جس طرح کورونا لاک ڈائون کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کیلئے پابندیوں میں مزید اضافہ کر دیا تھا قبل ازیں اسی طرح نائن الیون کے بعد بھی کشمیریوں کو دہرے مظالم کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بھارت نے اس موقع کا فائدہ اٹھا کر کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشتگردی کا رنگ دینے کی بھی کوشش کی اور اسے کشمیری مسلمانوں پر ستم ڈھانے کا ایک اور موقع مل گیا تھا۔ کشمیری مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد کو دہشتگردی سے تعبیر کرنے کیلئے جھوٹا اور منفی پروپیگنڈا کیا جانے لگا تاکہ اقوام عالم کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان میں کشمیر کے حوالے سے پیدا ہونے والی ہمدردی کو ختم کیا جا سکے۔ آج مگر وقت نائن الیون سے بہت آگے نکل چکا ہے۔ آج نائن الیون کے نام پر افغانستان کو ریت کا ڈھیر بنا کر اور ہزاروں لاکھوں خاندانوں کا مستقبل برباد کرنے کے بعد امریکہ وہاں سے اپنی اتحادی فوجوں سمیت نکل چکا ہے۔ بالکل اسی طرح ایک نہ ایک روز کشمیر سے بھی بھارتی فوج کو نکلنا پڑے گا۔ آج دنیا کو علم ہو چکا ہے کہ کشمیر کی آزادی کے حصول کی جدوجہد کا دہشتگردی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ کشمیری عوام تو ایک عرصے سے اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
خود بھارت کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بھارت نادم ہے نہ اسے اس جرم کا کوئی احساس ہورہا ہے۔ یہ کشمیر میں تو جو کچھ کر رہا ہے‘ اپنے ہی ملک میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی بھی ناکام کوششیں کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے عوام اور اپنی ریاستوں میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کررہا ہے۔ بھارتی ریاستوں اڑیسہ‘ مدھیہ پردیش‘ گجرات اور ہماچل پردیش میں مذہبی بنیادوں پر اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا نہ صرف استحصال کیا جاتا ہے بلکہ مختلف مواقع پر انسانیت سوز تشدد کے ذریعے انسانی حقوق کے ضابطوں کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں۔ مذہبی آزادی کے موضوع پر پیش کی گئی اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹ میں بھی واشگاف الفاظ میں بتایا گیا کہ بھارت میں اقلیتوں کیلئے زمین تنگ کر دی گئی ہے اور مذہبی اقلیتوں پر تشدد روا رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں بھارت کشمیر میں ہونے والے مظالم کا مزید بوجھ اپنے کندھے پر ڈال چکا ہے۔ آئے روز کشمیری نوجوانوں کو غیرقانونی طور پر پابند سلاسل اور کشمیری قیادت کو نظر بند کردیا جاتاہے۔ پابندیاں اور غیرقانونی اقدامات کا تسلسل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بھارت کی جانب سے کالے قوانین کے نفاذ میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ عالمی اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارتی اقدامات سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ دو سال میں ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ اس سے قبل چین نے بھی کشمیر پر واضح موقف اختیار کرتے ہوئے واضح طور پر بھارت کے پانچ اگست کے اقدامات کو مسترد کیا اور واضح کیا کہ مشرقی لداخ میں وہ بھارت کے موقف کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسی طرح چین نے سی پیک پر اٹھنے والے شکوک و شبہات کو بھی مشترکہ اعلامیہ میں مسترد کر دیا تھا۔ کشمیر سے متعلق بھارتی بیانیے کو اب دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ گزشتہ دنوں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بھارت ایک نئی مشکل سے دوچار ہو چکا ہے۔ اس پر بھی چین نے بھارت کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے وارننگ دی ہے کیونکہ افغانستان میں حالات کی خرابی کا بڑا ذمہ دار بھارت بھی ہے اور یہ افغان سرزمین کو پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک پر حملوں کیلئے بھی استعمال کرتا رہا ہے۔ کشمیر میں بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے یکسر منافی اقدامات کئے جن کی حقیقت آشکار ہو چکی ہے۔ بھارت کو مسلسل ناکامی کا سامنا اس لئے کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبات اور ان کی آرا کے مسلسل خلاف چل رہا ہے۔ جب تک کشمیری اس عزم کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں بھارت ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ بات دنیا کو سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیر کا تنازع حل کئے بغیر خطے امن قائم نہیں ہو سکتا۔
