یوں تو اقوام متحدہ میں بیٹھا ہر بھارتی کشمیر اور پاکستان کے حوالے سے بھارتی زبان بولتا ہے لیکن سنیہا دوبے‘ جو اقوام متحدہ میں بھارت کی فرسٹ سیکرٹری کے طور پر کام کرتی ہے‘ نے پاکستان پر وہ الزامات عائد کیے ہیں جن کے حوالے سے خود بھارت کا شمار بدنام ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ بھارت میں موجود سکھ‘ مسیحی‘ دلت‘ پارسی اور جین مت کے ماننے والوں سمیت دیگر اقلیتیں بنیادی حقوق تو دُور کی بات انسانی حقوق سے ہی محروم ہیں۔ شاید بھارت میں جانوروں کی حالت اقلیتوں سے بہتر ہو۔ گزشتہ سال بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کے حوالے سے پے درپے واقعات سامنے آئے۔ بھارت کی تقریباً اسی فیصد آبادی ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان بھارت کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جن کی آبادی کل آبادی کا 14.2 فیصد ہے، 2.3 فیصد مسیحی، 1.7 فیصد سکھ‘ 0.7 فیصد بودھ، 0.4 فیصد جین اور 0.07 فیصد یہودی، پارسی اور دیگر قبائلی مذہبی اقلیتوں پر مشتمل ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی تعداد پچیس کروڑ سے زائد ہیں لیکن ہر شعبے اور ہر سطح پر ان کے ساتھ دوسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے۔ بھارتی اداکار شاہ رخ خان کے بیٹے کی گرفتاری کا معاملہ ہی دیکھ لیں‘ جس طرح اس معاملے کو پیش کیا جا رہا ہے‘ بھارتی چینلز اور ان کے رپورٹرز کا بغض اُچھل اچھل کر باہر آ رہا ہے۔ وہی افراد جو شاہ رخ کی فلموں کی چرچا کرتے نہیں تھکتے تھے‘ اب اس پر ہر زاویے سے اوچھے ترین حملے کر رہے ہیں۔ یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ آریان خان کو بڑی عیاری سے اُس مافیا نے اپنے جال میں پھنسایا ہے جو بھارت میں مسلم کش فسادات اور انتہا پسندی کیلئے معروف ہے۔ بھارتی میڈیا کا معیار یہ ہے کہ رپورٹر شاہ رخ کے گھر ''منت‘‘ کے سامنے گرے شاپنگ بیگ پر بھی یہ کہتے ہوئے اداکارکے لتے لینے لگے کہ دیکھیں یہ اتنا بڑا ''مسلمان‘‘ اداکار ہے لیکن اپنے گھر کے باہر سے کچرا نہیں ہٹوا سکا۔
بھارتی میڈیا کی یکطرفہ صحافت اس وقت اپنے خاص عروج پر ہوتی ہے جب معاملہ پاکستان‘ کسی مسلمان یا کشمیر سے متعلق ہو۔ اب ذرابھارتی سیکرٹری کے الفاظ پڑھیں اور غور کریں کیسے ڈھٹائی سے پاکستان پر وہ الزامات لگائے جا رہے ہیں جن جرائم کیلئے بھارت دنیا بھر میں بدنام ہے اور ظاہر ہے کہ ان کا مقصد محض کشمیرمیں بھارت کی انسانیت سوز سرگرمیوں سے عالمی توجہ ہٹانا ہے۔سنیہا دُوبے کہتی ہے ''پاکستان میں اقلیتیں خوف کے ماحول میں رہتی ہیں اور ریاستی سرپرستی میں ان کے حقوق کو دبایا جاتا ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کبھی کسی اکا دُکا واقعے میں کوئی کسی اقلیت یا کسی چرچ‘ مندر کو نقصان پہنچاتا ہے تو یہاں کی حکومت‘ انتظامیہ اور عدالتیں فوری حرکت میں آتی ہیں اور اقلیتوں کو تحفظ دلانے کیلئے سخت ایکشن لیا جاتا ہے جیسا کہ اس سال رحیم یار خان میں ہوا۔ مندر پر حملہ کرنے پر چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس گلزار احمد نے فوری از خود نوٹس لیا جبکہ اس سے قبل خیبرپختونخوا پولیس نے مندر پر حملہ کرنے والے چوبیس افراد کو موقع پر ہی گرفتار کر لیا تھا۔ یہی واقعہ بھارت میں ہوا ہوتا تو کیا ہوتا؟ جب بھی ایسے واقعات رونما ہوئے بھارت کی پولیس‘ سرکاری اداروں اور عدالتوں‘ سبھی نے مسلمانوں کے خلاف فیصلے دیے۔ مسجدوں کو نقصان پہنچانا ہو یا مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کا موردِ الزام ٹھہرانا ہو‘ بھارتی پولیس ہمیشہ ایسے واقعات میں حملہ آوروں کی پشت پناہی کرتی بلکہ انہیں حفاظت بھی فراہم کرتی نظر آتی ہے۔ پچاس سالہ محمد اخلاق کسے یاد نہیں‘ جسے نئی دہلی کے نواحی علاقے میں مار مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ پولیس کے اپنے بیان کے مطابق ایک سو کے قریب مشتعل ہندوؤں نے اخلاق کو اس کے گھر سے نکال کر اتنا مارا پیٹا کہ وہ ہلاک ہو گیا؛ تاہم پولیس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ان سب کا منہ کیوں دیکھتی رہی ‘ اس نے اخلاق کو بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی اور ان ایک سو قاتل جنونی افراد کو کیا سزا دلائی گئی۔پُر ہجوم تشدد اور نفرت پر مبنی جرم کے ایک اور واقعہ میں عصبیت کی انتہا ہو گئی جب آسام کے وشوناتھ چریالی قصبے میں مشتعل ہجوم نے 68 سالہ مسلمان شوکت علی کو گائے کا گوشت بیچنے کے شبہے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں ایک شخص کو ہجوم کے درمیان کیچڑ میں گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا گیا۔ وہ رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، اسی دوران اسے جبراً گوشت کا ایک ٹکڑا کھلایا گیا۔ مقامی پولیس نے بھی اس واقعے کی تصدیق کی کہ شوکت علی ایک کاروباری شخص ہے اور گزشتہ پینتیس برس سے اس علاقے میں ایک ہوٹل چلا رہا ہے۔
ایسے چند ایک نہیں بلکہ درجنوں‘ سینکڑوں واقعات بھارت کی سرزمین پر رونما ہو چکے ہیں لیکن اقوام متحدہ میں بیٹھی کسی بھارتی سیکرٹری کو یہ دکھائی دیتے ہیں نہ امریکا سمیت انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والے ممالک کو‘ جو ہزاروں گجراتی مسلمانوں کو زندہ جلانے والے اُس بھارتی وزیراعظم کو سر آنکھوں پر بٹھارہے ہیں جس پر کبھی امریکا میں داخلے کی پابندی عائد تھی۔کیا بھارتی اقلیتوں کے ساتھ پیش آمدہ واقعات کی ایسی خبریں وائٹ ہائوس یا پنٹا گون تک نہیں پہنچ پاتیں‘ کیا بھارت کے معاملے میں وہ ا س قدر بہرے اور اندھے ہو جاتے ہیں کہ انہیں انسانی حقو ق کی پاسداری کا خیال بھی نہیں آتا جن کی حفاظت کا نام لے کر امریکا نے درجنوں ادارے اور فنڈز قائم کر رکھے ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں کہاں لکھاہے کہ پاکستان کے کسی چھوٹے سے گائوں میں ایک چھوٹا سا واقعہ بھی ہو جائے تو اس پر صدرِ امریکا بیان جاری کرے گا، اقوام متحدہ بیان جاری کرے گی اور دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیمیں متحرک ہو جائیں گی لیکن اگر بھارتی سرزمین یا ریاست مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کی جارہی ہوں ‘چھوٹے چھوٹے بچوں کی آنکھوں کو پیلٹ گنوں کے چھروں سے چھلنی کر دیا جاتا ہو‘ بھارتی فوج کی جانب سے خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہو تو صدرِ امریکا تو دُور کی بات‘ اقوام متحدہ کے کسی اجلاس میں بھی ایسی زیادتیوں کا کہیں دور دور تک کوئی تذکرہ نہ کیا جائے گا۔ بھلا ایسے حالات میں ایسے اداروں اور ایسے پلیٹ فارمز کی وقعت اور ان کے اعلامیوں پر کون اور کیونکر یقین کرے گا؟ کون ان بڑے بڑے ملکوں کی باتوں اور ان کے فرمودات پر کان دھرے گا۔ ایسے فورمز کی حیثیت اسی لیے نشستند و گفتند و برخاستند تک محدود ہو چکی ہے کیونکہ دنیا کو انسانی حقوق کو تحفظ دلانا تو دُور کی بات‘ یہ انہیں ٹھیک طرح سے اجاگر کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے ہیں۔
بھارت کی ہرزہ سرائیوں کا جواب دینا لازم ہے‘ اسی لئے پاکستان کی جانب سے وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ ہر اُس عالمی فورم پر اٹھایا ہے جہاں سے ان کی آواز اقتدار کے مؤثر ایوانوں تک پہنچ سکے۔ بھارت ففتھ جنریشن وار کا سہارا لے کر اپنے کیے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اس کا توڑ بھی ضروری ہے۔ پروپیگنڈے کی اس جنگ میں مگر جیت اُسی کی ہو گی جو حق اور سچ کے ساتھ کھڑا ہو گا کیونکہ جھوٹ کا پول بالآخر کھل کر رہتا ہے۔ بھارت کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے غیر قانونی قبضے میں موجود تمام علاقوں کو فوری طور پر خالی کرے‘ پاکستان کے اندرونی معاملات میں بے جا مداخلت کرنے اور انہیں اچھالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکے‘ اپنے ہاں موجود اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق فراہم کرے‘ مسلمان سمیت دیگر اقلیتوں پر بے جا پابندیوں کو ختم کرے‘ مقبوضہ کشمیر میں جارحیت کا سلسلہ فی الفور روکے اور پاکستان کے خلاف بے جا پروپیگنڈا سے باز رہے‘ وگرنہ اس پروپیگنڈے سے خود بھارت کی جگ ہنسائی میں اضافہ ہو گا اور اس جگ ہنسائی کو بڑھانے کی ذمہ دار سنیہا دوبے جیسی بھارت کی سیکرٹری ہوں گی جو اقوام متحدہ میں بیٹھ کربھارت کا منہ مزید کالا کرنے کے درپے ہیں۔