13 جولائی کا دن ہر سال یومِ شہدائے کشمیر کے نام سے منایا جاتا ہے۔صرف کشمیر ہی نہیں‘ پاکستان کے عوام اور دنیا کے دوسرے ممالک میں رہنے والے کشمیری بھی اس دن کو جوش وخروش سے مناتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تیرہ جولائی نے کشمیریوں کی تقدیر بدل ڈالی تھی۔یہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں ایسا دن ہے جب ہر محب وطن پاکستانی اور کشمیری اپنے سیاسی نظریات اور جغرافیائی حدود و قیود سے بالا تر ہو کر ان آزادی پسند غیور افراد کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے کہ جن کے خون نے پوری وادیٔ کشمیر کو آزادی کے جذبے اور ولولے سے روشناس کیا تھا۔کشمیر میں ایک طرف یہ دن جلسوں‘ کانفرنسوں‘سیمیناروں اور ریلیوں کے ساتھ منایا جاتا ہے، تو کنٹرول لائن کے دوسری طرف مکمل ہڑتال کر کے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بھارت کے جبری تسلّط کو کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
آج اس واقعے کو نو دہائیاں مکمل ہو جائیں گی۔ 1931ء کا وہ دور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کیلئے جبراور مشکلات سے بھرپور تھا۔ڈوگرہ حکومت کے کارندے کشمیری عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے تھے۔ مہاراجہ کے سپاہی کشمیریوں سے جبراً کام کرواتے تھے‘ فصل کٹائی کے وقت زیادہ تر حصہ بطور تاوان ان سے لے لیا جاتا تھا، ظلم وبربریت کا ماحول ایسا گرم تھا کہ پانی اور ہوا کے علاوہ ہر ایک چیز پر تاوان نما ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ اس ظلم وجبر سے تنگ آ کر بالآخر 21 جون 1931ء کو تنظیمِ نوجوانانِ اسلام نامی ایک پلیٹ فارم نے ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا جس کی صدارت شیخ محمد عبد اللہ کر رہے تھے۔ اس مجمع میں ایک جواں سال شخص نے آخری کچھ لمحات میں اپنی تقریر شروع کی۔ جی ہاں! یہ صرف تقریر تھی مگر یہ الفاظ کشمیر کی تقدیر بدل ڈالیں گے‘ کسی کو بھی اس چیز کا علم نہیں تھا!''قرآن اور اسلام کی اہمیت اور رتبہ مسلمانوں کے نزدیک اس دنیا کے ہر عہدے سے بڑھ کر ہے۔ ہم اپنے دین میں کبھی بھی کوئی بیرونی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ اے مسلمانو! اٹھو، وقت آ گیا ہے جب ظلم وجبر کا مقابلہ کرنا لازمی ہے۔ اب اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا۔ یہ دستاویزات اور معاہدے کسی کام کے نہیں۔ ان چیزوں سے ظلم وستم کم نہیں ہوں گے‘‘۔عبد القدیر خان نامی نوجوان نے اپنی دھواں دھار تقریر ان الفاظ سے شروع کی تو لوگوں کے دلوں کو گرما دیا اور کشمیری عوام کے دلوں میں آزادی کا جذبہ اور ولولہ اُجاگر ہو گیا۔عبد القدیر خان راج محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بلند آواز میں بولا:زمین بوس کر دو‘ اس ظلم وجبر کے قلعے کو۔ جس پر جلسے میں شامل لوگ فلک شگاف نعرے بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں اور ڈوگرہ سامراج کے خلاف ایک نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھنے لگے۔ اس تقریر کی بنا پر عبدالقدیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ کیس کی شنوائی سرینگر کے مرکزی جیل میں رکھی گئی تاکہ لوگوں کے ہجوم سے بچا جا سکے؛ تاہم تیرہ جولائی کے دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ مرکزی جیل کے باہر عبد القدیر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔اتنے میں نماز کا وقت آ گیا، مگر نماز کے لئے اجازت نہ ملی۔ دین کے وہ سپاہی جو عبد القدیر خان کے گرویدہ ہوچکے تھے‘ کسی ظالم کی سُننے کو تیار نہ تھے! ایک مردِ مجاہد اذان دینے کے لئے کھڑا تو ہوا مگر سفاک مہاراجہ کے ایک سپاہی نے اس کو گولی مار کر شہید کر دیا۔اس کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، دیکھتے ہی دیکھتے پورا مجمع مشتعل ہو کر پولیس پر زبردست پتھراؤ کرنے لگا۔ فوج کو بلایا گیا اور بے حس سپاہیوں نے بے دریغ 22 بے گناہ مسلمانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا کے شہید کر دیا اور بے شمار گرفتاریاں عمل میں آئیں۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ پوری وادیٔ کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پھیل گئی، اور آزادی کا ایک نیا جذبہ دلوں کے اندر پیدا ہو گیا۔ اس مجرمانہ حرکت کے خلاف پوری وادی میں 19 دن تک مکمل ہڑتال رہی۔
