مقبوضہ کشمیر میں موبائل فون‘ لینڈ لائن فون اور انٹرنیٹ مکمل طور پر بند ہیں۔ کشمیر میں رواں سال اب تک انٹرنیٹ اور ٹیلی فون کی بندش کے 59 بلیک آئوٹ ہو چکے ہیں جو بھارت میں کہیں بھی ہونے والے بلیک آئوٹس میں سب سے زیادہ ہیں۔ انٹرنیٹ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے اصل حالات اور جبر کی داستان سے دنیا آگاہ ہو سکتی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد بھی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں موبائل انٹرنیٹ ایک سو تیس دنوں تک بند رکھا تھا۔ بھارت کو علم تھا کہ اس کے مظالم دنیا کے سامنے آ گئے تو وہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ امریکی یونیورسٹی سٹین فورڈ کے مطابق دنیا میں انٹرنیٹ کی بندش کے سب سے زیادہ واقعات بھارت میں پیش آئے جبکہ ان میں سے سینتالیس فیصد بندش صرف مقبوضہ کشمیر میں ہوئی۔ معلومات تک رسائی کے تمام ذرائع مکمل بند کرنے کے باوجود بھارتی ٹی وی چینل صورت حال معمول پر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایسی پابندیاں لگا کر بھارت سمجھتا ہے کشمیریوں کو محصور کر کے وہ اس مسئلے کو دبا لے گا اور کشمیری اس کے غلام بن جائیں گے۔ ایسا ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔ بھارت آج بھی ایک سو سال قبل کی سوچ رکھتا ہے۔ یہ کسی علاقے یا وسائل کی جنگ نہیں بلکہ انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ انسانی المیے سے بڑا المیہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ دو ہفتے سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ کرفیو کی ایسی سخت پابندیاں شاید ہی کبھی دیکھی گئی ہوں گی۔ وادی میں آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کاروبار بند پڑے ہیں۔ گھروں میں اشیائے خورونوش ختم ہو چکی ہیں۔ بیمار افراد ادویات اور علاج کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ بچے دودھ کے لئے بلک رہے ہیں۔ طلبا کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ وادی میں ہر گھر کے باہر ایک فوجی تعینات ہے۔ کسی کو گھر کی دہلیز پر آنے کی بھی اجازت نہیں۔ رشتہ دار آپس میں کٹ چکے ہیں۔ کون کس حال میں ہے کسی کو معلوم نہیں۔ حتیٰ کہ ٹیلیفون تک کاٹ دئیے گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرنے سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ ایسا جبر کرکے بھارت خود کو کیسے سیکولر ملک کہلوا سکتا ہے؟ وہ کب تک کشمیریوں کی آواز کو دبا سکتا ہے۔ کشمیر میں اخبارات اور انٹرنیٹ پر بھی پابندی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر دوسری پوسٹ کشمیر کے بارے میں ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو اس مسئلے سے آگاہی دلائی جا سکتی ہے۔ بھارتی مظالم پر مبنی ویڈیوز اور پوسٹس کو فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر مسلسل شیئر کیا جانا چاہیے۔ خاص طور پر بیرونی دنیا کے ساتھ تاکہ انہیں مسئلے کا ادراک ہو سکے۔ ہر کوئی اس مسئلے سے جڑا ہوا ہے بلکہ اس خطے اور پوری دنیا کا امن و سکون ہی اس مسئلے سے منسلک ہے۔ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ ناقابل اعتبار ہوتا جا رہا ہے۔ ایٹمی طاقت سے لیس دو ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں لیکن دنیا اس مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ سلامتی کونسل کے گزشتہ روز کے اجلاس میں پچاس سال بعد ایک مرتبہ پھر مقبوضہ کشمیر پر قراردادوں کی توثیق ہوئی اور یہ مسئلہ عالمی سطح پر اُجاگر ہوا۔ بھارت کو اپنی عددی حیثیت پر ناز ہے۔ وہ سمجھتا ہے‘ وہ پاکستان سے دو تین گنا زیادہ فوج رکھتا ہے؛ چنانچہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ اسے پاک فوج کا اندازہ ہی نہیں۔ چند ماہ قبل اس کے دو طیارے گرا کر پاکستانی فوج نے ثابت کر دیا کہ وہ ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جنگیں ہتھیاروں سے زیادہ جذبوں سے لڑی جاتی ہیں‘ وگرنہ امریکہ اور روس کبھی افغانستان میں شکست نہ کھاتے۔ کون سا ایسا بم‘ ہتھیار اور جنگی طیارہ تھا جسے امریکہ نے افغانستان میں آزما نہیں لیا۔ ایک عشرے تک بے گناہ عوام کو جاں بحق کرنے کے بعد آج امریکہ مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ اگلے دس برس بھی یہ جنگ مکمل طور پر نہیں جیت سکتا۔ جنگیں مسئلوں کا آخری حل ہوتی ہیں‘ اس کے بعد بھی اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔
