پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگر یہ ملک ہوتا تو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا ملک ہوتا۔ اتنے بڑے صوبے کو چلانا اور اس کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنا آسان کام نہیں۔ وزیراعلیٰ عثمان خان بزدار نے جب وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ان کے سامنے دو چیلنجز تھے۔ ایک یہ کہ پنجاب میں ایسی تبدیلی لائیں کہ یہ صوبہ انتظامی اور معاشی لحاظ سے دوسرے صوبوں کے لئے ایک مثال بن سکے اورد وسرا انہیں خود کو بھی ایک بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر منوانا تھا۔ اگر ہم موجودہ حکومت کے پہلے سولہ سترہ ماہ کی کارکردگی کو دیکھیں تو وہ ان دونوں شعبوں میں بہتری لانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ کئی معاملات میں تو نتائج غیر معمولی بھی آئے ہیں جن میں سب سے اہم سرکاری اداروں میں کرپشن کا خاتمہ ہے۔ ماننا پڑے گا کہ آج سرکاری شعبہ اس طرح سے تنزلی کا شکار نہیں جیسا ماضی میں تھا۔ پہلے کسی سرکاری کام کے لئے نکلنے سے پہلے بندہ یہ نیت کر کے جاتا تھا کہ اسے سفارش لازمی کروانا پڑے گی یا پھر رشوت سے کام لینا پڑے گا‘ مگر اب یہ کلچر بھی تبدیل ہو رہا ہے اور اصل تبدیلی نظام کی مضبوطی سے منسلک ہے۔جتنا سسٹم مضبوط ‘پائیدار اور خودکار ہو گا اتنا ہی معیار اور کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔ بہت سے سرکاری شعبوں کو کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب سرکاری افسران کے ہاتھوں سے بات نکل گئی ہے اور کام شفافیت کے ساتھ آن لائن ہو رہا ہے‘ چاہے وہ آن لائن ٹیکسوں کی ادائیگی ہو‘ اساتذہ کی دوسرے سکولوں میں ٹرانسفر ہو یا نئے کاروبار کا اندراج ہو۔ مگر آپ اندازہ کریں‘ لوگ رشوت اور سفارش کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب بھی کسی کام سے کہیں جانے لگتے ہیں تو پہلے سفارش ڈھونڈتے ہیں اور جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کام تو بغیر سفارش بغیر قطار اور انتظار کے ہو سکتا ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں۔ایک دوست نے پاسپورٹ کی تجدید کروانی تھی۔ کہنے لگا: کوئی واقف ہے تو بتائیں۔ میں نے کہا: واقفیت کی کیا ضرورت ہے‘ آپ جائیے آپ کا کام نہ ہو تو بتائیں۔کہنے لگے: باہر کسی ایجنٹ سے رابطہ کروں یا سیدھا اندر چلا جائوں۔ میں نے کہا: اگر آپ کے پاس ضائع کرنے کے لئے بہت پیسے ہیں تو آپ کی مرضی‘ ویسے یہ پیسے آپ کسی غریب کو صدقہ کر سکتے ہیں لیکن پاسپورٹ بنوانے یا تجدید کے لئے کسی ایجنٹ کی ضرورت نہیں۔ آپ کو اگر کوئی ایجنٹ روکے بھی تو اس کی بات نہیں سننی۔ فارم بھریں‘ بینک میں فیس جمع کرائیں اور اندر چلے جائیں۔ یہ ایجنٹ آپ سے پیسے لے کر بھی آپ کی مدد نہیں کر سکیں گے کیونکہ اندر سارا عمل خودکار ہو چکا ہے۔ وہ صاحب اگلے روز گئے اور کچھ ہی دیرمیں کام کروا کر واپس آ گئے۔ اسی طرح ایک دوست نے گاڑی کا ٹوکن ٹیکس ادا کرنا تھا۔ کہنے لگے: پانچ ہزار گاڑی کا ٹوکن ٹیکس ہے باہر ایجنٹ کو پانچ سو دوں گا دس منٹ میں میرا کام کروا کر لادے گا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا‘ آپ گھر یا اپنے دفتر سے ایکسائز کے دفتر جانے میں گھنٹہ ضائع کریں گے پھر پارکنگ ڈھونڈیں گے‘ ایجنٹ کو پیسے دیں گے اور دو تین گھنٹے اور ہزار روپیہ فالتو دے کر جو کام کریں گے وہ کام آپ ای پے پنجاب ایپ سے ابھی یہیں بیٹھے بغیر کسی اضافی پیسے دئیے کر سکتے ہیں۔ حیرانی سے بولے: مذاق نہ کرو۔ میں نے انہیں ان کے موبائل پر ای پے ایپ ڈائون لوڈ کر دی ۔ انہوں نے ایک منٹ میں ٹیکس دے دیا اور خوشی سے نہال ہو گئے۔
ٹیکنالوجی وہ واحد شعبہ ہے جو دنیا کے ہر شعبے سے منسلک ہے‘ چاہے وہ طب ہو‘ انجینئرنگ‘ کیمسٹری‘ مارکیٹنگ یا کچھ اور ‘ ہر کسی کے ساتھ ٹیکنالوجی لازم و ملزوم ہو چکی ہے۔ دل کا آپریشن ہو یا گلے کے ٹانسلز کا‘ اب تو ہر آپریشن کے ساتھ ایک کمپیوٹر اور سکرین اٹیچ ہوتی ہے جس میں آپریشن کئے جانے والے حصے کی ویڈیو براہ راست ڈاکٹر کو سکرین پر دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ٹیکنالوجی کی اہمیت کو سمجھ چکے ہیںاور شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں تعلیم‘ صحت جیسے شعبوں میں بہت سی جدت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ وزیراعلیٰ ہنر مند پروگرام میں ہر سال مزید ایک لاکھ نوجوانوں کو ہنر سکھانے کی تربیت دی جائے گی۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ وہ نوجوان جو محض ڈگری لے کر نوکری ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں ان کے پاس کوئی ہنر ہو گا تو وہ اپنا روزگار خود چلا سکیں گے۔ اسی طرح اگر وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو وہاں بھی وہ بے روزگار نہیں رہیں گے۔ آج کے دور میں صرف ڈگری کافی نہیں۔ یا تو آپ کے پاس عملی تجربہ ہو یا پھر آپ اپنے شعبے میں اتنے زیادہ ذہین اور ماہر ہوں کہ کوئی ادارہ ہزاروں لوگوں کو چھوڑ کر صرف آپ کا ہی انتخاب کرے۔ صحت انصاف کارڈز اور مہمان خانہ جات عوام کے لئے خاصے مفید ثابت ہوئے ہیں۔ یہ مہمان خانہ جات پہلی مرتبہ ہسپتالوں میں بنائے جا رہے ہیں تاکہ دوسرے شہروں سے آنے والے مریضوں کے لواحقین سڑکوں ‘ راہداریوں اورفٹ پاتھوں پر رات گزارنے کی بجائے سکون اور عزت سے سو سکیں۔
سرکاری منصوبوں میں ٹینڈرنگ ایک روایتی عمل ہے؛ تاہم کم لوگ جانتے ہیں کہ اب اس عمل کو ای ٹینڈرنگ میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ عموماً کسی بھی منصوبے میں کرپشن اور کک بیکس کی ابتدا ٹینڈرنگ کے دوران ہی ہو جاتی ہے۔ من پسند کمپنی کو منتخب کرنے کی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ مال کھایا جا سکے؛ تاہم الیکٹرانک ٹینڈر نگ سے سب کچھ آن لائن اور سامنے ہو گا‘ بلکہ گزشتہ دنوں تو ایل ڈی ایونیو ون کے پلاٹوں کی بیلٹنگ بھی پی آئی ٹی بی کے وضع کردہ آن لائن نظام سے ہوئی۔ اس سے شکوک و شبہات اور اعتراضات کا دروازہ بھی بند ہو جاتا ہے اور لوگوں کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔سیاحت ایک ایسا شعبہ ہے جس سے پاکستان میں اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے پہلی مرتبہ سیاحوں کی خاطر ویب پورٹل‘ موبائل ٹورازم ایپ'آن لائن مینجمنٹ سافٹ ویئر‘ ای ٹکٹنگ اور کیو مینجمنٹ سسٹم وضع کیا جا رہا ہے۔ یہ مکمل ہو گیا تو ملک میں سیاحوں کی تعداد بڑھنے کا قوی امکان ہے کیونکہ بیرون ملک سے جو بھی شخص پاکستان آنا چاہتا ہے وہ پہلے آن لائن جا کر ملک کے متعلقہ علاقوںمیں آمدورفت‘ رہائش‘ سہولیات اور دیگر معلومات کو دیکھتا ہے اور اس کے بعد جانے یا نہ جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ایک اور شعبہ جس میں حکومت نے ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا وہ اساتذہ کے تبادلوں کا ہے۔ پنجاب میں چار لاکھ کے قریب سرکاری اساتذہ ہیں۔ ان کی ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ماضی میں روایتی طریقے سے کی جاتی تھی جس میں وقت لگتا تھا اور سفارش وغیرہ کا انتظام بھی کرنا پڑتا تھا۔ اب اس سارے عمل کو ایک ای ٹرانسفر موبائل ایپ کے تین چھوٹے سے مراحل میں سمو دیا گیا ہے۔ ایسے بھی کیس سامنے آئے کہ شوہر اوکاڑہ میںتو بیوی قصور کے کسی سکول میں پڑھاتی ہے اور ان کی رہائش پتوکی میں ہے۔ دونوں اپنے اپنے گھروں سے سینکڑوں میل دور روزانہ جاتے اور آتے۔ لیکن اب اس ایپ کے ذریعے وہ بغیر سفارش اپنے ہوم ٹائون کے سکول میں تعیناتی کروا سکتے ہیں۔ سسٹم ان کا سکور خودبخود کیلکولیٹ کرتا ہے اور ایسے کیسز میں انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ فوری ٹرانسفر ہو جاتی ہے۔ سنا ہے ایسا ہی سسٹم نجی سکولوں کے اساتذہ کے لئے بھی بن رہا ہے جس کے بعد اساتذۃ کا تمام ڈیٹا مرکزی پورٹل پر دستیاب ہو گا۔
وفاق کی طرح پنجاب میں بھی سٹیزن فیڈ بیک مانیٹرنگ پروگرام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے اور اگر آپ کسی سرکاری ہسپتال یا کسی اور سرکاری شعبے میں جاتے ہیں تو آپ سے خودکارطریقے سے رابطہ کر کے رائے لی جاتی ہے۔ ان آراء کی مدد سے حکومتوں کو اپنی خدمات اور سہولیات کو بہتر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈینگی پر لاہور میں حکومت پنجاب نے عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈینگی کو قابو میں لانے کیلئے بھی موبائل ایپ اور آن لائن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی ایک پریس کانفرنس میں پنجاب میں ترقی کے 54نکات پر روشنی ڈالی جن میں سے اکثر منصوبوں میں ٹیکنالوجی کی مدد لی گئی ہے۔ ٹیکنالوجی کو اسی طرح اپنانے کا سلسلہ جاری رہا تو پنجاب بہت جلد جدت میں اپنا نام منوا لے گا اور حکومت میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے نتائج بھی مختلف آئیں گے۔