تحریک انصاف کی حکومت کو دو سال مکمل ہو چکے۔ اس میں سے چھ ماہ کورونا نے ہڑپ کر لیے۔ بقایا ڈیڑھ سال کی کارکردگی یقینا حکومتی عمال کے نزدیک لاجواب ہو گی لیکن یہ دو سال عوام کے لئے کتنے خوشگوار تھے‘ یہ عوام ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس دوران بہت سے اچھے کام بھی کیے ہوں گے اور ان سے کچھ غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی لیکن ایک کام جو بہرحال اسے نہیں کرنا چاہیے تھا اور وہ یہ کہ اس نے آتے ہی ہر شعبے اور ہر مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک ساتھ زور لگانا شروع کر دیا۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ تین چار ایشوز لیے جاتے اور ان پر تسلی اور دلجمعی سے کام کیا جاتا۔ آپ ٹورازم کو ہی لے لیں۔ سیاحت صرف سیر و تفریح کا نام نہیں بلکہ یہ اتنی بڑی انڈسٹری ہے جو اس ملک کی معیشت کو آئی سی یو سے نکال سکتی ہے۔ اگر یہ حکومت دیگر ایشوز پر بہت زیادہ کام نہ بھی کرتی اور صرف اس ایک شعبے کو پکڑ لیتی تو پاکستان ان دو برسوں میں کہیں کا کہیں نکل جاتا۔
آپ خود سوچیں جب آپ شمالی علاقوں میں سیر و تفریح کے لئے جانے کا سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں دو چار نام ہی آتے ہیں اور وہاں پر بھی سڑکوں‘ صفائی اور ہوٹلوں کی جو صورت حال ہے‘ پھر ہجوم اور جتھوں کی آمد کا سوچ کر آپ اپنا ارادہ ہی منسوخ کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں لوگ سیاحت صرف گرمیوں کی دو تین مہینوں کی چھٹیوں میں ہی کرتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں پورا سال کہیں بھی موسم اتنا خراب نہیں ہوتا کہ وہاں جایا نہ جا سکے۔ آپ یورپ‘ کینیڈا اور آسٹریلیا کی مثال لے لیں جہاں مائنس چالیس ڈگری تک بھی ٹمپریچر جاتا ہے لیکن سیاحوں کی آمد سارا سال جاری رہتی ہے۔ ہماری پاس تو خوبصورت پہاڑوں‘ آبشاروں‘ ندیوں کی شکل میں بے پناہ قدرتی حسن موجود ہے، دوسری طرف دبئی کے پاس تو آج بھی ریت کے علاوہ کچھ نہیں لیکن وہ پوری دنیا کے لئے مرکزی سیاحتی مقام بن چکا ہے۔ اب تو دبئی میں ایک ایسا شہر بنانے پر کام جاری ہے جس میں فضائی درجہ حرارت بھی ٹھنڈا رکھا جائے گا کیونکہ دبئی میں شدید گرمی کی وجہ سے آئوٹ ڈور سرگرمیاں ایک مخصوص حد سے زیادہ ممکن نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ دبئی میں ایسے بڑے بڑے مالز بن چکے ہیں جہاں برف ہی برف پھیلی ہے اور سیاح اس پر سیکٹنگ تک کے مزے لیتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے ہاں سردیوں میں قدرتی طور پر پہاڑوں پر بے پناہ برف باری ہوتی ہے لیکن ہم ابھی تک کسی ایک مقام کو بھی ملکی اور غیر ملکی شہریوں کی پہنچ کے لئے آسان نہیں بنا سکے۔ پاکستان کے برعکس امریکا اور کینیڈا میں سیاحت سارا سال جاری رہتی ہے۔ گورے پانچ دن خوب دل لگا کر کام کرتے ہیں اور دو روز جی بھر کے انجوائے کرتے ہیں۔ وہ بڑی پلاننگ کے ساتھ جمعہ کی رات کو ہی سیر و تفریح کے لئے نکل جاتے ہیں اور اتوار کی شب تک خوب انجوائے کرتے ہیں۔ وہ اپنی گاڑیوں کے ساتھ ایک کمرہ نما ٹرک جوڑ لیتے ہیں یا بنا بنایا موٹر ہوم کرائے پر لے لیتے ہیں جس میں ایک بیڈ روم‘ کچن‘باتھ اور چھوٹا سا لائونج بھی موجود ہوتا ہے ۔ اس موٹر ہوم کے لئے کینیڈا میں جگہ جگہ ایسے سنٹرز بنائے گئے ہیں جہاں رُک کر اسے بجلی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور یہ چلتا پھرتا ہوٹل بن جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں سب سے زیادہ برف باری ہوتی ہے اور وہ اسے خوب کیش کراتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ناران‘ کاغان جیسے مقامات برف باری کے سبب نصف برس بند رہتے ہیں۔ تھوڑی سی برف پڑ ہو جائے تو سوات‘ کالام جیسے علاقوں کا زمینی راستہ منقطع ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب سوئٹزر لینڈ پر سولہ ہزار فٹ کی بلندی تک ٹرینیں اور چیئر لفٹیں سارا سال چلتی ہیں۔ وہاں شاید قدرتی حسن اتنا زیادہ نہیں جتنا کہ اسے دکھانے کے لئے جدید سہولتیں مہیا کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے سیاح سوئٹزر لینڈ کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں ۔ امریکا سالانہ دو سو ارب ڈالر صرف سیاحت سے کماتا ہے۔