مشین سے خودکار طریقے سے ایک پرچی نکل آئی‘ جس میں کائونٹر نمبر دس کا ہندسہ درج تھا۔ ابھی شارق پرچی دیکھ ہی رہا تھا کہ انائونسمنٹ ہوئی کہ وہ ٹوکن لے کر کائونٹر نمبر دس پر پہنچ جائے۔ وہ متعلقہ کائونٹر پر پہنچا تو وہاں اس سے مطلوبہ کاغذات مانگے گئے اور کچھ معلومات درج کی گئیں۔ اس نے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔ ایک قطار میں درجن سے زیادہ کائونٹرز موجود تھے اور ہر کائونٹر پر ایک صارف کو سروس فراہم کی جا رہی تھی۔ شارق کو ایک رسید دے دی گئی اور ساتھ ہی ایک تصدیقی ایس ایم ایس بھی موصول ہو گیا جس میں لکھا تھا کہ کس طرح وہ اپنی درخواست کو آن لائن ٹریک کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ کا ایڈریس اور ہیلپ لائن کا ایک نمبر بھی اس پر درج تھا۔ چند دن بعد آ کر وہ مطلوبہ سرٹیفکیٹ لے گیا‘ اور یوں اس کا کام بغیر کسی تاخیر اور خواری کے مکمل ہو گیا۔
موجودہ دور میں جو چیز تیزی سے زیادہ نایاب ہو رہی ہے‘ وہ وقت ہے۔ آپ کسی سے راستہ پوچھنے کی بھی کوشش کریں گے تو وہ کہے گا: بھائی میرے پاس وقت نہیں۔ وقت کا ضیاع کی ایک بڑی وجہ ٹریفک میں اضافہ بھی ہے۔ شہر میں ایک سے دوسری جگہ جانے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ ایک سے زیادہ سرکاری اداروں میں کام کے لئے جانا ہو تو پورا دن لگ جاتا تھا‘ لیکن کام مکمل نہیں ہوتے۔ زیادہ تر افراد کو کسی ایک کام کے لئے دفتر سے چھٹی لینی پڑتی تھی لیکن اب صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ سرکاری اداروں میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھنے سے کئی فائدے ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کرپشن میں کمی ہوتی ہے۔ جو کام مینوئل کیا جاتا تھا‘ وہ کمپیوٹر کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہاتھ سے رسیدیں بنانے کی بجائے کمپیوٹر کی رسید جاری ہونے سے جعلسازی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا فائدہ استعداد کار میں اضافہ ہے۔ جو کام ایک ہزار افراد ایک مہینے میں کرتے ہیں‘ اکیلا کمپیوٹر وہی کام ایک منٹ سے بھی کم وقت میں کر دیتا ہے۔ اسی طرح بائیومیٹرک حاضری کا نظام بھی سرکاری اداروں میں حاضری کو یقینی بنانے میں فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔ اس نظام کی وجہ سے سرکاری اداروں میں حاضری کی شرح ساٹھ فیصد سے بڑھ کر ننانوے فیصد ہو گئی ہے۔ ٹیکنالوجی پر مبنی منصوبوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ اپنی درخواست کو آن لائن ٹریک بھی کر سکتے ہیں۔ آپ کی درخواست کس مرحلے میں ہے‘ یہ آپ گھر بیٹھے موبائل کے ذریعے جان سکتے ہیں۔ حال ہی میں ایل ڈی اے نے گھروں اور کمرشل عمارتوں کے نقشوں کی منظوری کی بھی ایپ متعارف کروائی ہے۔ اس کے لئے اب آپ کو کہیں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ آپ اپنے نقشے کو ایک موبائل ایپ کے ذریعے جمع کرا سکتے ہیں اور اس کی منظوری کے تمام مراحل کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔ یوں آپ سرکاری محکموں کے چکروں اور خواری سے بچ جاتے ہیں۔ ون ونڈو سروس ایک ایسا اقدام ہے جو شہریوں کو بہت زیادہ ریلیف پہنچاتا ہے۔ کاروبار کو آسان بنانے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو ترغیب دلانے کے لئے ون ونڈو سروس شروع ہو چکی ہے‘ جہاں مختلف محکموں کے کام ایک ہی جگہ مکمل کئے جا سکتے ہیں۔ آپ اپنے پلاٹ کی الاٹمنٹ سے لے کر نقشے کی منظوری تک اور کمپنی رجسٹریشن سے لے کر پانی یا سیوریج کے کنکشن کے حصول تک کی تمام سہولیات ایک ہی ونڈو میں حاصل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ویب پورٹل بن چکے ہیں‘ جہاں شہری نوے فیصد کام گھر بیٹھے مکمل کر سکتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ایف بی آر کا ٹیکس پورٹل اس کی ایک مثال ہے‘ جس میں گھر بیٹھے طلبا اور ٹیکس فائلر اپنی معلومات جمع کروا کر خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ مستقبل میں ایسے مراکز اور ایسے ویب پورٹلز کی طلب میں مزید اضافہ ہو گا کیونکہ وقت کی کمی کے باعث اب لوگوں کے لئے الگ الگ سرکاری دفاتر میں جانا ممکن نہیں۔ اس سارے عمل میں شہری کو جو ذہنی اطمینان حاصل ہوتا ہے اس کی تو قیمت لگائی ہی نہیں جا سکتی کہ آج کے دور میں وقت کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون بھی نایاب ہو چکا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں