آپ کاروبارمیں کامیابی اور ترقی چاہتے ہیں یا کسی ادارے میں نوکری کرتے ہوئے بہترین مقام اور اعلیٰ عہدے کے خواہش مند ہیں‘ اس کیلئے آپ کو جو سب سے اہم چیز چاہیے وہ متحرک اور صحتمند دماغ ہے کیونکہ جب تک آپ کے ذہن کا ایک ایک حصہ ٹھیک طرح سے کام نہیں کرے گا‘ جب تک آپ منتشر خیالات کے ہجوم سے باہر نہیں نکلیں گے اور دماغ کو کام پر فوکس نہیں کریں گے‘ آپ نہ کاروبار کو اُٹھا پائیں گے نہ ہی نوکری میں کوئی بہتر جگہ بنا سکیں گے‘ اور کامیابی تو دور کی بات ایک نارمل زندگی بھی نہیں جی پائیں گے۔ امریکی مصنفہ ایمی مورن نے ذہنی توانا افراد کے بارے میں خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔ اس کا ماننا ہے کہ ذہنی طو رپر طاقتور ہونے کی کوشش کرنا اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ جسمانی طور پر طاقتور ہونا۔ ایمی مورن کی کتاب ''وہ تیرہ کام جو ذہنی طور پر مضبوط افراد کبھی نہیں کرتے‘‘ میں تفصیل سے وہ غلطیاں بیان کی گئی ہیں جن سے ذہنی طور پر توانا اور کامیاب افراد پرہیز کرتے ہیں اور وہ تمام چیزیں بتائی گئی ہیں جن پر ان کا فوکس ہوتا ہے۔ عام طور پر لوگ جسم کو زیادہ سے زیادہ خوبصورت اور توانا بنانے کیلئے تو کاوشیں کرتے ہیں‘ورزشیں کرتے ہیں‘ ڈاکٹروں سے مشورے لیتے ہیں‘ مختلف قسم کی ادویات اور جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے وزن پر بھی نظر رکھتے ہیں لیکن اپنے سب سے اہم ہارڈویئر یعنی دماغ اور اس کے سافٹ ویئر یعنی صحت سے بالکل لاپروا ہو جاتے ہیں۔یہ لاپروائی بہت سے انسانی المیوں کو جنم دیتی ہے جنہیں ہم معاشرے میں روزانہ کسی نہ کسی شکل میں دیکھتے رہتے ہیں۔یہ جو انسان کی شکل میں بعض اوقات بھیڑئیے نظر آتے ہیں‘ سنگین اور شقی القلب وارداتیں کرتے ہیں اورغیر انسانی رویے اپنا کر ایسی ایسی داستانیں کھڑی کر دیتے ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو ان سب عوامل کے پیچھے بھی بیمار ذہن اور منتشر خیالات ہی چھپے ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اگر کامیاب افراد پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو ان میں ایسی عادات ملیں گی‘ ذہنی بیمار افراد جن پر عمل کرنا گوارا نہیں کرتے۔
ذہنی توانا افراد کی پہلی اور اہم ترین خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ وقت‘ حالات اور دوسرے لوگوں کو اپنی ناکامی یا کمزوری کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے۔ یہ گلہ نہیں کرتے کہ فلاں شخص نے میرا ساتھ ایسا رویہ نہ رکھا ہوتا یا مجھے دھوکہ نہ دیا ہوتا تو آج میرے حالات اتنے بدتر نہ ہوتے۔ہمارے معاشرے میں تو بالخصوص یہ عادت مضبوط جڑوں کے ساتھ موجود ہے کہ ہم حکومت‘ معاشرے‘ اداروں عزیزرشتہ داروں اور دو ستوں کو بات بات پر الزام دینا شروع کر دیتے ہیں۔ کچھ تو مسلسل امریکہ کو کوستے رہتے ہیں کہ وہ اگر ایسا نہ کرتا تو ویسا نہ ہوتا اور پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیا امریکہ صرف پاکستان کے ساتھ ہی چھیڑ خانیاں کرتا ہے۔ وہ تو پوری دنیا کے ساتھ ایسا کرتا ہے اس کے باوجود سنگاپور‘ملائیشیا‘ دبئی جیسے درجنوں ممالک انتہائی قلیل رقبے کے ہوتے ہوئے بھی معاشی طور پر کئی گنا مضبوط ہو گئے؛ چنانچہ ذہنی توانا افراد بلیم گیم میں نہیں پڑتے‘ یہ حالات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالتے ہیں اور انہیں ٹھیک کرنے میں لگ جاتے ہیں نہ کہ دوسروں کو الزام دینے میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ دھیرے دھیرے اپنے آپ کو اس بھنور سے نکال لیتے ہیں جس میں پھنس کر بہت سے لوگ اپنی زندگیاں ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس بھی کرتے ہیں اور پورا بھی اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ مشکلات کا نام ہے اور مشکلات سے لڑنے والا ہی آگے نکلتا ہے نہ کہ دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے والا۔ان کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ خود پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ یہ دوسروں کے کہنے پر نہیں چلتے۔ آسانی سے دوسروں کی باتوں میں نہیں آتے اور ہر راہ چلتے کا مشورہ سن کر اپنی سمت تبدیل نہیں کر لیتے بلکہ اپنی مرضی اور اپنے ارادوں کے مالک ہوتے ہیں اور بے پر کی ایک کان سے سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ یہ انہیں دماغ تک پہنچنے ہی نہیں دیتے اور یوں اپنی منزل کے قریب تر ہوتے جاتے ہیں۔دماغی طور پر فعال افراد کی تیسری اہم خصوصیت تبدیلی کو قبول کرنا ہے۔ یہ لوگ ایک جگہ‘ ایک نوکری‘ ایک مکان‘ ایک محلے‘ ایک دوست‘ ایک لائف سٹائل اور ایک ہی ٹیکنالوجی کے ساتھ چپک کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ ہر اس تبدیلی کو اپنانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں جو ان کی ذات کو مزید پرکشش‘جاذب نظر اور اہم بنائے۔ ایک مرتبہ میں نے ایک شخص سے پوچھا: کیا یہ غلط ہے کہ تمہارے پاس آگے بڑھنے کے کئی مواقع آئے اور تم صرف اس وجہ سے ترقی نہیں کر سکے کیونکہ تم اپنا پرانا اور آبائی محلہ اور گھر چھوڑنے کو تیار نہ تھے؟ وہ شخص بولا: یہ بات درست ہے کہ یہاں سے جانے والے تمام افراد ترقی کر گئے کیونکہ یہ محلہ کچھ بدقماش لوگوں کی وجہ سے رہنے لائق نہیں رہا لیکن یہ گھر میرے آبائو اجداد کا ہے‘ سات پیڑیاں یہاں چلی آ رہی ہیں میں کیسے اسے چھوڑ سکتا ہوں؛چنانچہ وہ شخص آج بھی وہیں رہتا ہے ‘ وہ اور اس کی اولادیں آج بھی وہیں رُل رہی ہیں لیکن وہ سات پیڑیاں چھوڑنے اور تبدیلی کیلئے تیار نہیں۔چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایسے کاموں اور خیالات پر وقت ضائع کرتے ہیں نہ خود کو پریشان رکھتے ہیں جن پر ان کا کنٹرول نہیں۔ جیسا کہ موسم‘ قدرت آفات‘بیماری اور موت وغیرہ۔ وہ صرف ان کاموں پر اپنی جسمانی ‘ ذہنی توانائی اور وقت خرچ کرتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ان کی پانچویں خصوصیت ہر کسی کو خوش رکھنے کی کوشش سے بچنا ہے۔ یہ اپنے کام پر فوکس رکھتے ہیں چاہے کوئی جتنی مرضی تنقید کرتا رہے کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ دنیا میں ہر وقت ہر کسی کو خوش نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ کیلکولیٹڈ رسک لینے کیلئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ جانتے ہیں کہ خطرہ مول لئے بغیر یہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکتے اور کوئی نیا کام ‘کوئی نیا قدم اور کوئی مختلف انداز ہی انہیں دوسروں سے ممتاز کر سکتا ہے۔اس کی ساتویں اہم بات یہ ہے کہ ماضی کی دلدل میں یہ لوگ نہیں دھنسے رہتے بلکہ ماضی کوصرف غلطیوں کی نشاندہی تک یاد رکھتے ہیں اور اس کے ذریعے مستقبل کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں۔آٹھویں بات‘ذہنی پختگی رکھنے والے یہ لوگ غلطی کو دہرانے سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں اور یوں دوسروں کی نسبت بہتر فیصلہ سازی کر لیتے ہیں۔نویں بات‘ یہ دوسروں کی کامیابیوں پر حسد کا شکار نہیں ہوتے‘جلتے کڑھتے نہیں بلکہ انہیں کھل کر مبارکباد دیتے ہیں اوران کی تعریف کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیتے۔دسویں بات‘یہ لوگ پہلی مرتبہ ناکام ہونے پر دل نہیں ہارتے بلکہ کامیابی کے حصول تک کوشش جاری رکھتے ہیں ۔گیارہویں بات‘ یہ لوگ خوش رہنے کیلئے دوسروں کی کمپنی کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اکیلے بھی اچھا وقت گزار سکتے ہیں۔ یہ کتابیں پڑھتے ہیں اور اپنا وقت بہتر گزارنے کے ساتھ اپنے علم میں بھی اضافہ کر لیتے ہیں۔بارہویں بات‘ یہ لوگ یہ گلہ نہیں کرتے رہتے کہ اس دنیا نے انہیں وہ عزت اور مقام نہیں دیا جوانہیں دیا جانا چاہیے بلکہ یہ دنیا کو ایک چانس اور ایک میچ کے طور پر لیتے ہیں کہ جو اس میں بہتر کھیل گیا‘ ستائش کا حق دار بھی وہی ٹھہرے گا۔ تیرہویں اور آخری بات‘ ذہنی توانا لوگ چیزوں کے فوری نتائج کے انتظار میں نہیں رہتے ۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر کام کی تکمیل کیلئے مخصوص وقت درکار ہوتا ہے۔ اس لئے بے چینی کا شکار ہونے کی بجائے یہ کام کی تکمیل کیلئے درکار لوازمات اور سکلز کو پورا کرنے پر غور کرتے ہیں تاکہ ناکامی کی وجوہات کو ساتھ ہی ساتھ دُور کر دیا جائے۔
ان ساری خصوصیات کو دیکھیں اور خود سے موازنہ کریں۔ اگر آپ میں یہ تمام یا چند خصوصیات موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دماغ کا بلب پوری طرح روشن نہیں ہے اور اس کے تمام خلیے ٹھیک سے اپنا کام نہیں کر رہے؛ چنانچہ اپنا جائزہ لیں اور ان عادات کو اپنائیں جنہیں پورا کرنے سے ایک شخص کامیاب اور جنہیں نظر انداز کر نے سے دوسرا شخص ناکام ٹھہرتا ہے۔