اس وقت افغانستان ٹاک آف دی ٹائون بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ امریکی انخلا ہے جس کے بعد افغانستان کی صورت حال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہی اور اس نے خطے کے ممالک کو نئی منصوبہ بندی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ افغانستان کی تزویراتی پوزیشن انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی طویل سرحد لگتی ہے اور طویل عرصے سے پاکستان افغان پناہ گزینوں کا معاشی بوجھ بھی برداشت کر رہا ہے۔ نائن الیون سے لے کر اب تک ان بیس برس میں افغانستان میں ہونے والی تباہی کے اثرات پاکستان کو بھی برداشت کرنا پڑے۔ بدقسمتی سے دہشتگرد تنظیموں نے بھارت کی مدد سے افغان سرزمین کو پاکستان پر حملوں کرنے کیلئے استعمال کیا۔ نائن الیون پر تو صرف تین ہزار امریکی شہری ہلاک ہوئے تھے لیکن اس کے جواب میں دہشتگردی کی جو جنگ شروع کی گئی اس میں ہمارے اسی ہزار کے قریب فوجی جوان اور عوام شہید ہوچکے ہیں۔ اربوں ڈالر کا نقصان الگ سے ہوا۔ اس کے باوجود پاکستان نے اس نازک صورتحال کا حوصلے اور دانشمندی سے مقابلہ کیا۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے قبل بھی کہا کرتے تھے کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس سے قبل روس بھی یہ سب کچھ کر چکا تھا اور دنیا دیکھ چکی تھی کہ کس طرح روس کو یہاں سے بھاگنا پڑا۔ بالآخر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہوتا ہے تو بہتر ہے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے ہی مسائل کا حل نکالا جائے۔ اس وقت جو صورتحال افغانستان میں پیدا ہو چکی ہے وہ صرف وہاں کے شہریوں کیلئے پریشان کن نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ وزیراعظم عمران خان گزشتہ دنوں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے تاجکستان گئے تو وہاں بھی انہوں نے افغانستان کے مسئلے کو دانشمندی سے حل کرنے پر زور دیا۔ بدقسمتی سے اب بھی کچھ بیرونی قوتیں ایسی ہیں جو افغانستان میں امن کو دوبارہ شورش اور بحران میں تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ وہ اب بھی طاقت کا استعمال چاہتی ہیں۔ درحقیقت افغانستان میں بھوک اور کمزور معیشت کا اتنا بڑا المیہ جنم لے چکا ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اگر دنیا نے آگے بڑھ کر اس ملک کا ہاتھ نہ تھاما تویہ علاقہ پھر سے دہشت کی وادی میں تبدیل ہو سکتا ہے اور یہ دیگر ممالک کا سکون بھی لے ڈوبے گا۔ عالمی برادری کیلئے افغانستان میں انسانی بحران سے بچنے میں مدد دینے کیلئے آگے بڑھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم عمران خان نے قازقستان‘ ایران‘ ازبکستان اور بیلاروس کے صدور سے ملاقاتوں میں بھی یہ نکتہ اٹھایا اور بالخصوص افغانستان کی سیاسی صورتحال کے حل پر زور دیا۔ وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی اہم ہیں اورپاکستان ان تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔ پاکستان ان ممالک کو سمندری تجارت کیلئے اپنی بندرگاہوں اور مختصر ترین روٹ فراہم کرسکتا ہے؛ تاہم ان کوششوں کی کامیابی کیلئے افغان امن انتہائی ضروری ہے۔
امریکہ افغانستان کی اس بگڑتی صورتحال کا ذمہ دار ہے اور بظاہر پشیمان بھی‘ لیکن اس حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ افغانستان سے انخلا امریکہ کی مجبوری بنا تو اس کیلئے اسے پاکستان کی معاونت ہی کی ضرورت پیش آئی؛ چنانچہ آج افغانستان میں امن کی بحالی کی استوار ہوتی فضا کیلئے پاکستان کے کردار کی پوری دنیا معترف ہے۔ اس وقت افغانستان کے امن و استحکام پر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا دارومدار ہے‘ جس کیلئے افغانستان میں مستحکم حکومت ضروری ہے۔ اسی لئے پاکستان سفارتی ذرائع بروئے کار لاکر طالبان حکومت کے ساتھ عالمی برادری کے تعاون کی کوششیں بھی کررہا ہے۔ افغانستان میں امن کا براہ راست فائدہ سی پیک کے آپریشنل ہونے کی صورت میں ہوگا جبکہ سی پیک کے ذریعے ہی خطے کے دوسرے ممالک کیلئے بھی عالمی منڈیوں تک رسائی کے راستے کھلیں گے؛ چنانچہ افغانستان میں امن کی بحالی اور سی پیک نے خطے کے ممالک کو پاکستان کی اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے اس کے ساتھ تعاون کے نئے رشتوں میں باندھ دیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں متعلقہ ممالک کے رہنمائوں کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقاتوں کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر افغانستان کے امن سے جڑی نئی صورتحال میں سی پیک کی بنیاد پر وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ ہمارے تعلقات کو وسعت ملتی ہے تو اس سے لامحالہ پاکستان کی چین کے ساتھ دوستی مزید مضبوط اور مستحکم ہوگی۔
جہاں تک افغانستان میں حکومت کے قیام کا تعلق ہے تو وزیرِ اعظم نے اپنے دورے میں واضح کیاکہ طالبان نے افغانستان میں ایک جامع سیاسی نظام اور تمام نسلی گروپوں پر مشتمل نمائندہ حکومت کے قیام کا وعدہ کیا تھا‘ جو انہیں پورا کرنا چاہیے کیونکہ یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذہین نشین رہے کہ افغانستان میں کوئی باقاعدہ حکومتی نظام نہ ہونے کے باعث شرپسند قوتوں کیلئے یہ ہمیشہ سے پسندیدہ ملک رہا ہے۔ اس لئے جو بھی افغان حکومت بنے وہ اس بات کا خیال رکھے کہ افغانستان پھر کبھی بھی دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بنے۔ اب اس بات کو یقینی بنانے میں عالمی برادری کی دلچسپی ہونی چاہیے کہ افغانستان میں دوبارہ لڑائی نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔ وزیراعظم نے اس بات کو بھی دہرایا کہ غیر جنگ زدہ ملکوں میں پاکستان سے زیادہ کوئی بھی اس دہشتگردی سے متاثر نہیں ہوا۔ اس کی وجہ سے 80 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 150 ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اس بات پر اتفاق تھاکہ افغانستان میں جنگ کے بعد اس ملک کی اقتصادی و اجتماعی صورتحال میں اصلاح کی ذمہ داری لی جانی چاہیے اور اسے فوری اقتصادی و انسانی امداد پیش کی جائے۔ اجلاس میں شریک ملکوں نے افغانستان کی سرزمین سے سر اٹھانے والے سکیورٹی چیلنجوں کے پیشِ نظر خطروں سے نمٹنے بالخصوص دہشتگردی اور منشیات کے سمگلنگ روکنے کیلئے کوششوں کو ہم آہنگ کرنے پر بھی اتفاق کیا تاکہ خطے میں پائیداری آئے، ہمسایہ ملکوں کی تشویش دور ہو۔ افغانستان کی سماجی‘ اقتصادی و انسانی صورتحال نیز خطے میں پناہ گزینوں کے ممکنہ ہجوم کے خطرات بھی تشویشناک ہیں جن کے تدارک کیلئے دنیا کو میدان عمل میں آنا چاہیے۔
اس وقت پاکستان اور چین سی پیک پر کام کر رہے ہیں۔ مستقبل میں یہ منصوبہ علاقے کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا اور اگر افغانستان میں حالات معمول پر آ جاتے ہیں تو سی پیک کا روٹ افغانستان سے ہوتا ہوا وسطی ایشیا کی ریاستوں تک پھیل جائے گا اور پھر اس کی افادیت سینکڑوں گنا بڑھ جائے گی۔ وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کو پاکستان گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کی سہولتیں فراہم کرے گا اور افغانستان سی پیک کی راہداری کے کام آئے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم نے بھارت کو علاقے میں الگ تھلگ کر دیا ہے اور بھارت تنہا نظر آتا ہے۔ بھارت کے پاس سارک کا ایک پلیٹ فارم تھا جس میں اسے علاقائی برتری حاصل تھی لیکن بھارت نے سارک کو اہمیت نہیں دی جس کی وجہ سے شنگھائی تعاون تنظیم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ دوسری جانب پاکستان نے کبھی بھی بھارت کی طرح حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ ناموافق حالات کو بہتر بنانے کیلئے کردار ادا کیا۔ بھارت کی پوری کوشش ہو گی کہ وہ افغانستان میں دوبارہ فتنے پھیلائے تاکہ خطے کا امن خراب ہو اور ساتھ ہی سی پیک کو بھی آگے بڑھنے سے روکا جائے تاہم جس طرح پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں خطے کی نمائندگی کی ہے اور جس طرح افغانستان کے مسئلے کو اٹھایا ہے‘ بھارت کو اس معاملے میں منہ کی کھانا پڑی ہے اور آئندہ بھی کھاتا رہے گا۔