عقل اور مذاکرات

لوک کہانیاں انسانوں کی اجتماعی فراست اور تجربوں کا نچوڑ اوربڑی سبق آموز ہوتی ہیں۔ قدیم یونان کی ایک لوک کہانی اس طرح ہے کہ : طاقت کا دیوتا اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو تہس نہس کرکے گزرا کرتا تھا۔ ہر چیز کے اوپر سے گزرنے کا عادی تھا۔ طاقت دیوتا کی ،عقل دیوتا کے ساتھ اکثر تکرار رہا کرتی تھی۔طاقت دیوتا کا کہنا تھا کہ دنیا میں طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ طاقت کے مقابلے میں عقل کی کچھ حیثیت نہیں ، عقل کمزورں کا ہتھیار ہے۔ عقل دیوتا کا موقف تھا کہ جہاں جا کر طاقت بے بس ہوجاتی ہے عقل کا وہاں سے آغاز ہوتا ہے۔ طاقت ایک اچھی چیز ہے مگر یہ ہی سب کچھ نہیں ہے۔ طاقت دیوتا چیزوں کو مسمار کرتے ہوئے عقل دیوتا پر مسکرا کر آگے بڑھ جاتا تھا۔ ایک روز کیا ہوا کہ طاقت دیوتا کا پائوں پتھر پر جا پڑا۔ اُس نے حسب عادت پتھر کو پائوں کے نیچے پیس کر آگے بڑھنا چاہا۔ وہ جیسے جیسے پتھر پر پائوں مارتا گیا پتھر کا سائز بڑھتا گیا۔ وہ جب بھی پائوں مارتا پتھر اور بڑا ہوجاتا تھا۔ طاقت دیوتا کو اپنی طاقت پر گھمنڈ تھا، وہ پتھر کے اس عمل پر آگ بگولا ہوگیا، وہ طیش میں آ کر پتھر پر پائوں مارتا گیا‘ پتھر پہاڑ بن کر اس کی راہ میں کھڑا ہوگیا۔ دیوتا کا غیظ و غضب انتہا کو پہنچ گیا۔ وہ پائوں مار مار کر ہلکان ہورہا تھا، بے حد بپھرا ہوا تھا کہ اسی اثنا میں عقل دیوتا وہاں آ پہنچا۔ اس نے طاقت کے دیوتا کی بری حالت دیکھ کر اس سے پوچھا کیا ہوا ہے‘ یہ آج تم غصے سے کیوں چنگھاڑ رہے ہو، کیا بات ہے۔ طاقت کے دیوتا نے کہا کہ اس حقیر پتھر کی حرکت دیکھو میں نے اس پر پائوں مارا یہ اور بڑا ہوگیا۔ میں جب تک اس کو پیس نہ لوں آگے نہیں بڑھوں گا۔عقل دیوتا نے اُسے سمجھایا کہ یہ پتھر تمہارے سامنے اکڑ گیا ہے۔ یہ مزاحمت پر اتر آیا ہے‘ یہ تم سے نہیں ٹوٹے گا۔ بہتر یہ ہے کہ پتھر سے ایک طرف ہو کر نکل جائو۔ طاقت دیوتا عقل دیوتا کا مشورہ مان کر آگے نکل گیا۔ امریکہ سپر طاقت ہے اسے اپنی طاقت پر گھمنڈ ہے، 11/9 کے واقعہ پر طاقت دیوتا کی طرح بپھر گیا ‘ غصے اور غیظ و غضب میں پاگل ہوگیا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ ٹریڈ سنٹر پر القاعدہ کا حملہ انتہائی قابل مذمت تھا ‘ مجرموں کو اس کی سزا ملنی چاہیے تھی ۔مگر چند پاگلوں کی مجنونانہ کارروائی پر عالمی جنگ برپا کرنا عقل مندی نہیں تھی۔نائن الیون کا انتقام جنگ کیے بغیر بھی لیا جاسکتا تھا‘ مگر طاقت دیوتا ہر کام طاقت سے ہی کیا کرتے ہیں۔ امریکہ اور اُس کے نیٹو اتحادی گیارہ سال سے طالبان کے خلاف ایک بے چہرہ جنگ جاری کیے ہوئے تھے‘ اس بے چہرہ جنگ نے امریکہ کو مقروض بنا ڈالا تھا۔ امریکہ کے نوجوانوں نے اس جنگ کے خلاف دھرنے دیئے اور اسے ختم کرنے کے لیے حکومت کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ اس طرح کی گھمبیر صورتحال میں عقل کے دیوتا انسانوں نے امریکہ کے کان میں کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرکے افغانستان سے واپس آجائو۔ امریکہ نے ان کے عقل کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلے کا آغاز کردیا ،جو قابل تعریف ہے۔ تاریخ کے علم سے نابلد لوگ اسے امریکہ کی کمزوری خیال کرکے اس پر شکست کی پھبتی کس رہے ہیں اور طالبان کی فتح کا اعلان کررہے ہیں جو ناعاقبت اندیشی کی بات ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ دنیا میں آج تک جنگ سے کوئی فیصلہ طے نہیں پا سکا۔ دنیا کے تمام فیصلے مذاکرات سے ہی طے پاتے رہے ہیں۔ امریکہ اور طالبان کے آپس میں مذاکرات ایک اچھی بات ہے مگر ان دونوں کی جنگ میں پاکستان نے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھایا۔ ستم یہ ہے کہ یہ تمام جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑی گئی ۔جس سر زمین پر جنگیں لڑی جاتی ہیں اس پر پھول نہیں کھلا کرتے بلکہ بستیاں ویرانوں اور زرخیز زمینیں دشت و صحرا میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کو امریکہ کی ہی تقلید کرنی چاہیے ہمیں اس جنگ سے پوری طرح باہر نکلنا ہوگا۔ ہمیں افغانستان کے اندرونی معاملات سے خود کو علیحدہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کو افغانستان کے اندر ہونے والی کسی قسم کی بھی کشمکش میں کسی فریق کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ ہم کو صرف اپنی سر زمین کی حفاظت کرنا ہوگی۔ پاکستان کو طالبان سے مذاکرات کرکے یہ طے پانا ہوگا کہ وہ پاکستان کی سرزمین کو اپنے کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ جو طالبان پاکستان میں ہیں وہ امن و امان کی زندگی اختیار کرلیں، اپنے ہتھیار پھینک دیں اور معمول کی زندگی بسر کرنے لگیں۔ افغانستان کے معاملات افغانستان کی حکومت اور افغان عوام جانیں۔ پاکستان کا تعلق افغانستان کے ساتھ ایک پرامن اچھے ہمسائے کا ہوگا اور یہی توقع افغانستان کی حکومت سے کی جانی چاہیے کہ وہ پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ اپنائے اور اسے دوست برادر اسلامی ملک تسلیم کرے۔ پاکستان کو ان مذکورہ دو فریقوں کے مذاکرات سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے ایسے کئی اقدام کرنے سے قاصر تھا جو پاکستان کی سالمیت کے لیے بے حد ضروری تھے۔ اب پاکستان اُن معاہدوں اور پابندیوں سے آزاد ہوچکا ہے؛ لہٰذا اب پاکستان کو اپنا یہ فیصلہ ملکی مفادات کے مطابق کرنا ہوگا۔ افغانستان کے ساتھ باوقار دوستی کرنا پاکستان کے مفادات میں ہے۔ طالبان کے ساتھ لڑائی بند کرنا ان کو راہ راست پر لانا پاکستان کے حق میں ہے۔ پاکستان میں ہر طرح کی تخریب کاری کو ختم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ پاکستان یہ سب کچھ مذاکرات اور پرامن طریقوں سے حاصل کرسکتا ہے۔ اگر جنگ سے کچھ حاصل ہوسکتا‘ تو سپر طاقت امریکہ مذاکرات کا راستہ ہرگز اختیار نہ کرتا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں