چین نے معاشی میدان میں جس طرح دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کو چت کر دیا ہے‘ ان طریقوں پر عمل کر کے کوئی بھی ملک ترقی کر سکتا ہے۔ چین کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ وقت کی پابندی ہے۔ چینی باشندے وقت کے ضیاع کو قومی جرم سمجھتے ہیں اور ایک ایک پل کو ملکی ترقی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ دوسری چیز جو چینی عوام میں موجود ہے‘ وہ اپنے کام کے ساتھ اخلاص ہے۔ ان کے اس خلوص کو دیکھ کر پوری دنیا سے بزنس مین چین کا رخ کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں چین کی تیار کردہ اشیا معیاری اور دیرپا نہیں ہوتیں۔ یہ تاثر سراسر غلط ہے۔ چینی کمپنیوں کو جیسا مال تیار کرنے کا آرڈر ملتا ہے‘ وہ ویسا ہی تیار کرتی ہیں۔ قصوروار تو وہ ہیں جو انہیں سی اور ڈی کلاس مال تیار کرنے کا آرڈر دیتے ہیں اور یہاں اے کلاس کہہ کر بیچ دیتے ہیں۔ دوسری طرف چین امریکا‘ جرمنی‘ برطانیہ‘ اٹلی اور دیگر ممالک کو بھی اشیا تیار کر کے دے رہا ہے۔ یہ ممالک اسے اے کلاس مال کا آرڈر دیتے ہیں لہٰذا ان ممالک کے عوام کو چین سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ تیسرے نمبر پر وطن سے محبت ہے‘ جو ہر چینی کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے اور یہی محبت انہیں اپنے ملک کیلئے خون پسینہ ایک کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ چوتھے نمبر پر ان کی سادہ طرزِ زندگی ہے اور میرے نزدیک آج چین کی ترقی کی اہم ترین وجہ بھی یہی ہے۔ چینی صدر ہو یا عام مزدور‘ آج چین کا ہر شخص چائے کافی کی جگہ نیم گرم پانی پیتا ہے۔ گھروں‘ دفاتر‘ فیکٹریوں‘ کارخانوں حتیٰ کہ بچوں کو سکول لے جانے کیلئے تھرمس میں یہی پانی ملتا ہے۔ اس سے چینی لوگ ہشاش بشاش اور تازہ دم رہتے ہیں۔ ان کا معدہ بھی درست رہتا ہے اور انہیں غنودگی کا احساس تک نہیں ہوتا‘ یوں ہر شخص سادگی کو شعار بنائے‘ اپنا اپنا فرض ذمہ داری سے ادا کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ہم لوگ محنت سے جی چراتے ہیں۔
ایک دوست نے بتایا‘ اس نے حال ہی میں ایکسپورٹ کا کام شروع کیا اور کوشش تھی کہ پاکستان سے مال بنوا کر دیگر ملکوں میں برآمد کر سکے۔ اس مقصد کے لئے اس نے فیصل آباد کا رخ کیا اور گارمنٹس کی چھوٹی سی فیکٹری کھول لی۔ اس نے دیکھا کہ سٹاف کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طور آٹھ گھنٹے پورے کئے جائیں‘ کام کے معیار سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ایکسپورٹ کا جو مال مثلاً بیڈ شیٹس وغیرہ تیار کی جاتی ہیں‘ کاریگر انہی کے اوپر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے تھے اور بعض اوقات چائے اور کھانے کے داغ والی بیڈ شیٹس بھی ایکسپورٹ کے مال میں شامل ہو جاتی تھیں۔ میرے دوست کے مطابق اسے سٹاف کی عادتیں بدلنے میں جتنا زور لگانا پڑتا تھا‘ اتنا وقت کسی اور کام میں نہیں لگتا تھا۔ یہاں کی لیبر سست اور کاہل واقع ہوئی ہے۔ جب کام نہ ملے تو رونے لگتی ہے اور جب مل جائے تو نخرے کرتی ہے۔ جیسا مال بتایا جاتا ہے ویسا بھیجا نہیں جاتا۔ اسی وجہ سے سرمایہ کار پاکستان کو آرڈر دینا پسند نہیں کرتے۔ وہ بنگلا دیش‘ چین‘ نیپال اور دیگر ملکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں سے انہیں معیار بھی ملتا ہے اور بروقت ترسیل بھی۔ یہ تو وہ اشیا ہیں جو دوسرے ملکوں کو بھیجنا ہوتی ہیں‘ جن میں خوب ڈنڈی ماری جاتی ہے۔ مقامی منصوبوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ پشاور کی میٹرو بس کا حال سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح موٹر وے اور ہائی ویز کی بھی آئے روز مرمت کی جا رہی ہوتی ہے۔ شہروں کی چھوٹی سڑکوں کا تو حال ہی برا ہے۔ یہ صرف اتنی دیر کے لئے بنائی جاتی ہیں جتنی دیر اگلا الیکشن نہ آ جائے۔ اس سے قبل لازمی طور پر سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں‘ سیوریج بلاک ہو جاتے ہیں‘ بجلی کا نظام کمزور پڑ جاتا ہے اور سیاستدانوں کو ووٹ لینے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ اگر معیار دیکھنا ہے تو دیوارِ چین کو دیکھیں‘ جس کی ایک ایک اینٹ آج بھی اپنی جگہ قائم و دائم ہے بلکہ نیویارک کے بروکلین برج کی کہانی پڑھ لیں‘ جس میں بہت سے اسباق موجود ہیں۔ یہ برج 1883ء میں بنا تھا۔ اس کا انجینئر جان روبیلنگ ایسا برج یا پل تیار کرنا چاہتا تھا جو بروکلین کو مین ہیٹن سے ملائے اور جس کی بنیادیں پانی کے اندر نہ ہوں بلکہ لوہے کی لمبی لمبی تاریں اس برج اور اس پر موجود ٹریفک کا پورا وزن اٹھائے رکھیں۔ ڈیڑھ سو سال قبل یہ آئیڈیا یقینا عجیب و غریب تھا۔ اس کا بیٹا واشنگٹن روبیلنگ بھی انجینئر تھا‘ روبلینگ نے اسے ساتھ بٹھایا اور برِج کے ڈیزائن‘ مضبوطی اور دیگر نکات پر غور کرنے لگا۔ کچھ ہی عرصے میں اس نے انجینئرز اور سٹاف کی ایک ٹیم تیار کر لی اور کام شروع کر دیا۔ پروجیکٹ شروع ہوئے ابھی تین ماہ ہی گزرے تھے کہ تعمیر کے دوران ایک حادثہ پیش آیا جس میں جان روبیلنگ اور اس کا بیٹا واشنگٹن شدید زخمی ہو گئے۔ روبیلنگ ہسپتال لے جاتے ہوئے چل بسا جبکہ اس کا بیٹا واشنگٹن مکمل طور پر معذور ہو گیا۔ اس کا پورا جسم ساکت ہو گیا‘ سوائے ایک انگلی کے‘ جس کے اشاروں سے اسے باقی زندگی بسر کرنا تھی۔ واشنگٹن ایک بہادر انسان تھا‘ وہ واحد شخص تھا جو اس تعمیراتی فارمولے کو جانتا تھا، جو اس کا باپ اسے سمجھا گیا تھا۔ وہ اپنے باپ کا خواب بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور امریکا کی ترقی میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتا تھا۔ واشنگٹن نے اپنی بیوی ایملی وارن کو بلایا اور اپنی انگلی اس کے بازو پر گھماکر اسے اشاروں سے سمجھایا کہ وہ اس برج پر کام جاری رکھنا چاہتا ہے۔ ایملی سمجھ گئی۔ اس نے انجینئرز کو بلا لیا۔ انجینئرز واشنگٹن کی بہت قدر کرتے تھے۔ انہوں نے واشنگٹن کی انگلی کے اشاروں کو سمجھ کر کام شروع کر دیا۔ واشنگٹن انجینئرز کو انگلی کے ذریعے کاغذ پر آڑی ترچھی لکیروں کے ذریعے سمجھاتا اور یوں تاریخی برج کی تعمیر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گیا۔ تیرہ سال بعد‘ 24مئی 1883ء کا وہ تاریخی دن آ گیا جب اس ڈریم برج کا افتتاح ہونا تھا۔ سارا نیویارک اس شاہکار کو دیکھنے کیلئے بروکلین کے ساحل پر اُمڈ آیا تھا۔ ایک ویل چیئر پر واشنگٹن کو بھی وہاں لایا گیا اور امریکا کی اہم ترین شخصیات کی موجودگی میں اس برج کا افتتاح ہوا اور اسے عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ 85فٹ چوڑا اور 6ہزار فٹ لمبا یہ دنیا کا سب سے پرانا‘ طویل اور اپنی نوعیت کے انوکھا ترین پل ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ یہ پیرس کے ایفل ٹاور سے پانچ سال‘ امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ سے 50سال‘ گولڈن گیٹ برج سے 60سال اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے 90سال قبل تعمیر ہوا تھا۔ لیکن اگر آپ اس برج پر سفر کریں گے تو آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے یہ آج ہی تعمیر ہوا ہے۔ اس پل کے بننے کے بعد بروکلین کے تیس لاکھ باشندوں کو سینکڑوں میل کی اضافی مسافت سے نجات مل گئی تھی اور یہ پل ڈیڑھ سو سال کے بعد بھی قائم و دائم ہے۔
بروکلین برج کی مثال امریکا کی ترقی کو سمجھنے کیلئے کافی ہے مگر یہ واحد ایجاد نہیں‘ امریکا ایسی ہزاروں مثالوں سے بھرا پڑا ہے اور ان مثالوں کے پیچھے تین چیزیں مشترک ہیں؛ خلوص‘ محنت اور دیانتداری۔ اگر ہم غور کریں تویہ تینوں چیزیں آج ہمارے ملک میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ سات عشروں میں اس ملک میں کوئی ایک ایسا پروجیکٹ نہیں جس کی بنیاد دیانتداری سے رکھی گئی ہو‘ جس میں خلوص کا پسینہ شامل ہو ‘ جسے پورا کرنے کیلئے انتھک محنت کی گئی ہو اور جسے عالمی پذیرائی حاصل ہوئی ہو۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاس جس طرح بنتے اور جس طرح ٹوٹتے اور تھوڑی سی بارشوں سے ڈوبتے ہیں‘ وہ ہم حال ہی میں سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وقت کی بھی ہماری نزدیک کوئی وقعت نہیں اور ہم ہر کام دیر سے کرنے کے عادی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی کام رشوت اور سفارش کے ترازو میں تولے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ہم وطن سے محبت کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن جو قوم یوم آزادی جیسا دن بھی سو کر گزارنے کی عادی ہو‘ کیا اس کے دعوے پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ پھر ہماری طرزِ زندگی بھی عجیب ہے کہ جہاں دن کا آغاز پراٹھوں‘ لسیوں اور سری پائے سے ہوتا ہو‘ جہاں رات گئے ہوٹلنگ‘ آئوٹنگ اور کھابے جاری رہتے ہوں‘ جہاں ہر سٹریٹ‘ فوڈ سٹریٹ اور ہر بازار‘ اتوار بازار بن جائے اور جس قوم کے نوے فیصد لوگ ہر آدھے گھنٹے بعد چائے‘ کولڈ ڈرنکس اور سگریٹ کے عادی ہوں اس قوم سے کسی بڑے بریک تھرو کی توقع کرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