13جولائی 1931ء سے اب تک لاکھوں کی تعداد میں عام کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔خواتین کی عصمت تار تار کی گئی، بچے یتیم ہو گئے مگر کشمیریوں کا جذبہ آزادی ماند نہیں پڑا۔ بھارت کے حکمران دھونس اور جبر سے تحریکِ آزادی کو مٹانے کے درپے ہیں مگر اس کے باوجود آج بھی تحریک آزادیٔ کشمیر پوری آب و تاب کیساتھ جاری و ساری ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں میں اس مسئلے کا حل موجود ہے۔ خود بھارت اس مسئلے کو یو این میں لے کر گیا تھا لیکن پھر اس پر عمل کرنے کے بجائے اس نے پہلو تہی برتنا شروع کر دی جسکے بعد کشمیر میں مزاحمتی تحریکوں کا سلسلہ تیز ہوااوربھارتی فوج کی نیندیں حرام ہو گئیں۔سید علی گیلانی‘ یٰسین ملک‘ پروفیسر عبدالغنی بھٹ‘ مولوی عباس انصاری‘ اشرف صحرائی سمیت سینکڑوں حریت رہنمائوں نے کشمیریوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی‘قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنی جانیں تک کشمیر کے نام کر دیں۔ اشرف صحرائی 77 سال کی عمر میں مئی 2021ء میں دورانِ حراست انتقال کرگئے۔ گزشتہ برس مئی2020ء میں ان کے صاحبزادے جنید صحرائی نے آزادی کے سفر میں جامِ شہادت نوش کیا تھا۔ ابھی اشرف صحرائی جواں سال بیٹے کی موت کا غم بھی نہ بھول پائے تھے کہ جولائی2020ء میں انہیںکالے قانون‘ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ اشرف صحرائی کی وفات کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ طبیعت کی ناسازی کے باوجودنہ صرف انہیں جیل میں قید کیا گیا بلکہ علاج معالجے کی مناسب سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ نوجوان برہان مظفر وانی کو کون بھول سکتا ہے کہ جو پانچ سال قبل کشمیریوں کے جذبے کو ایک نئی تحریک اور خون دے گیا۔
آج بھارت اپنی ساری سازشوں اور مکاریوں کے باوجود ان تحاریک اور قربانیوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔کشمیریوں کے مسلسل صبر اور ہمت کا جواب بھارت آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے جیسے غیر قانونی اقدامات کے ذریعے دینے لگا ہے۔ کشمیریوں کو محصور کرنے کا سلسلہ تو ایک عرصے سے جاری ہے ہی اب باہر سے غیر کشمیریوں کو اس علاقے میں بسا کر ایک گھنائونا کھیل شروع کر دیا گیا ہے۔آرٹیکل 35اے کے خاتمے کے ذریعے نریندر مودی کی خواہش ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت‘ اختیارات اور مراعات ختم کر کے اس کو وہی درجہ دیا جائے جو بھارت کی باقی ریاستوں کو حاصل ہے۔ یہ اتنا آسان کام نہیں! کشمیریوں کے یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ کبھی بھی جبر پر مبنی فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ آج سے ٹھیک نوے سال قبل جس تحریک کا آغاز کشمیری نوجوانوں نے حق کا پرچم بلند کرتے ہوئے کیا تھا‘ اس تحریک میں آج لاکھوں کشمیری شہدا کا خون شامل ہو چکا ہے اور یہ پہلے سے زیادہ تیز تر اور اپنے منطقی انجام کے قریب ہے۔ کشمیریوں کو ان کا حق دیے بغیر اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔ حل وہی قابل قبول ہو گا جس پر کشمیری عوام کی مہر ثبت ہو گی۔اس ولولہ انگیز تحریک میں پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ بھارت اپنی نو لاکھ سے زیادہ فوج کو کشمیر میں تعینات کر کے بھی ناکام ہے جبکہ کشمیری نوجوان نہتے ہو کر بھی کامیاب ہیں کیونکہ وہ حق پر ہیں جبکہ بھارت کی ساری کارروائیاں غیر انسانی‘غیر اخلاقی اور غیر قانونی شمار کی جاتی ہیں۔ بھارت کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر اُس وقت ڈوگرہ حکومت اپنے تمام تر مظالم کے باوجود ناکام رہی تھی‘ اگر 13جولائی 1931ء کو درجنوں شہادتوں کے باوجود بھی کشمیری عوام ڈرے اور جھکے نہیں تھے تو آج بھی نریندر مودی اور اس کی فوج کے مظالم‘ لاک ڈائون‘ٹارچر اور انسانی حقوق کی دیگر پامالیوں کے باوجود بھی کشمیری عوام کو جھکایا نہیں جا سکتا۔ کشمیری نوے سال قبل بھی باطل کے خلاف اذانیں دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے اور آج نوے سال بعد بھی حق کا علم اٹھائے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں لیکن اپنے مقصد اور مشن سے ہٹنے کو تیار نہیں اور کشمیریوں کا یہی جذبہ ایک دن کشمیر کی آزادی کی وجہ بنے گا، ان شاء اللہ!