اسرائیل واحد ملک ہے جس کی پچاس فیصد سے زائد آبادی کو کورونا ویکسین لگ چکی ہے۔ امریکا‘ جہاں کورونا سے سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں‘ اس کی سولہ فیصد آبادی کو ویکسین کی دوسری ڈوز بھی لگ چکی ہے۔ امریکا میں ساڑھے چودہ کروڑ سے زائد کی تعداد میں ویکسین لگائی جا چکی ہیں۔ اسی طرح چلی میں اٹھارہ فیصد‘ بحرین سولہ فیصد‘ سربیا تیرہ فیصد‘ مالٹا گیارہ فیصد‘ ترکی آٹھ فیصد‘ ہنگری سات فیصد‘ ڈنمارک چھ فیصد‘ سوئٹزر لینڈ چھ فیصد جبکہ سپین‘ برطانیہ اور سنگاپور میں ساڑھے پانچ فیصد لوگوں کو ویکسین لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔ بھارت کی سوا ارب آبادی میں سے صفر اعشاریہ سات فیصد‘ تقریباً چھ کروڑ سے زائد لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں۔ پاکستان میں اب تک کل ساڑھے تین لاکھ ویکسین لگائی گئی ہیں۔ ہر ایک سو میں سے صفر اعشاریہ دو لوگوں کو ویکسین لگی ہے۔ یہ اوسط دیگر ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ پاکستان اپنے شہریوں کو ویکسین لگانے کے حوالے سے اس وقت 124ویں نمبر پر ہے۔ ہم سے نیچے صرف پندرہ ممالک ہیں۔ان میں کینیا‘ یوگنڈا‘ ویتنام اور افغانستان جیسے مفلوک الحال ممالک ہیں۔ ہم سے زیادہ مفلوک الحال درجنوںممالک ہم سے اوپر بھی ہیں جہاں ویکسین بہت جلد درآمد کر لی گئی اور لگائی بھی گئی۔ ان میں گیمبیا‘ انگولا‘ قزاقستان‘ میانمار وغیرہ شامل ہیں؛ تاہم ہمارے قریب ہی جاپان جیسا ملک بھی ہے جہاں آج بھی روزانہ دو ہزار کے قریب کورونا کے کیس رپورٹ ہو رہے ہیں لیکن وہاں بھی ہر سو میں سے صرف اعشاریہ سات فیصد لوگوں کو ویکسین لگی ہے۔ جاپان میں کل آبادی کے محض اعشاریہ ایک فیصدکو کوروناکی مکمل ویکسین لگی ہے۔ یہاں سے سوال اٹھتا ہے کہ اگر جاپان جیسا ملک بھی ویکسین نہیں بنا سکا اور نہ لگا سکا ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ نہ ہم ویکسین بنانے والوں میں سے ہیں نہ ہم میں تمام آبادی کے لیے قیمتاً درآمد کرنے کی سکت ہے تو پھر بلاوجہ امیدیں لگانے کا فائدہ؟ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب کو چھو رہی ہے۔ بھارت اس سے چند کروڑ ہی پیچھے ہے۔ امریکا کی آبادی چونتیس کروڑ کے قریب ہے۔ انڈونیشیا ستائیس کروڑ جبکہ پاکستان بائیس کروڑ آبادی کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ یعنی آبادی میں ہم ٹاپ فائیو میں رینک کرتے ہیں لیکن ویکسین لگوانے میں ایک سو چوبیس ویں نمبر پر ہیں اور چاہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم محفوظ ہو جائیں۔ اتنی بڑی تعداد میں ویکسین کی تیاری اور فراہمی معمولی کام نہیں ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہر ملک میں یہ آزمائش برابر نازل ہے‘ وہاں پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کیلئے یہ کسی خواب سے کم نہیں کہ ہمیں دیگر ملکوں کی طرح یا ان سے پہلے ویکسین مل جائے۔ امریکا‘ برطانیہ جیسے جو ممالک ویکسین بنا رہے ہیں اور جو سب سے زیادہ اس عفریت کو بھگت رہے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں وہ اپنے ملک اور عوام کو چھوڑ کر پہلے ہمیں بطور عطیہ ویکسین بھیج دیں‘ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ چین میں اگرچہ اب کیسز اس طرح نہیں ہیں لیکن چین کو بھی ویکسین کے آرڈر پوری دنیا کیلئے پورے کرنا ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ اس مسئلے کا واحد اور جلد حل صرف ملکی سطح پر ویکسین کی تیاری ہے۔ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات اور چین کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ الجزیزہ کے مطابق یو اے ای چینی ویکسین اس سال کے آخر تک مقامی سطح پر سالانہ بیس کروڑ کی تعداد میں بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ یہ ویکسین یو اے ای میں حیات ویکس کے نام سے بنے گی اور عرب دنیا کے کسی بھی ملک میں مقامی سطح پر بنائی جانے والی پہلی ویکسین ہو گی۔
پاکستان میں ویکسین آنے یا تیاری کا بھی مسئلہ نہیں۔ یہاں تو پچاس فیصد لوگ کورونا کو مانتے ہی نہیں‘ وہ کیسے ویکسین لگوانے پر آمادہ ہوں گے۔ ویکسین کم تعداد میں آنے اور کم رفتار سے لگنے پر بھی سب سے زیادہ تنقید ایسے ہی لوگ کر رہے ہیں جو کورونا سے انکاری ہیں۔ ویسے فکر کی زیادہ ضرورت نہیں کیونکہ امریکا اور دیگر ممالک کی بچت بھی اسی میں ہے کہ پوری دنیا اس مصیبت سے پاک ہو کیونکہ ایک ملک میں چند سو کیسز کی موجودگی کا مطلب یہی ہے کہ یہ بیماری دیگر ملکوں میں دوبارہ بھی پھیل سکتی ہے۔ اس لئے امریکا اور مغربی ممالک جتنی کوشش اپنے شہریوں کو اس موذی مرض سے پاک کرنے کی کر رہے ہیں‘ اتنی ہی دیگر ممالک کیلئے بھی کریں گے۔ اب آگے ہم وہی کرتے ہیں جیسے پولیو کے معاملے میں کرتے ہیں تو پھر ہمارا خدا ہی حافظ ہے۔ اس معاملے میں ابھی سے طرح طرح کے مفروضے پھیلائے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ویکسین لگوانے سے انسان بندر بن جائے گا۔ کسی کے مطابق انسانوں کے دماغوں کا کنٹرول یہودیوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن احتیاط کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو اب تقریباً سبھی جاننے والوں کے عزیزوں کی کورونا میں مبتلا ہونے کی خبریں مل رہی ہیں۔ اس کے باوجود بداحتیاطی عروج پر ہے۔ نجانے یہ قوم کب اور کس ایشو پر اکٹھی ہو گی۔ آج تک کم ہی مواقع ایسے آئے ہیں جب کسی ایشو پر ایک آواز سنائی دی ہو۔ ایسے میں‘جب کوئی مسئلہ ملک گیر یا عالمگیر حیثیت اختیار کر جائے اور جس پر قابو پانا جدید ممالک کے لئے بھی مشکل ہو جائے‘ حکومت پر تنقید کرنا انتہائی آسان ہو جاتا ہے۔
کورونا ویکسین کو تو چھوڑیں‘ پاکستان معمولی ویکسینزبھی خود بنانے کے بجائے عمومی طور پر ویکسین درآمد کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے عالمی ادارۂ صحت سے اجازت لے لی ہے اور اب پاکستان میں بھی مختلف ویکسینز بننا شروع ہو جائیں گی۔ اس وقت ویکسین کے حوالے سے غیر یقینی کی صورتحال تقریباً تمام ممالک میں ہے۔ ویکسین لگوانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اِدھر آپ کو ویکسین لگی اور اُدھر آپ مکمل طور پر محفوظ ہو گئے۔ جس طرح ایک شخص کورونا میں مبتلا ہوتا ہے اور اس کے تین ہفتے بعد اس میں اینٹی باڈیز بننا شروع ہوتی ہیں‘ اسی طرح ویکسین لگوانے کے بھی تین ہفتے بعد مدافعتی نظام اپنا کام شروع کرتا ہے۔ جو ویکسین دو مرتبہ لگوانی پڑتی ہے‘ اس میں دوسری خوراک لگنے کے بعد اینٹی باڈیز بنتی ہیں جیسا کہ صدر عارف علوی کے معاملے میں ہوا۔ انہیں ایک ڈوز لگ چکی تھی لیکن اس دوران انہیں کورونا ہو گیا؛ چنانچہ یہاں پھر وہی بات آتی ہے کہ احتیاط دونوں صورتوں میں جاری رکھنی ہے۔ ویکسین لگوا کر بھی اور اس کے بغیر بھی۔ ہاں! مکمل ویکسی نیشن کے بعد آپ کافی حد تک اس مرض سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔
باقی رہی بات کون سی ویکسین کتنی زیادہ موثر ہے‘ کتنی زیادہ دیر تک آپ کے جسم میں اینٹی باڈیز کو برقرار رکھتی ہے‘ یہ سب چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ اور دنیا بھر سے ڈیٹا موصول ہونے کے بعد ہی کلیئر ہوں گی۔ فی الوقت اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ احتیاط اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا ہی اصل بچائو ہے۔ یہ بھی ذہن نشین کر لیں کہ فلو ایک عام بیماری ہے اور پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ اس سے بھی مکمل بچائو کی کوئی دوا ابھی تک ایجاد نہیں ہو سکی۔ امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں ہر سال عوام سرد موسم کے آنے سے قبل فلو کی ویکسین بھی لگواتے ہیں‘ لوگ احتیاط بھی کرتے ہیں لیکن فلو اس کے باوجود بھی ہو جاتا ہے۔ اور صرف فلو نہیں ہوتا بلکہ امریکا جیسے ملک میں سالانہ 60، 70 ہزار افراد فلو کے باعث ہلاک تک ہو جاتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نے فلو کی ویکسین لگوا لی ہے تو آپ برفباری میں ننگے بدن نکل کر آئس کریم کھانا شروع کر دیں اور یہ سوچیں کہ مجھے ویکسین لگ چکی ہے لہٰذا میں محفوظ رہوں گا، ایسا نہیں ہوتا۔ نہ کورونا نے مکمل ختم ہونا ہے نہ ہی ویکسین نے مکمل طور پر بچانا ہے۔ یہ سلسلہ ایک سال نہیں بلکہ اگلے پانچ‘ دس سال تک یونہی چلتا نظر آ رہا ہے۔ اس کیلئے دوا کے ساتھ ساتھ دُعا کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ یہ بیماری پوری دنیا میں یکساں طور پر نازل ہوئی ہے اور انسانوں کے اعمال کی سیاہی نے پوری دنیا کو گدلا کیا ہوا ہے۔ کون سا ایسا گناہ ہے جو ہم میں نہیں پایا جاتا؟ اس کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں دُعا تک نہ کرنی پڑے‘ ہم اپنے گناہوں سے باز بھی نہ آئیں لیکن ہر مشکل اور ہر بیماری سے فوری محفوظ بھی ہو جائیں‘ کتنے بھولے ہیں ہم!