غزہ پر اندھا دھند فضائی بمباری کے بعد اسرائیل نے غزہ پر زمینی حملے کی تیاری شروع کر دی ہے اور شمالی غزہ میں مقیم گیارہ لاکھ فلسطینی آبادی کو حکم دیا ہے کہ وہ یہ علاقہ خالی کر دیں۔ اسرائیلی ڈیفنس منسٹر نے کھلے عام کہا ہے کہ ''عام فلسطینیوں کو بھی سبق سکھایا جائے گا‘‘۔ اب تک اوسطاً ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی شہری اسرائیلی فوج کے ہاتھوں یا تو مارا جا چکا ہے یا پھر ٹارچر سیل میں ہے۔ گزشتہ تین روز میں پانچ سو جبکہ گزشتہ بیس برس میں اسرائیل نومولود سے لے کر پندرہ سال عمر کے ساڑھے چار ہزار بچوں کو شہید کر چکا ہے۔ اسرائیلی فوج جب چاہتی ہے‘ بغیر وجہ بتائے چھ‘ سات برس کے بچوں کو گرفتار کر لے جاتی ہے۔ یہ سب کچھ وہاں روز کا معمول ہے لیکن مغربی میڈیا یہ سب نہیں دکھاتا ہے۔ آج بھی اس کا سارا فوکس اسرائیل پر ہونے والے حملے پر ہے۔ وہ اسے اسرائیل کا ''نائن الیون‘‘ قرار دے رہا ہے۔ یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا حماس اسرائیل کے جوابی حملوں کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ فلسطینیوں کے پاس سوائے لڑنے کے کیا آپشنز موجود ہیں۔ اسرائیل نے تو صاف کہہ رکھا ہے کہ فلسطینی یہاں سے ہجرت کر جائیں‘ اسرائیل کی غلامی قبول کر لیں یا پھر مرنے کو تیار رہیں۔ وہ پہلے ہی ایک ایسی جیل میں قید ہیں جہاں بجلی‘خوراک‘ ادویات‘ پٹرول حتیٰ کہ پانی بھی اسرائیل کی مرضی اور اجازت سے آتا جاتا ہے۔ ان کی اپنی زندگی کیا ہے؟ غزہ میں بجلی ویسے بھی چند گھنٹے کے لیے آتی ہے اور اب تو بالکل ہی بند کر دی گئی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا فلسطینی ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھے رہیں؟
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سیاسی‘ معاشی‘ عسکری اور سفارتی میدان میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے غزہ کو ملیامیٹ کرنے کے درپے ہیں۔ حماس کے جارحانہ حملوں کے بعد سے اسرائیلی وزیراعظم اسرائیل کے اندر سے بھی شدید تنقید کی زد میں ہیں کہ آخر خطے کی طاقتور ترین انٹیلی جنس ایجنسیاں اور فوج ناکام کیسے ہو گئیں۔ کیونکر انہیں یہ اطلاع نہ ملی کہ حماس ایک تاریخی حملہ کرنے والی ہے۔ حماس کے مطابق اس نے پانچ ہزار سے زائد راکٹ برسائے ہیں جبکہ اسرائیل نے یہ تعداد اڑھائی ہزار بتائی ہے۔ اڑھائی ہزار بھی کم نہیں‘ گویا اسرائیل نے ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے۔ اسرائیل کی سرزمین کو راکٹ حملوں سے بچانے کے لیے وہاں فضا میں ''آئرن ڈوم‘‘ ٹیکنالوجی نافذ ہے، جس کی وجہ سے غزہ سے فائر کیا جانے والا راکٹ ہوا میں ہی زیر کر لیا جاتا ہے اور اسے اسرائیل کا اینٹی راکٹ میزائل تباہ کر دیتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق حماس نے 'قاسم‘ نامی راکٹ برسائے جو انہیں تین سو سے آٹھ سو ڈالر میں پڑتا ہے جبکہ حماس کے اس ایک راکٹ کو روکنے کے لیے اسرائیل کو آئرن ڈوم ٹیکنالوجی اور اینٹی راکٹ میزائل پر لگ بھگ پچاس ہزار ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ چار ہزار ایسے میزائلوں کو روکنے پر اسرائیل کو لگ بھگ بیس کروڑ ڈالر کے راکٹ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ آئرن ڈوم ٹیکنالوجی راکٹ حملوں کو روکنے کی پچانوے فیصد صلاحیت رکھتی ہے؛ تاہم حماس نے اس مرتبہ پانچ ہزار راکٹ 140راکٹ فی منٹ کے حساب سے برسائے جن کی وجہ سے اسرائیل کا مضبوط ترین آئرن ڈوم سسٹم بھی چکرا کر رہ گیا۔ حماس نے اس حملے کو ''طوفان الاقصیٰ‘‘ قرار دیا ہے۔ جس مربوط اور منظم انداز میں اسرائیل پر حملہ کیا گیا‘ ایسے مناظر کبھی میدانِ جنگ میں بھی نہیں دیکھے گئے اور سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ ہے کہ غزہ بارڈر سے صرف تین میل دور تین ہزار اسرائیلی شہری ایک میلے میں رات بھر سے ناچ رہے تھے اور اس تقریب کی سکیورٹی پر صرف پندرہ اہلکار مامور تھے۔ پہلے حماس نے چھوٹے ڈرونز سے سکیورٹی کیمروں، موشن سنسرز اور آٹو میٹک گنوں کو تباہ کیا، پھر اسرائیل کی جانب پیش قدمی کی اور پانچ ہزار میزائل داغے۔ اس کے بعد زمینی راستے سے بلڈوزر سے آہنی باڑ گرا کر پیدل اور موٹرسائیکل سوار جنگجوئوں کے لیے راستہ ہموار کیا‘ کچھ سمندر کے راستے سے اسرائیل میں داخل ہوئے جبکہ سینکڑوں جنگجوئوں نے پیراگلائیڈنگ کا استعمال کیا۔ اس میں موٹرسائیکل نما مشین کے پیچھے پیراشوٹ لگا کر اسے کم بلندی تک اڑایا جاتا ہے۔ ہالی وُڈ میں آج تک سینکڑوں‘ ہزاروں سپرہٹ جاسوسی اور جنگی فلمیں بن چکی ہیں لیکن اسرائیلی فوج تو دور کی بات‘ کسی فلم پروڈیوسر کو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ حملہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے۔ حماس نے پانچ ہزار سے زائد راکٹ برسائے ہیں‘ یقینا اس کے پاس اس سے کہیں زیادہ تعداد میں راکٹ موجود ہوں گے۔ اسی مقصد کے لیے اب اسرائیل نے زمینی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد یہ جنگ نیا رخ اور مزید شدت اختیار کرے گی۔
