پاکستان کے برعکس امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں کوئی کام کرنے کے لئے بڑے حادثے کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ حکومتی اور نجی سطح پر زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق جاری رہتی ہے چاہے وہ پیچیدہ بیماریوں کا علاج ہو‘ بجلی بچانے کے طریقے ہوں‘ پھلوں اور سبزیوں کی کاشت بڑھانی ہو یا پھر گاڑیوں کے حادثوں میں جانی نقصان کم سے کم کرنے کیلئے نئی ٹیکنالوجی کی دریافت ہو۔ جدید ممالک یہ نہیں دیکھتے کہ ایک چیز بن گئی ہے تو دھنیا پی کر سو جائیں یا اگر سر درد کی گولی ایجاد ہو گئی ہے تو وہ سردرد پر تحقیق کرنا چھوڑ دیں۔ نئی میڈیکل تحقیق کے مطابق درد کی دوا زیادہ کھانے سے دل‘ گردے اور معدے پر برا اثر پڑتا ہے اس لئے اگر سر درد کی گولی بن بھی گئی ہے تو اب اس بات پر تحقیق جاری ہے کہ سر درد ہوتا کیوں ہے اور اسے روکا کیسے جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس آپ اپنے ملک کو دیکھ لیں۔ یہاں ایجاد تو دور کی بات ایجاد شدہ چیزوں کے استعمال اور انہیں لاگو کرنے پر بھی خاطر خواہ غور نہیں کیا جاتا۔ جب تک کوئی بڑا حادثہ نہیں ہو جاتا تب تک راوی چین کی نیند سوتا ہے اور اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ چند دن شور مچتا ہے‘ برائے نام اقدامات کئے جاتے ہیں‘ کوئی اگلا سانحہ کوئی اور بڑی خبر اس سارے عمل پر مٹی ڈال دیتی ہے یوں سارا معاملہ قصہ پارینہ بن جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے لیڈر قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا اور ان کا دوست‘ گزشتہ دنوں کار حادثے میں وفات پا گئے جس پر ہر دل اداس ہے۔ خدا انہیں غم سہنے کا حوصلہ اور ہمت دے۔ ایک باپ کیلئے جوان بیٹے کی میت کو کندھا دینا آسان نہیں۔ ایسے حادثے مگر روزانہ ملک کی کسی نہ کسی سڑک پر ہو رہے ہیں۔ ان حادثات کی وجوہات پر غور کیا جانا از حد ضروری ہے۔ گاڑیوں میں حفاظتی سہولیات میں سے ایک سیٹ بیلٹ ہے۔ کئی عشروں تک امریکہ جیسے ملکوں میں بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ سیٹ بیلٹ حادثے سے بچائو کیلئے کافی ہے کیونکہ گاڑی الٹنے یا ٹکرانے کے بعد جھٹکے کی صورت میں مسافر اچھل کر گاڑی کے مختلف حصوں سے ٹکراتے ہیں جس سے چوٹ بڑھ جاتی ہے؛ تاہم سیٹ بیلٹ کے باوجود حادثات میں مسافر زخمی ہوتے رہے تو اس کا حل ایئر بیگز کی صورت میں دریافت کیا گیا۔ یہ ایئر بیگ ابتدا میں ڈرائیور اور اس کے ساتھ بیٹھے مسافر کے سامنے ڈیش بورڈ میں نصب تھے اور جیسے ہی گاڑی سامنے سے ٹکراتی‘ بمپر میں لگے سنسرز خودکار انداز میں ایئربیگز کو کھلنے کا پیغام دیتے اور یوں گاڑی کے سامنے سر لگنے یا سٹیئرنگ اور گاڑی کا ڈھانچہ انسانی جسم میں پیوست ہونے کا خدشہ کم ہو گیا۔ امریکہ میں 1999ء میں بغیر ایئربیگز والی گاڑیوں اور ٹرکوں کے سڑکوں پر آنے اور بنانے پر پابندی لگ گئی‘ جس کے بعد جاپان‘ جو دنیا میں گاڑیوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر تھا‘ نے بیرون ممالک ایئربیگز والی گاڑیاں بھیجنا شروع کر دیں۔ ان سے حادثات میں ہونے والے انسانی نقصانات میں خاطر خواہ کمی آ گئی۔ جیسا میں نے شروع میں کہا کہ جدید ممالک ہماری طرح ایک ہی جگہ لگ کر نہیں بیٹھ جاتے‘ وہاں تحقیق جاری رہتی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر گاڑی کو کوئی دائیں بائیں یا پیچھے سے مارے تو اس صورت میں مسافر کیسے بچیں گے۔ اس مقصد کے لئے ایئربیگز کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا اور اب جو نئی گاڑیاں بن رہی ہیں ان میں چھ سے لے کر بارہ ایئربیگز ہوتے ہیں۔ ایکسیڈنٹ کی صورت میں یہ دائیں بائیں اوپر پیچھے ہر طرف سے کھل جاتے ہیں‘ باہر سے پوری گاڑی تباہ ہو جاتی ہے لیکن اندر بیٹھے مسافروں کو خراش تک نہیں آتی اور یہ ان ہوائی غباروں میں محفوظ رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مگر ابھی یہ ٹیکنالوجی پوری طرح سرایت نہیں کر سکی۔ یہاں تو بغیر شاکس والے چنگ چی رکشے تک چلنے کی اجازت ہے جن میں کوئی حادثہ نہ بھی ہو تو اچھے بھلے بندے کا دس منٹ میں انجر پنجر ہل جاتا ہے۔ اسی طرح شہروں سے ذرا باہر نکلیں تو موٹر سائیکل پر ہیلمٹ پہننا تو کیا کوئی نمبر پلیٹ لگانا بھی گوارا نہیں کرتا۔ اسی طرح جی ٹی روڈ پر ایسی ایسی ڈڈو بسیں اور دھواں دینے والی گلی سڑی کوچیں اور ''طیارے‘‘ چل رہے ہیں جنہیں ہزار مرتبہ ویلڈ کیا جا چکا ہے لیکن انہیں پکڑنے والا کوئی نہیں۔ سکول وینوں میں غیر معیاری سلنڈر بھی سال میں ایک دو مرتبہ پھٹتے ہیں لیکن نہ تو عوام کو کوئی عقل آتی ہے نہ ادارے کچھ کرتے ہیں۔
ایک رپورٹ نظر سے گزری کہ سڑکوں پر ہونے والے ٹریفک حادثات میں بیاسی فیصد موٹر سائیکل سے ہوتے ہیں‘ یعنی موٹر سائیکل گاڑی سے ٹکراتی ہے یا کسی اور موٹر سائیکل سے یا پھر سوار خود ہی بے قابو ہو کر کسی چیز سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہیلمٹ پہننے کی ایک مہم گاہے چلتی ہے جسے موجودہ سی ٹی او لاہور لیاقت علی ملک نے انتہائی موثر انداز سے نافذ کروا دیا ہے۔ پہلے ایسی مہمات موسمی ہوتی تھیں اور چند ہفتے یا مہینے بعد دم توڑ دیتی تھیں۔ زیادہ سے زیادہ لاہور کی ایک مال روڈ پر چالان ہوتے تھے لیکن گزشتہ چھ سات ماہ سے آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ لاہور میں آپ کو شاذ ہی کوئی شخص بغیر ہیلمٹ کے نظر آئے گا۔ یہ مسئلہ لاہور کی ڈاکٹر برادری نے بھی اٹھایا تھا کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں ہر دوسرا کیس موٹر سائیکل حادثے میں سر کی چوٹ والا آتا تھا۔ مریض نہ بچنے کی صورت میں لواحقین ہسپتالوں میں ہنگامہ کرتے اور ڈاکٹروں سے جھگڑتے لیکن لواحقین اس بات کی ذمہ داری لینے کو تیار نہ ہوتے کہ اگر ہیلمٹ پہنا ہوتا تو چوٹ اتنی سنگین نہ ہوتی۔ ہیلمٹ کی پابندی کے بعد کچھ لوگوں نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایک ایک کمرے کے ''کارخانوں‘‘ میں بھی ہیلمٹ تیار ہونے لگے‘ ایک پتلے گتے کو گول ہیلمٹ کی شکل دے کر‘ رنگ کر کے اور شیشہ لگا کر بیچا جانے لگا۔ یہ ہیلمٹ نہ پہننے سے بھی زیادہ نقصان دہ تھا کیونکہ زمین پر لگتے ہی ہیلمٹ کے یہی ٹکڑے سروں میں پیوست ہونے لگے۔ ایسے کئی کیسز ہسپتالوں میں آئے ہیں لیکن اس طرف کسی نے توجہ نہیں دی؛ چنانچہ غیر معیاری ہیلمٹ بھی اتنا ہی نقصان دہ ہیں جتنا کہ ہیلمٹ نہ پہننا۔
پاکستان جیسے ملکوں میں حادثوں‘ دھماکوں اور سانحوں کو صرف قدرت کی طرف سے آزمائش سمجھ کر بھلا دیا جاتا ہے اور یہ دیکھنے کا تردد تک نہیں کیا جاتا کہ اگر ضروری اقدامات کئے ہوتے تو نقصان کی شرح میں کمی یا حادثے سے بچا بھی جا سکتا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کسی گاڑی کے بریک شو خراب ہوں اور بریک نہ لگنے سے حادثہ ہو جائے تو اسے قسمت کا لکھا قرار دے دیا جائے یا ایک بندہ ہیلمٹ نہ پہننے پر گر کر شدید زخمی ہو جائے تو وہ ڈاکٹروں یا قسمت کو قصوروار قرار دے دے۔ ایک معیاری ہیلمٹ دو تین ہزار سے شروع ہوتا ہے لیکن کمال ملاحظہ کیجئے کہ ریڑھیوں پر تربوزوں کی طرح دو دو سو روپے میں ہیلمٹ بیچے جا رہے ہیں اور جس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے اس نے چالیس ہزار والا موبائل فون تو رکھا ہوا ہے لیکن اپنی کھوپڑی بچانے کیلئے وہ تین ہزار ہیلمٹ پر خرچنے کو تیار نہیں۔ اسی طرح سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں کی فٹنس کے حوالے سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تمام گاڑیوں کو سالانہ بنیادوں پر چیک کیا جائے اور اسی گاڑی کو ٹوکن جاری کیا جائے جو فٹنس کے معیار پر پورا اترتی ہوں‘ بصورت دیگر ان کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ بالخصوص موٹرویز‘ جی ٹی روڑ اور بڑی سڑکوں پر وہی گاڑی آ سکے جس پر فٹنس سرٹیفکیٹ لگا ہو۔ اس سے حکومت کو جہاں بڑی تعداد میں ریونیو آئے گا وہاں سڑکوں پر ہونے والے حادثات اور ان میں ہونے والی اموات کی شرح میں بھی کمی آ سکے گی۔ جہاں تک ایئر بیگ لگانے سے گاڑیوں کی قیمت بڑھنے کی بات ہے تو پہلے کون سا گاڑیاں مفت مل رہی ہیں۔ جو گاڑی گزشتہ برس سولہ لاکھ کی مل رہی تھی اب بغیر کسی اضافی سہولت یا ٹیکنالوجی کے چوبیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور بدقسمتی سے ان میں بھی ایئربیگ موجود نہیں‘ جبکہ ملک میں موجود پندرہ سال پرانی جاپانی چھ سو سی سی گاڑیوں میں آپ کو آج بھی ایئربیگ ملیں گے۔ ہم اتنی مہنگی گاڑیاں خریدتے ہیں پھر بھی عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں‘ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں‘ ہم اور کتنی جانیں ضائع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں‘ ہم اور کتنے جنازے اٹھانا چاہتے ہیں؟ کیا ایسے دلخراش سانحوں کے بعد بھی حکومت نئی گاڑیوں میں ایئربیگز ٹیکنالوجی لازمی قرار نہیں دے گی؟