ایک طرف بھارت سیکولر ریاست کہلاتا ہے تو دوسری جانب ہر اس آواز کو دبا دیتا ہے جو اس کے مظالم کا پردہ چاک کرتی ہے۔ میڈیا ہو یا انسانی حقوق کے عالمی ادارے‘ کسی کو بھی مقبوضہ کشمیر میں کھل کر کوریج کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ دنیا بھر سے آنے والے وفود کو وادی میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ جو حقائق موبائل فون سے مقامی طور پر سامنے آتے ہیں ان میں بھارتی پابندیوں کا چہرہ صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ کشمیر میں مساجد کئی کئی ہفتے بند رہتی ہیں حتیٰ کہ عید کی نمازوں کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔مذہب پر بات کرنے پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اور آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو تو فوراً دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا جاتا ہے۔ بھارت کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر بھی بدتر ین مظالم ڈھا رہا اور ان کی نسل کشی جیسے جرائم کر رہا ہے ۔ آج کشمیر اور بھارت کے اندر انسانی حقوق کی جتنی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں یہ بھی بدتر ین دہشت گردی ہے ۔جب کچھ نہ بن پڑے تو بھارت اپنے داخلی انتشار سے توجہ ہٹانے کیلئے ایل او سی کی مسلسل خلاف ورزیاں کرتے ہوئے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا تا ہے ۔ تاہم پاکستان ان اوچھے ہتھکنڈوںکو خوب جان چکا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بھارتی ریاست کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں آر ایس ایس کے گماشتوں کو مدد فراہم کررہی ہے ۔ اس حوالے سے دنیا کو چاہیے کہ وہ نہ صرف بھارت کو لگام ڈالے بلکہ کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو بندکروانے کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور خطے میں امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کر وانے کیلئے بھی اپنا کردار ادا کر ے کیونکہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا خطے میں امن ممکن نہیں ہوسکتا اور یہاں سے بھڑکنے والی آگے دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
اس بات کو وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی سفرا نے بہت سے مواقع پر اٹھایا ہے اور پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی کھل کر اس امر کا اظہار کر چکی ہیں کہ بھارت نے غیر قانونی اور غیر منصفانہ طور پر مسلم اکثریتی ریاست مقبوضہ جموں وکشمیر کی خود مختار حیثیت کو ختم کیا ہے اور پاکستان کشمیر سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 350اور 35اے کے خاتمے کے غیر قانونی اقدام کو مسترد کرتا ہے۔کشمیر کا تنازع گزشتہ سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے لیکن بھارت ٹس سے مس نہیں ہو رہا ۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں حال ہی میں تسلیم کیا گیا کہ یہ ایک بین الاقوامی تنازع ہے اور اس کو پرامن طریقے سے طے کیا جانا چاہیے ۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بڑی وجہ بھی ہے۔ بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کر دے تو یہ تنازعات ختم ہو سکتے ہیں۔ بھارت ہر وقت وہم کی سی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے۔ کوئی کبوتر سرحد پار کر جائے یا کشمیر میں کوئی گیس سلنڈر پھٹ جائے بھارت اس کا الزام پاکستان پر لگانے کیلئے تیار رہتا ہے۔ پاکستان یہ بات ہر فورم پر کہہ چکا ہے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر پر قبضہ کررکھا ہے۔ ان قراردادوں میں کشمیریوں کوان کا پیدائشی حق خودارادیت تفویض کیا گیا ہے تاکہ وہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ آج مقبوضہ وادی میں جو کچھ ہورہا ہے ‘ وہ دنیا کے سامنے ہے ۔ کشمیر میں میڈیا بلیک آؤٹ تو جاری ہی ہے لیکن وادی کے لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتے۔ کئی رشتہ دار کئی کئی مہینوں سے ایک دوسرے سے ملنے سے محروم ہیں۔ والدین بچوں سے دور ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو علاج کی خاطر ہسپتال تک جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ خواتین کی عصمت ریزی کو خوف کی فضا اور دبائو بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے‘تاہم تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ظلم اور جبر کو ایک نہ ایک دن جھکنا ہی پڑتا ہے‘ ظلم کی رات کتنی ہی طویل ہو بالآخر اُجالا ہو کر رہتا ہے۔