حماس جیسی عسکری تنظیم یقینا دوست ممالک اور عالمی طاقتور ممالک کی حمایت کے بغیر اتنی بڑی کارروائی نہیں کر سکتی۔ ایران‘ مصر‘ ترکیہ‘ روس اور دیگر ممالک یقینا اس کی معاونت کر رہے ہوں گے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر تھمتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں فلسطین کے حق میں مظاہرے جاری ہیں لیکن اسرائیل یو این او کی ہدایات کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ فی الوقت نیتن یاہو پر خون سوار ہے۔ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہوا ہے اور فلسطینی بچوں اور خواتین کو بھی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حماس نے حالیہ حملے میں چالیس اسرائیلی بچوں کو نشانہ بنایا ہے۔ خود اسرائیل کیا کرتا آیا ہے‘ وہ شاید یہ بھول چکا ہے کہ ایک اسرائیلی کی ایما پر ہی یہ مہم شروع کی گئی تھی کہ فلسطینی مردوں اور بچوں کے بجائے خواتین کو پیٹ میں گولیاں ماری جائیں تاکہ خواتین ہی نہ رہیں اور نہ ہی فلسطینی بچے پیدا ہو سکیں۔ اسرائیل کی اس منظم نسل کشی سے یقینا حماس یا کسی اور تنظیم کو یہ آزادی نہیں مل جاتی کہ وہ بھی اسرائیلی بچوں‘ خواتین اور عام شہریوں کو نشانہ بنانا شروع کر دے۔ صرف اسلام ہی نہیں‘ دنیا بھر کے قوانین میں جنگ میں بھی خواتین‘ بچوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح جنگوں میں مذہبی مقامات‘ ہسپتالوں اور ایمبولینسوں کو نقصان پہنچانے سے روکا گیا ہے لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہوتا ہے؟ اسرائیل تو ان شہدا کے جنازوں پر بھی میزائل اور گولیاں برساتا رہا ہے جن کو اس نے پہلے خود ہی بربریت سے شہید کیا ہوتا ہے۔ ایمبولینسوں سے نکال نکال کرمریضوں کو پوائنٹ بلینک گولیاں ماری گئیں۔ بچوں کو ان کے والدین کے سامنے اور والدین کو ان کے بچوں کے سامنے گولیاں سے بھون دیا گیا تاکہ وہ باقی زندگی شدید ذہنی اذیت میں گزاریں۔
یہ درست ہے کہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں‘ بالآخر مذاکرات ہی سے مسئلے کا حل نکلتا ہے لیکن یہاں مذاکرات کون اور کس سے کرے گا۔ اسرائیل صرف اپنی شرائط پر مذاکرات کرنا چاہتا ہے اور اس کی شرائط جنہیں قبول کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مظلوم کسی قاتل سے کہے کہ ٹھیک ہے‘ میری جان لے لو لیکن بم سے نہیں گولی کے ذریعے مجھے قتل کرو۔ فلسطینی شہریوں سے زندہ رہنے تک کا حق چھین لیا گیا ہے۔ کل کیا ہو گا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ فی الوقت مڈل ایسٹ پر جنگ کے بادل منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرادادیں بھی اس ضمن میں بے ضرر ثابت ہوئی ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہو یا فلسطین‘ اقوام متحدہ کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری کی نذر کیا جاتا رہا ہے۔ طاقتور ممالک اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو خود کو سیکولر اور آزادی رائے کا چیمپئن کہلواتے ہیں۔ آج وہاں فلسطین کے حق میں بولنے پر لوگوں کو کھڑے کھڑے نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ایئرکینیڈا کے ایک پائلٹ کو صرف اس وجہ سے نوکری سے برخاست کر دیا گیا کہ اس نے ایک ٹویٹ میں اسرائیل کے مظالم پر چند سطریں لکھی تھیں۔ ایک اور واقعے میں امریکہ میں ایک طالبعلم کو صرف اس وجہ سے بیروزگار کر دیا گیا کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں بات کر رہا تھا۔ ہر فلسطینی کو معلوم ہے کہ آج نہیں تو کل‘ اس کی باری ہے، سو جب مرنا ہی ہے تو لڑ کر‘ عزت کی موت کیوں نہ مریں اور شہادت کا درجہ پا لیں۔ فلسطینی تو اپنا کام کر رہے ہیں‘ مسلم دنیا جب تک فلسطین کے بطور آزاد ریاست قیام کے لیے متحرک ‘یکسو اور متحد نہیں ہو گی‘ یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