دوسرے نمبر پر سپین ہے جس کی سیاحت سے آمدن 70ارب ڈالر کے قریب ہے۔ تیسرے نمبر پر فرانس‘ چوتھے پر تھائی لینڈ اور پانچویں پر برطانیہ ہے۔ آپ اس فہرست میں پاکستان کو ڈھونڈیں گے تو یہ ایک آپ کو ایک سو تیسویں (130) نمبر پر منہ لٹکائے کھڑا دکھائی دے گا جبکہ اس فہرست میں بھارت گیارھویں اور متحدہ ارب امارات چودھویں نمبر پر ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ تھائی لینڈ اپنے جی ڈی پی کا تقریباً تیرہ فیصد سیاحت کی صنعت سے کما رہا ہے۔ بھارت ایک فیصد جبکہ پاکستان اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم۔ دنیا میں کئی ایسے مقامات ہے جو صرف سیاحت کے نام پر وضع کئے گئے۔ ان میں لاس ویگاس بھی شامل ہے جو دنیا کے پانچ بڑے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔
پاکستان بھارت کے مقابلے میں اب بھی کئی گنا محفوظ اور خوبصورت ملک ہے ۔ یہاں غیر ملکی سیاحوں کی نہ صرف بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے بلکہ انہیں جان و مال کا خطرہ بھی نہیں ہوتا۔ بھارت میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں غیر ملکی خواتین سیاحوں کی آبرو ریزی کی کوشش کی گئی‘ انہیں ہراساں کیا گیا اور ان کا سامان تک چوری کر لیا گیا۔ پاکستان کے شمالی علاقوں کے لوگ بالخصوص کھلے دل کے مالک ہیں۔ وہ غیر ملکی مہمان یا سیاح کا کسی رشتہ دار سے زیادہ احترام کرتے ہیں۔ یہی غیر ملکی سیاح اچھا پیغام اور نیک خواہشات لے کر واپس جاتے ہیں اور یوں پاکستان کے بہترین سفیر بھی ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال شندور کے مقام پر جو میلہ سجتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اسی طرح کیلاش وادی میں آپ کو سیاحت کے غیر معمولی مناظر دکھائی دیں گے جو آپ کی زندگی کی یادوں میں پیوست ہو کر آپ کو سدا خوشگوار رکھیں گے۔ ابھی تو کئی علاقے ایسے ہیں جو ٹھیک طرح سے دریافت بھی نہیں ہو سکے ہوں گے۔ گزشتہ ایک دو برسوں سے حویلیاں نامی ایسا ہی ایک علاقہ راولپنڈی سے ایک گھنٹے کی مسافت پر سامنے آیا جہاں چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے درمیان خوبصورت جھیل اور اس میں گرنے والی آبشار کا منظر دل کو باغ باغ کر دیتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جب اس مقام کی وڈیوز سامنے آئیں تو بڑے بڑے سیاح حیران رہ گئے کہ یہ ملک میں کون سی جگہ ہے جو انہیں معلوم نہیں۔کوئی اسے کشمیر تو کوئی بلوچستان کا حصہ قرار دے رہا تھا اور جب لوگوں کو یہ علم ہوا کہ یہ تو راولپنڈی سے صرف تیس چالیس کلومیٹر کی مسافت پر ہے تو سب دنگ رہ گئے کہ بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں۔ اب جو لوگ یہ وڈیوز دیکھ کر وہاں پہنچے تو ان کے اوسان اس وقت خطا ہو گئے جب انہیں معلوم ہوا کہ عین جھیل تک پہنچنے کا تو کوئی باقاعدہ راستہ ہی نہیں ہے۔ گاڑی کم از کم ایک گھنٹہ اوپر دور کھڑی کر کے پہاڑوں کے پُرپیج راستوں سے نیچے جانا پڑتا ہے جہاں خواتین اور بچوں کے لئے جانا تو بالکل بھی آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں چھڑے ہی جاتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں۔ یہ جگہ طاقت کے مرکز اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور ہے۔ اس مقام تک سڑک بن جائے تو ہوٹل وغیرہ خود بخود بن جائیں گے اور یہ علاقہ سیاحتی مرکز بن جائے گا۔ نجانے اس طرح کے کتنے مقامات اور بھی ہیں جنہیں توجہ مل جائے تو لوگوں کو دور دراز کے مقامات کے ساتھ ساتھ قریبی سیاحتی مرکز بھی میسر ہو جائیں جہاں وہ ایک گھنٹے کی ڈرائیور پر پہنچ سکیں۔
مختلف طریقوں سے حکومت سیاحت کو پروموٹ کرتی تو اب تک اربوں ڈالر اسی مد میں اکٹھے ہو سکتے تھے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ تین سال ابھی باقی ہیں۔ حکومت نے بین الاقوامی سیاحوں کے لئے ویزا آن آرائیول جیسی سہولتیں تو دی ہیں لیکن جب تک سیاحتی مقامات عالمی معیار کے نہیں بنیں گے تب تک سیاحوں کو صرف ویزا دینے سے سیاحت پھل پھول نہیں سکے گی۔ نئے نئے کھاتے اور ایشوز کھولنے کے بجائے صرف سیاحت جیسے دو چار معاملات پر ہی فوکس کر لیا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت کو زبردست اڑان مل جائے گی بلکہ ایسے لوگوں کے منہ بھی بند ہو جائیں گے کہ جو کہتے ہیں حکومت نے اب تک کیا کیا ہے۔