ہر رات کے بعد سویرا ہے۔ ہر تاریکی کے بعد اجالا ہے اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ ان قرآنی تعلیمات کو دیکھیں تو قدرے سکون ملتا ہے اور امید کا دیا بجھنے نہیں پاتا وگرنہ تو ہر طرف سے بتدریج منفی اور پریشان کن خبریں ہی آ رہی ہیں۔ بعض ماہرین اس وبا سے پیدا ہونے والے بحران کو انیس سو تیس کے گریٹ ڈپریشن سے بڑا بحران کہہ رہے ہیں جبکہ بعض رپورٹس کے مطابق کورونا بحران کا خاتمہ گریٹ ڈپریشن کی نسبت جلد ہو گاکیونکہ لوگوں کو آگاہی دینا اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے انہیں سہولت دینا آج کے دور میں زیادہ آسان ہے۔ فی الوقت کسی رپورٹ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کام کیا جا سکتا ہے وہ احتیاط ہے لیکن احتیاط کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ویسے بھی پاکستان جیسے ملکوں میں یہ وبا ہر طبقے کے لئے ایک جیسے حالات نہیں لے کر آئی۔ اس وقت ایک طبقہ ایسا ہے جس کے پاس مال و دولت کی کوئی کمی نہیں۔ اس طبقے کے پاس ایک سے زیادہ بنگلے اور گھر ہیں‘ فارم ہائوسز ہیں‘ کئی کئی گاڑیاں اور ملازم ہیں۔ یہ کئی کاروباروں کے مالک ہیں۔ ان کا اگر ایک کاروبار کورونا کی وجہ سے تباہ ہوا ہے تو دوسرا چل رہا ہے۔یہ بڑے ہوشیار ہیں۔ انہوں نے اپنی فیکٹریوں میں ماسک‘ جعلی سینیٹائزر اور مزید جراثیم پھیلانے والے واک تھرو سپرے گیٹ بنانے شروع کر دئیے ہیں۔ انہوں نے جعلی سپرے کی فیکٹریاں آن کر دی ہیں اور یہ ضروری سامان کی ذخیرہ اندوزی کر کے آج پہلے سے بھی زیادہ پیسہ بنا رہے ہیں؛ چنانچہ ان کے پاس کیش کی بھی کمی نہیں۔ اس بحران کے شروع ہوتے ہی یہ اپنے گھروں کی بیسمنٹ کو ڈیپارٹمنٹل اور میڈیکل سٹورز میں تبدیل کر چکے ہیں۔ ان کے پاس اتنا راشن ہے کہ یہ بحران اگر پانچ سال بھی چلتارہے تو راشن ختم نہیں ہو گا۔ یہ ضروری ادویات اور پانی کا بھی ذخیرہ کر چکے ہیں۔ ان کے فارموں پر درجنوں گائیں‘ بکرے اور مرغیاں بھی موجود ہیں جنہیں یہ ذبح کر کر کے کھاتے رہیں تو کئی سال گزار سکتے ہیں۔پبلک ٹرانسپورٹ بند ہے لیکن ان کے پاس درجنوں گاڑیاں ہیں۔ اگر حکومت کی طرف سے ایک گاڑی میں دو افراد سے زیادہ سفر کرنے کی پابندی ہے تو ایک گھر کے چھ افراد تین گاڑیوں میں دو دو کر کے جا سکتے ہیں۔یہ گھروں میں نئے نئے کھانے پکا اور کھا کر بھی وقت گزاری کر رہے ہیں۔ان گھروں کے بچے صبح پانچ چھ بجے سوتے ہیں ‘شام کو سو کر اٹھتے ہیں اور اٹھتے ہی انٹرنیشنل فاسٹ فوڈ ہوم ڈلیوری کو آرڈر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ رات کو آٹھ بجے سری پائے‘تکے کباب ‘برگر اور پیزے کا ناشتہ کرتے ہیں اور یہ ناشتہ صبح سونے تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران یہ نیٹ فلکس پر ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر وقت گزارتے ہیں۔ کھلا انٹرنیٹ استعمال کر تے ہیں ۔ گھر میں بنے منی سینما گھر میں میگا سائونڈ سسٹم کے ساتھ فلمیں دیکھتے ہیں۔ فلموں اور انٹرنیٹ سے بور ہوتے ہیں تو گھر کے وسیع و عریض پارک میں آ جاتے ہیں۔ کرکٹ‘ فٹ بال اور ٹینس کھیلتے ہیں۔ اس سے بھی بور ہو جائیں تو ایکڑوں پر محیط اپنے فارم ہائوسز پر چلے جاتے ہیں جہاں جنت کا ایک الگ ہی منظر ان کا استقبال کرتا ہے۔ یہ اس اشرافیہ طبقے کی آخری منزل ہوتی ہے۔ یہ اس سے آگے نہیں جا سکتے کیونکہ انٹرنیشنل فلائٹس تقریباً بند ہیں اور اگر چل بھی رہی ہوں تو یہ دبئی‘یورپ اور امریکہ سیر اور عیاشی کے لئے نہیں جا سکتے کیونکہ فی الوقت امریکہ اور یورپ کورونا کی جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ان کا دوسرا مسئلہ پارٹیاں ہیں۔ کورونا کی وجہ سے یہ پارٹیاں بھی نہیں کر سکتے کیونکہ لوگوں نے کورونا کے خوف سے ایک دوسرے سے تو کیا اپنے ماں باپ سے بھی ملنا چھوڑ دیا ہے۔ اشرافیہ طبقے میں تو پہلے ہی بچے دادا دادی نانا نانی سے دور تھے اور انہیں گھر کی ایک بے کار چیز سمجھتے تھے۔ ان کی خدمت کرنا تو درکنار وہ عام حالات میں بھی ان کا حال پوچھنا‘ ان سے باتیں کرنا اور انہیں سلام تک کرنا گوارا نہیں کرتے تھے‘ کورونا سے انہیں مزید دور ہونے کی وجہ مل گئی ہے۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس کی والدہ پہلے بھی بیمار رہتی تھیں لیکن اب تو بچے دادی کے قریب بالکل بھی نہیں آتے۔ بچے خود سارا دن خبروں میں سنتے ہیں کہ پچاس سال سے بڑی عمر کے لوگوں سے دور رہیں۔یہ بڑی افسوس ناک صورت حال ہے۔ آئوٹنگ اور سماجی فاصلاتی پابندی کے علاوہ اس طبقے کو کوئی پریشانی نہیں۔ اس کے بعد دوسرا طبقہ آجاتا ہے ۔ یہ تنخواہ دار اور چھوٹے موٹے کاروباروالا طبقہ ہے۔اس میں موبائل فون‘برانڈڈ اور نان برانڈڈ کپڑوں کی دکانیں‘ ہیئرسیلون‘ درزی‘مالی وغیرہ کا کام مکمل ٹھپ ہے جبکہ میڈیکل سٹور‘گروسری ‘پھل سبزی‘ وغیرہ چل رہے ہیں لیکن گاہک کم ہونے کی وجہ سے ان کا کاروبار اتنا نہیں چل رہا۔ میڈیکل سٹور اور ہسپتالوں میں بھی لوگ بہت ہی ضرورت ہو تو جا رہے ہیں۔ ڈینٹسٹ مکمل بند ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے پاس بچا کھچا کیش موجود تھا جس سے وہ گزارہ کر رہے ہیں لیکن یہ صورت حال ایک ماہ اور چلتی رہی تو اس طبقے کا سانس بھی اکھڑنا شروع ہو جائے گا۔ اس طبقے کی زیادہ سے زیادہ عیاشی موبائل فون اور ٹی وی ہے لیکن اس پر بھی کورونا سے متعلق چیزیں آنے سے یہ طبقہ مزید نفسیاتی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔ تیسرا اور سب سے غریب طبقہ وہ ہے جو دیہاڑی پر کام کرتا ہے یا جس کے پاس پہلے ہی روزگار نہیں تھا۔ اپنا گھر اور اپنی سواری نہیں تھی۔ معاش اور پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے سے یہ طبقہ عجیب مقام پر کھڑا ہے۔ یہ گھر سے نکلتا ہے تو پولیس سے ڈنڈے کھاتا ہے‘ باہر کام نہیں ہے اورگھر میں کھانا نہیں۔ بجلی ‘گیس کے بل اور کرایہ مگر اسے ادا کرنا ہے۔ پیٹ کا دوزخ بھی بھرنا ہے۔ ہسپتالوں کے آئوٹ ڈور بند ہونے سے یہ بیماریوں کے ساتھ ہی سمجھوتہ کر چکا ہے۔ آگے گرمی کا موسم آ رہا ہے۔ اس طبقے کے پاس ایئرکنڈیشنر‘ یو پی ایس اور جنریٹر جیسی نعمتیں بھی نہیں ؛چنانچہ اگلے ایک سے دو ماہ میں اس طبقے کی ہمت بھی جواب دینے والی ہے۔ اس طبقے کے پاس نہ موبائل ہے نہ ٹی وی اور نہ انٹرنیٹ۔ سوائے روٹی اور سالن کے ان کے ذہن میں کوئی تیسری بات نہیں سما رہی۔یہ کورونا سے اتنا خوفزدہ نہیں جتنا بھوک سے چنانچہ اس طبقے کی پریشانی ریاست کیلئے سب سے بڑی پریشانی ہے کیونکہ یہ طبقہ اس ملک کا ساٹھ ستر فیصد سے بھی زائد ہے یعنی چودہ پندرہ کروڑ۔
میں نے ایک خبر پڑھی تھی جس میں وفاق اور پنجاب حکومت نے مالک مکان کو کرایہ داروں سے دو ماہ کیلئے کرایہ نہ لینے کا کہا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اس پر بھی وہی عمل کر سکتا ہے جس کے پاس وسائل زیادہ ہیں اور وہ کرایہ نہ لے کر بھی گزارہ کر سکتا ہے؛ تاہم حکومت کو اس تجویز کا آغاز اپنی سطح سے کرنا چاہیے۔ مثلاًاس وقت متروکہ املاک وقف بورڈ کے تحت پورے ملک میں لاکھوں ایسے گھر‘رہائشی فلیٹس اور دکانیں ہیں جن کا کرایہ بورڈ لے رہا ہے۔ یہ کرائے فوری طور پر بورڈ کے چیئرمین کو مکمل معاشی بحالی تک معاف کر دینے چاہئیں۔ اسی طرح اگر حکومت نجی اداروں کو ملازمین کو نہ نکالنے کی تنبیہ کر رہی ہے تو یہ کام اسے اپنی سطح پر بھی کرنا چاہیے اور تمام کنٹریکٹ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی جاری رکھنی چاہیے اور ان کی نوکری بھی۔ کل کے ایک اخبار میں خبر تھی کہ شاید حکومت نادرا کے کچھ کنٹریکٹ ملازمین کو معاشی بوجھ سمجھ کر نکالنے کی پلاننگ کر رہی ہے اور ان کی لسٹیں بن رہی ہیں۔اگر ایسا ہوا تو پھر پورے ملک میں بیروزگاری کا طوفان آ جائے گا۔ لوگ پہلے ہی پریشان ہیں اوپر سے ایسی خبریں عوام کو ذہنی مریض بنا رہی ہیں۔حکومت کو ایسی تجاویز دینے والے مشیروں کی بات کو رد کرنا چاہئے اور ملکی وسائل اور کورونا کی مد میں ملنے والے اربوں ڈالر کو اس مد میں استعمال کرتے ہوئے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوںا ور پنشن کو جاری رکھنا چاہئے تاکہ ملک میں کسی قسم کا انتشار اور اضطراب نہ پھیلے۔ باقی رہی اشرافیہ طبقے کی بات تو اسے چاہیے کہ وزیر اعظم کے کورونا ریلیف فنڈ میں دل کھول کر حصہ ڈالے تاکہ نچلے دو طبقوں کا سانس بحال ہو سکے۔ جو پیسے لوگوں نے حج ‘ عمروں اور زکوۃ کیلئے رکھے ہیں وہ بھی کورونا سے سسکتے بلکتے سفید پوش طبقے کی نذر کر دینے میں کیا مضائقہ ہے۔ یہ بھی ان پیسوں اور اس وقت کا بہترین استعمال ہو گا۔