پانچ جنوری صرف ایک تاریخ ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کیلئے اہم ترین دن بھی مانا جاتا ہے۔ آج کے روز پوری دنیا میں کشمیری عوام حق خودارادیت منا رہے ہیں۔1949ء میں آج اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پاکستان اور بھارت نے انتہائی اہم قرارداد منظور کی تھی۔ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرارداد میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ ریاست کے الحاق کا فیصلہ جمہوری انداز میں عوام کی منشا کے مطابق کیا جائے گا لیکن 72برس گزرنے کے بعد بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ وہ آج بھی بھارت سے آزادی کیلئے اسی طرح جدوجہد کر رہے ہیں جیسے 72سال پہلے کر رہے تھے۔ اب تو ان کے حقوق غصب کرنے کیلئے نت نئے پینترے آزمائے جا رہے ہیں۔ کشمیر میں متنازع آرٹیکلزاور لاک ڈائون کے نفاذ کو پانچ سو سے زائد روز گزر چکے ہیں‘ عوام کو ان کے گھروں میں محصور کر دیا گیا ہے اور انہیں بازار تو درکنار‘ہسپتال تک جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ آج کا دن منانے کا مقصد عالمی برادری کو اقوام متحدہ کی منظور کی گئی اس قرارداد کی یاد دہانی کرانا ہے جس میں کشمیری عوام سے رائے شماری کا آزادانہ انعقاد کا وعدہ کیا گیا ہے۔
5 جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں منظور کی گئی قرار داد کے ذریعے عالمی برادری نے ریاستِ جموں و کشمیر کے عوام کے آزادانہ طور پر اپنے سیاسی مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے حق کو تسلیم کیا تھا؛تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ۔ہر سال مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج حقِ خود ارادیت کا مطالبہ کرنے والے پُرامن مظاہروں کو کچلنے کے لیے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں کشمیریوں کو شہید کر دیتی ہے۔ نہتے نوجوانوں کو دہشت گردقرار دے کر انہیں شہید کر دیا جاتاہے۔ آزادی کا نعرہ لگانے والی آواز کو ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کو سات دہائیاں بیت گئی ہیں؛ تاہم کشمیریوں پر ظلم و جبر کا سلسلہ تھمنے کی بجائے اور تیز ہوگیا ہے۔ بھارت خود حیران ہے کہ سینکڑوں شہادتوں‘ پیلٹ گنوں سے معذوری کے واقعات کے باوجود آخر کیسے کشمیریوں کا جذبۂ آزادی مزید جنون اور تیزی پکڑ رہا ہے۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی سرزمین کو دنیا کی سب سے بڑی جنگی سرزمین میں بدل دیا گیا ہے۔بھارتی فوج نے کشمیری میں بہت سے متنازع قوانین نافذ کر رکھے ہیں جن میں آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ اینڈ پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین بھی شامل ہیں۔ ان کے تحت کسی بھی شخص کو شک کی بنا پر غیرمعینہ مدت کیلئے گرفتار کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ ماورائے عدالت قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ وادیٔ کشمیر اس وقت تاریخ کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے‘ وہاں کے عوام نہ صرف آزادی کیلئے مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں بلکہ مسلسل لاک ڈائون کی وجہ سے انہیں خوراک‘ادویات ‘ نقل و حمل اور دیگر بنیادی حقوق کیلئے بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔عالمی مبصرین کو بھی وادی میں جانے سے روکا جا رہا ہے اور 5 اگست 2019ء کے بعد سے مودی سرکار کی جانب سے آئے روز کشمیر میں عوام پر عائد کی جانے والی پابندیوں اور سختیوں میں اضافہ ہو رہاہے۔ کشمیر میں خوف و ہراس عروج پر ہے اور غیریقینی کی صورتحال نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیریوں کی اخلاقی‘ سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے جو اس کا بنیادی فرض بھی ہے۔ کشمیری عوام بھی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اور ہر مشکل میں 'پاکستان زندہ باد‘ اور' کشمیر بنے گا پاکستان‘ کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان نعروں کی انہیں کی جو قیمت انہیں ادا کرنا پڑتی ہے ‘وہی جانتے ہیں۔ ان نعروں کے جواب میں بھارتی افواج اُن پر پل پڑتی ہیں‘ گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں‘ بوڑھے‘ مرد و خواتین‘ بچے جو بھی ان کے ہاتھ لگتا ہے وہ انہیں اٹھا کر لے جاتے ہیں۔دیکھا جائے تو بھارت ہٹ دھرمی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے؛ تاہم وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ ہمیں یقین ہے کشمیر کی آزادی کا سورج ایک نہ ایک دن ضرور طلوع ہو گا۔ مسلمان کا ایمان ہے کہ باطل مٹ کر رہتا ہے۔ فتح حق کی ہوتی ہے۔ رات کتنی ہی طویل ہو‘ سویرا ضرور ہوتا ہے۔ کشمیری بھی اسی امید پرجی رہے ہیں۔ وہ جدوجہد کرنا جانتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ شہادت کی خواہش ان کے خون میں رچ بس چکی ہے۔ موت کا خوف انہیں ان کے مقصد کے حصول سے بازنہیں رکھ سکتا۔ انہیں یقین ہے بھارت کتنے ہی ہتھکنڈے آزما لے‘ پسپائی اس کا مقدر بنے گی۔ وقت نے ثابت کیا کہ مودی سرکاری کی جانب سے کشمیر میں دہشت گردی جتنی بڑھی‘ اتنی ہی کشمیر میں آزادی کی لہر میں تیزی دیکھنے کو ملی۔
پانچ جنوری کی قرارداد کے نکات کا جائزہ لینا اور اسے دہرانا اس لئے ضروری ہے تاکہ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے اور بھارت سمیت عالمی برادری کو یہ باور کرایا جا سکے کہ حقِ خود ارادیت کشمیری عوام کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی انسان کیلئے پانی۔ جب تک کشمیریوں کو یہ حق نہیں ملتا‘ کشمیر سمیت پورے خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ بھارت کتنا ہی سادہ بننے کی کوشش کرے‘ حقائق سے فرار ممکن نہیں۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کا فیصلہ ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ریفرنڈم کے ذریعے کیا جائے گا اورریفرنڈم کا انعقاد اس وقت عمل میں لایا جائے گا جب کمیشن کو یقین ہو جائے گا کہ جنگ بندی اور عارضی صلح کے ساتھ ساتھ ریفرنڈم کے انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ قرارداد میں انتہائی وضاحت اور باریک بینی کے ساتھ تمام نکات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی طے پایا کہ کمیشن کے اتفاقِ رائے کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل عالمی مقام کی حامل ایک عمومی طور پر قابلِ اعتماد شخصیت کو ریفرنڈم کا منتظم مقرر کریں گے جس کو باضابطہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کی طرف سے اس عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔ ریفرنڈم کے منتظم کو ریاست جموں و کشمیر کی جانب سے وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جنہیں وہ ریفرنڈم کے انعقاد اور اس کی غیر جانبداری کو یقینی بنانے کیلئے ضروری متصور کرے گا۔ قراردار میں ریفرنڈم کے منتظمین‘ عملہ‘ معاونین اور مبصرین کی تعیناتی سے متعلق اختیارات تک بھی واضح کئے گئے ہیں۔اسی طرح ریاست جموں و کشمیر کی تمام مقامی حکومتوں کو ریفرنڈم منتظم کے اشتراکِ کار کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانے کا عہدکیا گیا کہ ریفرنڈم میں ووٹروں کو کسی قسم کے خطرے‘ جبر‘ خوف‘ رشوت یا کسی اور قسم کے ناجائز دباؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اورریاست بھر میں جائز سیاسی سرگرمیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔ تمام ریاستی شہری بلا لحاظ عقیدہ‘ ذات اور پارٹی ریاست کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے سوال پر اپنے خیالات کے اظہار اور ووٹ کے استعمال پر آزاد ہیں اور انہیں تحفظ حاصل ہے۔ ریاست میں پریس‘ تقریر اور اجتماع اور ریاست میں سفر کی آزادی بشمول قانونی داخلے اور اخراج پر کوئی پابندی نہیں ۔یہ بھی واضح کیا گیا کہ ریفرنڈم کے اختتام پر ریفرنڈم منتظم نتائج کی رپورٹ فوری طور پر کمیشن اور حکومتِ جموں و کشمیر کو دے گا۔ پھر کمیشن اس امر کی تصدیق سکیورٹی کونسل کو دے گا کہ ریفرنڈم کا انعقاد آزادانہ اور غیرجانبدارانہ ہوا ہے یا نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے بھارت و پاکستان نے 5 جنوری 1949ء کو اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ کمیشن ممبران میں ارجنٹائن‘ بلجیم‘ کولمبیا‘ چیکوسلواکیہ اور امریکا شامل تھے۔ یوں اس قرار داد نے واضح کر دیا کہ اس میں ریاست جموں و کشمیر میں ریفرنڈم کے انعقاد کیلئے کیا شرائط رکھی گئی ہیں اور ریاستی باشندوں کو کن حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام گزشتہ ستر سال سے جن مصائب ‘ مشکلات اور اذیتوں سے گزر رہے ہیں‘ اگر اس قرارداد پر من و عن عمل کر لیا جاتا تو یہ مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا اور وہ سکون کی زندگی جی رہے ہوتے۔ بھارت اس حل کی راہ میں واحد اور اصل رکاوٹ تھا اور آج بھی ہٹ دھری کی راہ پر چل رہا ہے۔ کشمیری عوام کیلئے ایسے میں ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے کہ وہ آزادی کی جدوجہد اس وقت تک جاری رکھیں جب تک بھارت گھٹنے نہیں ٹیک دیتا۔