بھارتی جارحیت کے جواب میں پاکستان کے پاس اپنا دفاع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ پاکستان کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کرے گا‘ لیکن اپنے عوام اور فوجی جوانوں کی جانوں کو بھارت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ پاکستان مسلسل تحمل کا مظاہرہ کرتا آیا ہے؛ تاہم جب جواب دینے کی ضرورت پڑی تو پاکستان کی جانب سے بھرپور کارروائی کی گئی۔ بھارت میں ایک مٹھی بھر اقلیت بھارتی جنگی جنون کو بھڑکا رہی ہے۔ اس وقت کسی ملک کی معیشت بھی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں نو لاکھ بھارتی فوجی موجود ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی وطن کے لئے مرنے اور کٹنے کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ نوکری اور جہاد میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یہ سب محض نوکری کر رہے ہیں۔ نوکری میں انسان اپنی جان دائو پر نہیں لگاتا۔ لگاتا ہے تو سو مرتبہ سوچتا ہے۔ جہاد میں انسان شیر کی طرح لڑتا ہے۔ بھارتی فوجی کبھی بھی بہادری سے نہیں لڑ سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نے الیکشن بھی جنگی جنون کے بل پر جیتا اور اب خطے کا امن بھی دائو پر لگا دیا ہے۔ بھارت میں ایک بڑی لابی کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف ہے؛ تاہم یہ طبقہ طاقت سے محروم ہے اس کے باوجود یہ کسی نہ کسی فورم پر آواز بلند کر رہا ہے۔ بھارت کو کب علم ہو گا کہ وہ کشمیر ی مسلمانوں کو جتنا دبائے گا وہ اتنی ہی قوت سے ردعمل دیں گے۔ کوئی بھی انسان اپنے سامنے اپنے بچوں کے ساتھ زیادتی ہوتے برداشت نہیں کر سکتا۔ کشمیری بھی نہیں کریں گے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا کشمیریوں میں بھارت سے آزادی اور نفرت کا جذبہ اور بڑھے گا۔ بھارت کشمیریوں کے پاکستان سے الحاق اور آزادی کی آواز کو ہمیشہ کے لئے نہیں دبا سکتا۔ ایک برہان وانی گزشتہ برسوں میں اٹھا اور کشمیر کی تحریک کو نئی بلندیوں پر لے گیا۔ اب ہر گھر سے برہان وانی نکلے گا۔ ایک نہ ایک دن بھارت کو اس سیلاب کے سامنے ہار ماننا ہی پڑے گی۔ ہر بھارتی چینل ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر جھوٹ بولنے کی دوڑ میں لگا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی چینل تھوڑا سا سچ دکھا دے تو اسے سرکار کی جانب سے بندش کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کے این ڈی ٹی وی نے گزشتہ دنوں کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کیا تو اس کے مالکان کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی۔
پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ عالمی سطح پر وسیع اور موثر سفارتی جنگ لڑے۔ صرف بڑے ممالک کو فون کافی نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو خود روس‘ چین‘ ترکی‘ ایران اور دیگر ممالک کا دورہ کرنا چاہیے۔ ان دوروں کا واحد فوکس مسئلہ کشمیر ہونا چاہیے۔ عالمی ممالک کو بھارت کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ عالمی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کرنے کی اجازت دے۔ وہ جہاں جانا چاہیں ان کی معاونت کی جائے اور ان کے کام میں کسی قسم کی روک ٹوک نہ کی جائے۔ بھارت نے اگر اس کے بقول کچھ غلط نہیں کیا تو پھر اسے کسی بات کا ڈر نہیں ہونا چاہیے۔ سب کچھ دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ عالمی مبصرین اور عالمی میڈیا کو رپورٹنگ کی مکمل اجازت ہونی چاہیے۔ وہ جہاں جانا چاہیں‘ جس شخص سے بات کرنا چاہیں انہیں اس کی آزادی ہونی چاہیے۔ اگر بھارتی حکومت اور ٹی وی چینلز کے مطابق کشمیر میں حالات بہتر ہو رہے ہیں تو یہ حالات دنیا کے سامنے بھی آنے چاہئیں۔ بڑے ممالک کے مبصرین کی ایک ٹیم بنائی جائے جو مقبوضہ کشمیر کے حالات سے دنیا کو آگاہ کرے تاکہ بھارتی درندگی کا پردہ چاک ہو سکے۔ اس وقت ایک ایک منٹ اہم ہے۔ بھارت کی اگلی چال سے پہلے ہمیں اپنا پتا کھیلنا ہو گا۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر شروع کروا کر پاکستان کی توجہ کشمیر سے ہٹانا چاہتا ہے۔ گزشتہ روز کوئٹہ کی ایک مسجد میں دھماکہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان نے سفارتی سطح پر سستی دکھائی تو بھارت اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا جس سے خطے کے حالات مزید خرابی کی طرف جا سکتے ہیں۔ آخر میں جوش ملیح آبادی کا پیغام کشمیریوں کے نام:
اے جنتِ کشمیر کے بیدار جوانو!
اے ہمتِ مردانہ کے ذی روح نشانو!
سو بات کی یہ بات ہے اس بات کو مانو
جینے کا جو ارمان ہے تو موت کی ٹھانو