ایک طرف خبریں آ رہی تھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف سستی توانائی‘ صنعتی و اقتصادی تعاون اور کشمیر سمیت دیگر مسائل پر بات چیت اور دو طرفہ تعلقات میں بہتری لانے کیلئے ترکی (ترکیہ) کے دورے پر تھے‘ پاکستان اور ترکی نے مفاہمت کی مختلف یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان ہیں‘ جو ایسے ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے معیشت مزید ڈانواںڈول ہونے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ ملکی معیشت ڈوب رہی ہے دوسری طرف وہ ایسے اقدامات میں مصروف ہیں جن کی وجہ سے اس کشتی میں مزید سوراخ ہو رہے ہیں اور اس میں مزید پانی آنے کا خطرہ ہے۔
ملکی معیشت کیلئے فکر مندی ظاہر کرنے والے خان صاحب کو کوئی بتائے کہ کسی بھی ملک کی معیشت میں استحکام اس وقت آتا ہے جب ملک میں امن و امان ہو‘ سیاسی انتشار کم سے کم ہو اور اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں اس راستے پر چل رہی ہوں جو ملک کو ترقی اور استحکام کی طرف لے کر جاتا ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کی سمت بھی اگر مختلف ہو تو نتائج توقع اور امیدوں کے برعکس ہی ہوں گے۔اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت ختم ہو چکی ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ بات ہضم اور قبول کرنے کو تیار نہیں اور مسلسل دھرنوں اور جلسوں کے ذریعے حکومت اور اداروں پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جلد از جلد عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے ۔ وہ موجودہ حکومت کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے مطابق یہ حکومت کسی بیرونی مداخلت کے نتیجے میں اقتدار میں آ ئی ہے‘ اس لیے اسے فوری طور پر ختم ہو جانا چاہیے۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی جو کامیاب ہوئی اور یہ ایک آئینی راستہ تھا جس کے ذریعے کل کی اپوزیشن آج بر سرِ اقتدار آ چکی ہے۔ اب منظرنامہ یہ ہے کہ کل تک بلکہ دو ڈھائی ماہ قبل جب تحریک انصاف کی حکومت تھی‘ تو ان کے مطابق مہنگائی بھی زیادہ نہ تھی‘ ڈالر بھی مستحکم تھا‘معیشت بھی درست سمت میں رواں دواں تھی اور ملک بھی ترقی کر رہا تھا لیکن جیسے ہی ان کے ہاتھ سے حکومت نکلی ہے‘ انہیں مہنگائی بھی آسمان کو چھوتی دکھائی دے رہی ہے‘ ڈالر بھی اڑان بھر رہا ہے اور معیشت کی نائو بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے بلکہ اب تو انہیں ملک کا وجود ہی خطرے میں دکھائی دینے لگا ہے۔ جب تازہ تازہ اقتدار ہاتھ سے نکلتا ہے تب یہی ہوتا ہے‘ ایسے ہی خیالات ذہن میں آتے ہیں۔خاص طور پر جب انسان یہ سوچتا ہے کہ کل تک وہ ملک کی زمامِ کار تھامے ہوئے تھا اور سب فیصلے اس کی مرضی سے ہو رہے تھے‘ آج اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اچھے اور بیتے دنوں کی یاد سب کو آتی ہے اور ستاتی بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے انقلابی سیاستدانوں کو یہ ادراک بھی ہونا چاہیے کہ معیشت اپنے ہاتھ سے حکومت چلے جانے سے خراب نہیں ہوتی بلکہ اس کا تعلق ملکی حالات اور انتشار سے بھی ہوتا ہے۔
گزشتہ دو تین ماہ میں تحریک انصاف نے درجنوں جلسے کیے ہیں‘ سینکڑوں پریس کانفرنسیں کی گئیں‘ ہزاروں ٹویٹس کیے اور ایک نامکمل اور ادھورا لانگ مارچ بھی کیا تو سوال یہ ہے کہ کیا ان سارے ہنگاموں اور جلسوں کا معیشت‘ ڈالر‘سٹاک ایکسچینج اور مہنگائی پر کوئی اثر نہیں پڑا؟ کیا ڈالر اس لیے اس دوران بے قابو ہو گیا کہ اسے تحریک انصاف کے سربراہ کی حکومت جانے کا دُکھ تھا یا پھر اس کی کوئی اور وجوہات تھیں‘ جو ظاہر ہے کہ اس ''انقلابی‘‘تحریک کو دکھائی نہیں دے رہیں۔سادہ سی بات ہے کہ ایک سرمایہ کار ایسے ماحول میں کیوں سرمایہ کاری کرے گا جو عدم توازن کا شکار ہواور جہاں ہر دن بلکہ ہر گھنٹے صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہو۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن)‘ جس پر خان صاحب ہر طرح کے الزامات لگا چکے ہیں کی جانب سے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ دیکھا گیا۔ اس کے رہنمائوں پر سابق دور میں مقدمے بھی بنے‘نواز شریف سمیت ان کے خاندان کے درجنوں افراد‘ جن میں خواتین بھی شامل تھیں‘ کو نیب دفاتر‘ عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگانا پڑے لیکن وہ سب خاموشی سے پیش ہوتے رہے۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ پر منشیات کا کیس بنایاگیا جو تاحال ثابت نہیں کیا جا سکا۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کو بھی گرفتار کیا گیا، اسی طرح دیگر سیاستدانوں پر بھی مقدمات چلتے رہے لیکن تحریک انصاف کے ساتھ اگر ایسا کچھ ہوا تو دہائیاں دی جانے لگیں حالانکہ سیاست میں یہ سب کچھ چلتا رہتا ہے۔ اگر آپ دوسروں پر پتھر پھینکتے ہیں تو آپ کے آنگن میں بھی پتھر آ تے ہیں۔ آپ کسی پر ناجائز مقدمے بناتے ہیں تو کل کو آپ کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں شیریں مزاری صاحبہ کی گرفتاری پر یہی کچھ ہوا۔ اس طرح کا رویہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے ووٹروں اور سپورٹروں کو بھی مایوس کر رہا ہے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان ملک کا ہو رہا ہے۔ انہی بے وجہ کے دھرنوں‘ حکومت گرانے اور الیکشن کرانے کی دھمکیوں اور دھونس کی وجہ سے ڈالر اوپر جا رہا ہے اور مہنگائی کا گراف بھی۔ آج اگرتحریک انصاف یہ اعلان کر دیتی ہے کہ وہ اسمبلی میں واپس جا رہی ہے اور ملکی معیشت کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے‘ الیکشن اصلاحات اور دیگر آئینی معاملات میں حکومت کے ساتھ مل کر اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے تو چند دنوں بلکہ اس طرح کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی ڈالر‘ سٹاک مارکیٹ اور مہنگائی پر اس کے اثرات دکھائی دینے لگیں گے۔
پاکستان کو اس وقت اگر ضرورت ہے تو ایسے منصوبوں اور ایسے معاہدوں کی جن کی وجہ سے یہ کمزور معیشت کے بھنور اور گرداب سے باہر آ سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے ترکی کے دورے کے دوران ترک اور پاکستان حکومت کے مابین نالج شیئرنگ پروگرام کے فریم ورک پر بھی دستخط ہوئے‘ترک وزارتِ ٹرانسپورٹ وانفراسٹرکچر اور وزارتِ مواصلات پاکستان کے مابین ہائی وے انجینئرنگ سے متعلق مفاہمت کی یادداشت جبکہ ترکی کی وزارتِ ماحولیات شہری ترقی وموسمیاتی تبدیلی اور نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ دوسری جانب تحریک انصاف اپنی تحریک کو دوبارہ فعال کر کے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے درپے ہے۔ ترکی اور پاکستان میں بہت زیادہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ممالک اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ جون میں ترکی کا ایک تجارتی وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس میں ای کامرس، ٹورازم، تعلیم اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ جیسے بہت سے شعبوں میں تعاون کا امکان ہے ۔اسی طرح ترکی‘ جس نے پن بجلی کی پیداوار اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں خاصی ترقی کی ہے‘توانائی کے شعبے میں پاکستان کی معاونت کر سکتا ہے۔ ترک سرمایہ کاری کی صورت میں پاکستان کو معاشی ریلیف ملنے کا امکان ہے لیکن یہ سب تبھی ممکن ہو گا اور اس کے ثمرات سے فائدہ تبھی اٹھایا جا سکتا ہے جب تحریک انصاف جیسے سٹیک ہولڈرز مل بیٹھ کر اس ملک کا سوچیں ۔ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ جب آپ حکومت کریں تو آ پ کو سب کچھ اچھا دکھائی دے اور جب اقتدار کی کرسی چھن جائے تو آپ لٹھ لے کر وفاق اور اداروں پر چڑھ دوڑیں۔ اپوزیشن کرنے کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔ ذرا سوچیں اگر یہی کام پی ڈی ایم کی جماعتوں نے کیا ہوتا‘ اگر وہ بھی بات بے بات پر سڑکوں آتی رہتیں تو آپ ساڑھے تین برس کیسے حکومت کرتے؟ آج حالت یہ ہے کہ آپ جلسوں اور انٹرویوز میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس پر بعد میں صفائیاں دینا پڑتی ہیں اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ میرے بیان کو غلط اخذ کیا ۔ اگر آپ دوبارہ اقتدار چاہتے ہیں تو الیکشن کا انتظار کریں اور براہِ مہربانی اس وقت تک ملک میں انتشار اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ بند رکھیں تاکہ جس معیشت کی آپ کو اتنی فکر ہے‘اس کو بھی سکھ کا سانس نصیب ہو سکے۔