پرویز مشرف اور ان کے مصاحبین

معروف مسلم مورخ ابن خلدون نے کہا تھا کہ حکمرانوں کی ذہنی سطح کا اندازہ ان کے مصاحبین سے کیا جاتا ہے۔ ان کے وزیروں‘ مشیروں اور درباریوں سے کیا جاتا ہے۔ جو حکمران اعلیٰ ذہنی سطح کا حامل ہوگا اس کے مشیر اور مصاحبین دانشمند‘ جہاں دیدہ‘ تجربہ کار اور دوراندیش ہوں گے اور جو حکمران کم ذہنی سطح کا ہوگا اس کے مشیر اور مصاحبین انتہائی جاہل‘ چاپلوس اور خوشامدی ہوں گے۔ ابن خلدون کے اس مقولے کی روشنی میں جب ہم جنرل پرویز مشرف کے زمانہ اقتدار کے ساتھیوں، حامیوں، دوستوں اور پرستاروں کو دیکھتے ہیں تو ان میں ایک بھی ایسا انسان دکھائی نہیں دیتا جو صاحب الرائے ہو یا جس کی دانائی کی کوئی شہرت ہو۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنی مشہور زمانہ مفاہمت ڈاکٹرائن کے تحت جنرل (ر) پرویز مشرف کو باقاعدہ فوجی سلامی کے ساتھ پاکستان سے رخصت کیا جس کا پاکستان کے لوگوں نے بہت برا منایا تھا۔ پرویز مشرف معزول اور مفرور حکمرانوں کی آخری پناہ گاہ برطانیہ کے شہر لندن پہنچ گئے جہاں ان کے پاس عیش و عشرت کا ہر سامان موجود تھا۔ یہ تمام سامان پاکستان کی ہی دولت سے حاصل کیا گیا تھا۔ پاکستان کے حکمران اپنا ذاتی حق سمجھ کر قوم کی دولت باہر لے جاتے ہیں۔ اس دولت کو واپس لانا ان کے مقدر میں ہوتا ہے اور نہ ہی اس دولت کو خرچ کر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف کو اپنی قومی شہرت کا اسی وقت اندازہ لگا لینا چاہیے تھا جب برطانیہ کے ایک شہر میں ان کو ایک پاکستانی نے نفرت سے جوتا مارا تھا یا جوتا ان کی طرف پھینکا تھا۔ میرا ایک بھتیجا شہزاد خان تقریباً ایک سال پہلے میرے پاس آیا‘ اس نے مجھے خبر دی کہ 2013ء کے انتخاب سے پہلے پرویز مشرف پاکستان میں ہوں گے اور انتخابات میں حصہ لیں گے۔ میرا یہ بھتیجا ایک عرصے سے حافظ غلام محی الدین کے سیاسی اسکول میں زیرتعلیم ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم پرویز مشرف کی پارٹی بنا رہے ہیں۔ انتخابات میں ان کی پارٹی کو جتوایا جائے گا اور وہ پاکستان کے دوبارہ صدر بن جائیں گے۔ میں شہزاد خان کو کہا کرتا ہوں کہ تم ذہنی اعتبار سے آج کے عہد سے 100سال پیچھے ہو۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر تم جیسے لوگ پرویز مشرف کے حامی ہیں تو پھر ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ میں نے تو اس کی باتوں کو مذاق خیال کیا تھا مگر انتخابات کے اعلان کے بعد مسلسل اخبارات میں خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ پرویز مشرف پاکستان واپس آرہے ہیں۔ ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا۔ خود پرویز مشرف کا ذہن اقتدار کے نشے میں کس قدر دھت تھا کہ سوچنے کا مادہ ہی نہیں تھا کہ انہوں نے ایک بار نہیں دو بار پاکستان کا آئین توڑا تھا۔ انہوں نے ایک منتخب آئینی حکومت کا تختہ الٹا تھا، پاکستان کی عدلیہ کا مذاق ہی نہیں تمسخر اڑایا تھا،چیف جسٹس آف پاکستان کو آرمی ہائوس میں طلب کرکے ان سے استعفے حاصل کرنے کا جرم کرنے کی کوشش کی تھی۔ عدلیہ کے ججوں کو معطل کرکے چیف جسٹس سمیت گھروں میں قید کر ڈالا تھا۔ ان کے بچوں تک کو اسکول جانے نہیں دیا جاتا۔ سوچتا ہوں کہ یہ شخص کیساتھا جس کو اس بات کا ا حساس ہی نہیں تھا کہ بلوچ لیڈر نواب اکبر خان بگتی کے قتل میں ان کا نام سرِفہرست ہے۔ انہیں اس بات کا بھی کوئی خوف نہیں تھا کہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی رہنما اور مقبول ترین لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے قتل سے وہ کس طرح بچ پائیں گے۔ اس کی پاکستان آمد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ا نہیں اپنے کئے ہوئے جرائم کا کوئی احساس اور ملال تھا اور نہ ہی اپنی ذات پر لگے الزامات کی کوئی پروا تھی۔ گویا وہ اپنے آپ کو ہی آئین اور قانون خیال کرتے تھے۔ ولیم رائش عالمی شہرت یافتہ فلسفہ نفسیات کا ماہر تھا۔ اس کی مشہور زمانہ کتب ’’لٹل مین‘‘ یعنی چھوٹے آدمی میں اس نے تحریر کیا ہے کہ ڈکٹیٹر بونے اور بالشتیے ہوتے ہیں۔ ان کے دل اور دماغ مکمل انسان کی طرح نہیں ہوتے۔ ان کے قد بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے غیر انسانی کردار و عمل سے بڑے بننا چاہتے ہیں۔ یہ اپنے ظلم اور جبر سے اپنے قد کاٹھ تعمیر کرتے ہیں۔ یہ انسانوں کی بے بسی سے اپنے اختیار اور اپنے اقتدار کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ابتدا میں یہ طاقت کے نشے میں نیم پاگل ہوتے ہیں اور بعد میں مکمل پاگل ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا کے بارے میں اپنے پاگل پن کے انداز میں سوچتے ہیں اور دنیا کو اپنے پاگل پن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں یہاں تک کہ یہ خود کو ملک و قوم کے لیے ایک ناگزیر انسان تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہ خود کو بے حد مقبول انسان خیال کرتے ہیں۔ جنگ‘ تباہی اور انسانی بربادی ان کے ذہنوں کے حسین ترین موسم ہوتے ہیں۔ ان کے پراگندہ اور آشفتہ ذہنوں کو دھماکے اور ڈرون حملے سکون پہنچاتے ہیں تھے۔ مختصر یہ ڈکٹیٹر انسانی زندگی کے معمول کے معاشرے کی ضد ہوتے ہیں۔ ان کا ہر کام شب خون مارنے کی مہم جوئی کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ خود بھی مر جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ انہیں پسند کرنے والے دنیا کے دھتکارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ولیم رائش کی لٹل مین کی تمام خصوصیات ہمیں پرویز مشرف کی ذات اور ان کے اقتدار میں ملتی تھی۔ ان کی قسمت کا کیا فیصلہ ہوگا‘ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے لوگ بھی وہی ہیں جنہیں ولیم نے دھتکارے ہوئے لوگ کہا ہے۔ پرویز مشرف کی پاکستان آمد خودکشی کے مترادف تھی جس کا اندازہ ان کو اپنے کراچی کے استقبال سے لگا لینا چاہیے تھا۔ عبرت کا مقام ہے کہ کوئی شخص ان کے ساتھ ہمدردی بھی نہیں کرسکتا۔ قانون اور آئین کی نظر میں کسی کے ساتھ محبت اورہمدردی کی کوئی وقعت نہیں۔ قانون میں اقبال جرم کی کوئی معافی نہیں جب کہ پرویز مشرف دھڑلے سے کہا کرتے تھے کہ میں نے آئین ختم کرکے پی سی او جج بھرتی کیے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں