بھارت نے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں اپنی فوج اتاری اور اسے قانونی طور پر اپنا حصہ بنانے کیلئے جتنے بھی حربے آزمائے‘ وہ سارے عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں پر مبنی تھے۔ وہ چاہے 1947ء کا معاہدۂ الحاق ہو یا گزشتہ برس بھارتی آئین سے آرٹیکل 35اے اور 370 کا خاتمہ۔ بھارت کی یہ تمام تر چالیں اور نوسر بازیاں بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں حریت پسندی کا جذبہ کم نہیں کر سکیں۔
سلامتی کونسل اور دنیا کے سامنے امن کے وعدے کرنے والے اس بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اسے اپنے وعدوں کا پاس ہے نہ ہی اپنی سلامتی کی کوئی فکر۔ مقبوضہ کشمیر میں جو آگ اس نے لگائی ہے‘ اس سے اس کا اپنا گھر‘ اپنا ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے گزشتہ دو برسوں میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر مختلف رپورٹس جاری کی ہیں جن کا آغاز ہی برہان وانی کی شہادت سے کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن نے یہ بھی لکھا کہ ہم نے پاکستان اور بھارت‘ دونوں سے کہا کہ ہمیں کشمیر جا کر انسانی حقوق کا جائزہ لینے کی اجازت دی جائے جس پر پاکستان نے تو ہامی بھر لی لیکن بھارت نے انکار کر دیا۔ کمیشن کے مطابق بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو قانونی تحفظ دے رکھا ہے ۔ کمیشن نے آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ (افسپا) اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے جبری قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے ان قوانین کے خاتمے اوران میں ترامیم کی بات کی۔ کمیشن نے نہ صرف وادی میں آئے روز لگائے جانے والے کرفیو کی شدید مذمت کی بلکہ انٹرنیٹ اور فون سروس کی معطلی کو بھی غیر انسانی رویہ قرار دیا۔ رپورٹ میں اجتماعی قبروں کا ذکر کیا گیا‘ بچوں کو اٹھا لے جانے اور عقوبت خانوں میں ان پر ظلم کی بات کی گئی‘ عصمت دری کے واقعات کو بھی اجاگر کیا گیا اور آئے روز بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام کی بھی بات کی اور اس پر کچھ سفارشات بھی پیش کی گئی ہیں۔ اپنی سفارشات میں کمیشن نے ہیومن رائٹس کونسل سے کہا ہے کہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے جو کشمیر میں حقوق انسانی کی پامالی پر تحقیقات کرے۔
جہاں تک معاہدۂ الحاق کی بات ہے تو بھارت اب جتنا مرضی مُکر لے‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وہ یہ خود تسلیم کر چکا ہے کہ مہاراجہ کشمیر کے بھارت سے الحاق کے معاہدے کا یہ مطلب نہیں کہ کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا ہے بلکہ اس کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے۔ عالمی قوانین کی رُو سے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے اور بھارت جتنے مرضی حیلے بہانے بنا لے‘ جتنے مرضی جعلی قانون پاس کر لے اور جتنے چاہے جھوٹے ریفرنڈم کرا لے‘ ان کی حیثیت صفر ہی رہے گی۔ 1947ء میں کشمیر کے بھارت سے نام نہاد الحاق کے تین دن بعد یعنی تیس اکتوبر کو جواہر لعل نہرو نے لیاقت علی خان کو ٹیلی گرام بھیجا اور اس میں لکھا کہ بھارت اپنے گورنر جنرل کے دیے ہوئے عہد پر قائم ہے۔ اس ٹیلی گرام کے الفاظ قابل غور ہیں‘ نہرو نے لکھا: ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ بہت جلد ہم اپنے فوجی کشمیر سے نکال لیں گے اور یہ وعدہ بھی کرتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام کریں گے اور یہ وعدہ صرف حکومت پاکستان سے نہیں بلکہ یہ وعدہ کشمیریوں سے بھی ہے اور ساری دنیا سے بھی۔ 2نومبر کو نہرو نے قوم سے خطاب کیا اور یہی وعدہ بطور وزیراعظم اپنی قوم سے بھی کیا۔ 15جنوری کو بھارتی مندوب نے یہی بات سلامتی کونسل میں کہی کہ مہاراجہ کے بھارت سے الحاق سے کشمیر کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ یہ فیصلہ ابھی باقی ہے اور یہ کشمیری عوام نے کرنا ہے۔
بھارت نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد یہ سمجھ لیا تھا کہ اب وہ کشمیر پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہو جائے گا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا راستہ ہموار کر لے گا لیکن اس کی یہ سازش بھی رائیگاں گئی کیونکہ نہ صرف مقبوضہ کشمیر سے اس سازش کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی گئی بلکہ دنیا بھر میں کشمیری جہاں بھی موجود تھے‘ انہوں نے مزاحمت کا ایک نیا باب شروع کر دیا کیونکہ بھارت جس دیدی دلیری کے ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی کمیونٹی کے سامنے جھوٹ بول رہا تھا‘ اس کا مقابلہ اب روایتی بیان بازی یا خاموش جدوجہد سے ممکن نہ تھا۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت اس آرٹیکل سے بدل پائے گی اور نہ ہی ختم ہو گی۔ سلامتی کونسل خود عرصہ قبل یہ طے کر چکی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی بھی کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے خلاف نہیں جا سکتی اور اس حوالے سے کشمیریوں کی رائے کے بغیر از خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی‘ تو بھارت اس طرح کی چالوں سے کیسے کشمیریوں کی قسمت کا فیصلہ کر سکتا ہے؟ 1966ء میں کشمیر کی قراردادوں سے متعلق سلامتی کونسل نے یہ واضح کر دیا تھا کہ جب تک پاکستان ا ور بھارت دونوں اتفاق نہیں کریں گے تب تک یہ قراردادیں سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود رہیں گی اور جو مسئلہ عالمی سطح پر متنازع تسلیم کیا گیا ہو‘ اسے یکطرفہ طور پر بھارتی آئین میں ترمیم کر کے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
کشمیر میں بھارتی ظلم کی انتہا کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کشمیر میں آنے والی قدرتی آفات‘ بیماریوں اور مصیبتوں کو بھی کشمیریوں کے خلاف مزید جبر پیدا کرنے کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے کشمیر میں جو لوگ متاثر ہوئے‘ بھارتی فوج کی طرف سے ان کے کسی قسم کے علاج اور ان کی امداد کی اجازت نہیں دی گئی۔ کورونا کے بعد پوری دنیا میں لاک ڈائون لگا لیکن کشمیر میں تو پہلے سے ہی کرفیو اور لاک ڈائون چل رہا تھا لیکن بھارت نے اسے مزید سخت کر دیا۔ مقبوضہ وادی میں بازار‘ ہسپتال اور ضروری دکانوں تک رسائی پہلے بھی لوگوں کو حاصل نہ تھی لیکن کورونا کا بہانہ کر کے کشمیری عوام کیلئے مسائل اور زیادہ بڑھا دیے گئے اور انہیں بھوک اور بیماری سے تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ کشمیریوں کا رابطہ دنیا سے بھی کٹ چکا تھا اور بھارتی فوج پہلے کرفیو اور اب کورونا کی وجہ سے لوگوں پر باہر نکلنے پر غیر ضروری پابندیاں عائد کر چکی تھی۔ جان بوجھ کر لوگوں کو چھوٹی چھوٹی خلاف ورزیوں پر گرفتار کیا جانے لگا حتیٰ کہ بخار کی ادویات بھی وادی میں سے غائب کر دی گئیں جس سے کشمیریوں کی اذیت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔
آرٹیکل 35اے ختم کر کے دراصل بھارت کے دیگر حصوں سے شہریوں کو کشمیر میں جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس آرڈر کے پیچھے جو بدنیتی چھپی ہوئی تھی وہ یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں مقامی آبادی کی عددی برتری کو ختم کیا جائے۔ یہ ہوبہو وہی ماڈل ہے جو فلسطین پر قبضہ کرنے کیلئے صہیونیوں نے اپنایا تھا۔ شق ختم ہونے سے فلسطینیوں کی طرح کشمیری بھی بے وطن ہو جائیں گے کیونکہ بڑی تعداد میں ہندو آبادکار کشمیر میں آباد ہو جائیں گے جو ان کی زمینوں، وسائل اور روزگار پر قابض ہو جائیں گے۔ اس قانون کے خاتمے کا مقصد یہ بھی ہے کہ کشمیر کے باہر سے شدت پسند ہندوؤں کو وہاں لا کر بسایا جائے‘ جس سے چند سال میں ہی آبادی کا تناسب بری طرح بگڑ سکتا ہے؛ لہٰذا مسلمان اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی۔ بھارت کے ان تمام مذموم عزائم کا پردہ چاک کرنے کیلئے کشمیر کا ہر نوجوان پہلے سے زیادہ پُرجوش ہے۔ بھارت کشمیر کو ہتھیانے اور کشمیر ی عوام کے حقوق غصب کرنے کیلئے جتنی زیادہ چالیں چلے گا‘ تحریک آزادی اتنی ہی زیادہ اپنی منزل کے قریب ہوتی چلی جائے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں جتنی بھی مزاحمت جاری ہے یہ وادی کے اندر سے ہی ابھر رہی ہے۔ اس میں عورتیں‘ نوجوان حتیٰ کہ بچے بھی شریک ہو چکے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ انہیں ان کا حق تبھی ملے گا جب اس تحریک میں ان کا خون شامل ہو گا۔ بھارت کشمیری حریت پسندوں کے اسی جذبے کے ہاتھوں شکست کھا رہا ہے وگرنہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم اور دیگر عالمی فورمز پر وہ جتنے ہتھکنڈے آزما چکا ہے‘ کب کے کشمیری اور کشمیر اس کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہوتے۔ اب تو بھارت کا زوال بھی کشمیر سے جڑ چکا ہے۔ آج نہیں تو کل‘ اسے کشمیر سے اپنی فوج نکالنا ہی پڑے گی کیونکہ بھارتی فوجیوں کا مورال بھی روز بروز پستی کی جانب گامزن ہے جبکہ کشمیریوں کا جذبۂ آزادی عروج کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ بھارت کو نوشتۂ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