"ACH" (space) message & send to 7575

صحت سے زیادہ اہم کیا؟

ہر سال کے آخر میں نئے سال کے استقبال کی تیاریاں کی جاتی ہیں اور نئے سال کے پلان اور اہداف مقرر کیے جاتے ہیں لیکن جو سال گزر گیا‘ اس میں کیا کھویا اور کیا پایا‘ اس بارے میں جاننے کی زیادہ کوشش نہیں کی جاتی۔ دیکھا جائے تو سب سے زیادہ اہمیت جس چیز کو دی جانی چاہیے‘ وہ صحت ہے لیکن لوگ معیشت کے گھن چکر میں کولہو کے بیل کی طرح جتے رہتے ہیں اور اپنی صحت کی بہتری اور بڑھاپے کی رفتار کو کم کرنے کا بالکل بھی نہیں سوچتے۔ حالانکہ جان ہے تو جہان ہے۔ اس ضرب المثل سے ہم سب واقف ہیں لیکن صحت کے موتی کتنے انمول ہوتے ہیں‘ یہ تب معلوم ہوتا ہے جب کوئی بیماری ہمیں گھیرتی ہے۔ بیماری میں ہم ہر لمحہ بے قرار رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود تندرستی کو برقرار رکھنے کی جانب کم ہی متوجہ ہوتے ہیں۔
آج کل نفسانفسی کا دور ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کی مَت مار دی ہے۔ اچھی صحت کے لیے لائف سٹائل بہتر بنانا پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا نے ہر کسی کی روٹین برباد کر دی ہے۔ اس سے وہی بچا ہوا ہے جس کے پاس سمارٹ موبائل فون نہیں ہے یا جسے سمارٹ فون چلانا نہیں آتا۔ انسان کو کتنی معلومات درکار ہیں‘ اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ معلومات کا سیلاب انسان کے ذہن کو تہِ تیغ کر رہا ہے۔ نجانے ہم کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ بڑھاپا ناگزیر ہے۔ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں‘ بڑھاپا ہم پر آنا ضرور ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہم میں سے بعض بڑھاپے میں بھی اپنے آپ کو چاق و چوبند اور چست و توانا محسوس کریں۔ دوسرے لفظوں میں اسی کو جوانی بر قرار رکھنا کہا جاتا ہے۔ بڑھاپے سے متعلق عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ زندگی کی اُس کیفیت کا نام ہے جو انسان پر موت سے پہلے واقع ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہم زیادہ طویل عمر حاصل کر لیں تو بڑھاپا ہم پر اسی نسبت سے دیر میں آنا چاہیے۔ اوسط عمر دنیا کے مختلف ملکوں میں‘ وہاں کی آب و ہوا اور معیارِ زندگی کے اعتبار سے مختلف ہے۔ بعض یورپی ملکوں میں بہت زیادہ ہے اور بعض ایشیائی و افریقی ملکوں میں بہت کم۔ مثال کے طور پر یورپ کے خوشحال ملک سوئٹزر لینڈ میں ایک انسان کی اوسط عمر تراسی سال ہے جبکہ پاکستان جیسے ملک میں اوسط عمر چھیاسٹھ برس بتائی جاتی ہے مگر بڑے شہروں میں یہ ساٹھ سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں؛ مثلاً سموگ‘ موسمی اثرات‘ خوراک اور لائف سٹائل وغیرہ۔ اگر ہم باوقار طریقے سے ایک طویل مدت تک جوان رہنا چاہتے ہیں تو ہماری جسمانی صحت مناسب حد تک اچھی ہونی چاہیے۔ یہ یقینا ممکن ہے بشرطیکہ ہم اپنی صحت کی دیکھ بھال اور اس حوالے سے احتیاط کریں۔کہا جاتا ہے کہ انسان اپنی طبعی عمر کو 120 سال تک بڑھا سکتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر صحت و خوراک کا خیال رکھا جائے تو آج کل جو بڑھاپے کی عمر سمجھی جاتی ہے‘ اس عمر میں جسمانی حالت ایک عام یا اوسط بوڑھے سے بہتر ہو سکتی ہے۔ مختلف تدبیروں سے بڑھاپے کی روک تھام یعنی سست روی ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم یہ حقیقت تسلیم کر لیں کہ بچپن اور جوانی کی طرح بڑھاپا بھی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ہے۔ جس طرح بچپن اور جوانی کی زندگی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں‘ اسی طرح بڑھاپے کی زندگی کے بھی کچھ جداگانہ تقاضے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جوانی میں ہم شدید مشقت برداشت کر سکتے ہیں‘ بڑھاپے میں نہیں کر سکتے۔ زندگی کے اس مرحلے میں پہنچ کر اگر ہم نوجوانوں کی نقل کریں گے‘ تو اپنا ہی نقصان کریں گے اور نتائج ہماری خواہش کے برعکس ہی نکلیں گے۔ یہ صورت حال گویا ہمارے لیے ایک تنبیہ ہے کہ بڑھاپے میں وہ غذائیں نہ کھائیں جو جوانی میں کھاتے رہے ہیں۔ غذا کے علاوہ‘ محنت اور مشقت کتنی ہونی چاہیے‘ اس حوالے سے بھی ہمیں وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ محسوس کریں کہ جتنی جسمانی اور دماغی مشقت ہم جوانی میں کر لیا کرتے تھے‘ ‘ اتنی ہی بڑھاپے میں بھی کر سکتے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا! ہم غور کریں تو ہمیں صاف طور پر محسوس ہوگا کہ اُتنی بھاری مشقت بڑھاپے میں ہم زیادہ دیر تک نہیں کر سکتے، جتنی جوانی میں بہ آسانی کر لیا کرتے تھے۔ بڑھاپے میں لوگ سخت مشقت تو دور کی بات‘ معمولی سی مشقت سے بھی بہت جلدی تھک جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بھی ہمارے لیے ایک تنبیہ ہے، جو ہمیں اس بات سے خبردار کرتی ہے کہ زندگی کے اس مرحلے میں ہمیں اپنی استطاعت سے زیادہ مشقت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ زیادہ تواتر کے ساتھ سستانا اور جسم کو زیادہ آرام پہنچانا چاہیے۔
بڑھاپے میں جوانوں جیسی آن بان قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے لائف سٹائل کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کریں۔ بدلتے ہوئے حالات میں ہمارا جوش و خروش اور ہماری سرگرمیاں بھی بدلنی چاہئیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس بار ے میں اپنا سارا نقطۂ نظر یکسر بدل دینا پڑے۔ اس اصول کا اطلاق جہاں ہماری کھانے پینے اور محنت و مشقت کی عادات پر ہوتا ہے‘ وہاں ہماری ورزش اور سیر و تفریح کی روٹین پر بھی ہوتا ہے۔ بڑھاپے میں نوجوانوں کے کھیل کود‘ تفریحات اور مشاغل میں دلچسپی لینا سراسر بے وقوفی کی بات ہے۔ پیرانہ سالی میں زیادہ دیر تک محنت و مشقت سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا جائے اور اپنی بساط سے زیادہ محنت و مشقت کی جائے تو قبل از وقت بڑھاپے کی آمد لازمی ہے؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے گرد و پیش اور ماحول سے کوئی دلچسپی نہ رکھیں اور تمام عملی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ پیرانہ سالی میں بھی زندگی کی بہت سی چیزوں میں دلچسپی لینی چاہیے اور مختلف مصروفیات اور مشاغل سے تحریک حاصل کرنی چاہیے۔
اپنی سالگرہ پر عموماً لوگ کہا کرتے ہیں کہ زندگی کا ایک سال اور کم ہو گیا اور ہم ایک سال مزید بوڑھے ہو گئے ہیں؛ تاہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہماری زندگی کی قیمت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور زندگی کی حقیقی دولت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنے اندر ایسی خوبیوں کو بڑھاتے رہنا چاہیے، جو عمر کی پختگی کے ساتھ پختہ ہوتی چلی جائیں اور ان کی آب و تاب میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے کیونکہ بڑھاپے و ضعیفی میں ہر کام دشوار تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس عمر میں پختگی کچھ دانش مندانہ احتیاطوں کا تقاضا کرتی ہے۔ بوڑھے لوگوں کے ساتھ محبت کا برتائو رکھنا بھی چھوٹوں کے لیے ازحد ضروری ہے۔ وقت کے ساتھ یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے گھروں میں اہلِ خانہ بوڑھے افراد کے ساتھ کشمکش میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً نانا جان یا دادا جان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی شخص دروازے پر دستک دے رہا ہے، مگر یہ صرف ان کا وہم ہوتا ہے۔ اگر انہیں کہا جائے کہ یہ صرف آپ کا وہم ہے تو انہیں یقین نہیں آئے گا اور جب تک کوئی شخص دروازے تک جاکر لوٹ نہ آئے‘ وہ گھر میں کسی کو چین نہیں لینے دیں گے۔ بوڑھوں میں پچھلی باتوں کی دھندلی یادیں تو باقی رہ جاتی ہیں، لیکن نئی باتیں ان کے حافظے میں شامل نہیں ہو پاتیں؛ چنانچہ تمام گھر والوں کو یہ خیال کرنا چاہئے کہ یہ وہی ہستی ہے، جو ایک زمانے میں سارے گھر کا وقار اور عزت کی علامت تھی۔ یہ سارا خاندان‘ سارا گلشن انہی کا لگایا ہوا باغ ہے اور گھر کا ہر فردان کی شفقت و احسانات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ یہ تو قدرت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان کی خدمت کر کے سعادت سے بہرہ مند ہوں۔ بزرگوں کی خدمت کسی صورت عبادت سے کم نہیں ہے۔ والدین کی خدمت گزاری‘ بوڑھوں کے بڑھاپے کی معذوری کو سمجھ کر ان کے ساتھ ادب اور نیاز مندی کے ساتھ پیش آنا‘ کسی کے سفید بالوں کا احترام کرنا‘ یہ ہمارے لیے دینی احکامات بھی ہیں۔ عمر کے بڑھاپے کی طرف بڑھنے سے جسم کی ہر چیز خراب و خستہ ہوتی چلی جاتی ہے اور یکے بعد دیگر ے حواس اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔ اس لیے جہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بڑھاپے کی سختیوں کا سامنا کرنے کی بھرپور تیاری کی جائے‘ الم غلم کھانوں سے پرہیز کیا جائے‘ سادہ زندگی اپنائی جائے‘ وہیں جن معمر افراد سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے ان کی بھرپور تعظیم اور خدمت بھی انتہائی ضروری ہے۔ نئے سال کے موقع پر ان باتوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ خدا ہم سے راضی ہو سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں