آج دنیا میں کہیں امن و چین ہے تو وہ مغربی ممالک ہی میں ہے۔ جہاں لوگ برسرروزگار ہیں‘ تعلیم عام ہے غربت کا اگر مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا تو اسے قابو ضرور کرلیا گیا ہے۔ دنیا کی تمام ایجادات مغرب میں ہوئی ہیں ، اسی طرح جدید ترین ٹیکنالوجی بھی انہی کے قبضہ میں ہے۔ اسپرو کی گولی سے لے کر ایٹم بم تک ان کی ایجاد ہے‘ الیکٹرانک میڈیا‘ موبائل فون‘ لیپ ٹاپ سب ان کے فراہم کردہ ہیں۔ لوگ ہفتہ میں پانچ دن کام کرتے ہیں، ویک اینڈ پر خوب عیش وآرام کرتے ہیں۔ ہفتہ کی رات وہ اگر کلبوں میں جاتے ہیں رقص کرتے ہیں تو اتوار کے دن چرچ بھی چلے جاتے ہیں۔ان کی زندگی میں جہاں دنیاوی معمولات میں توازن ہے وہاں ان کی زندگی مذہبی معاملات میں بھی بہت پُرسکون اور متوازن ہے ان ممالک کے تمام ریاستی ادارے کمال نظم وضبط کے پابند ہیں۔ ہرادارہ اپنی اپنی جگہ خودمختارہے ۔ریاست کا ہر شہری قانون کا پابند ہے۔ حکمران آئین اور قانون کے پابند ہیں‘ اپنے دامن پر کسی قسم کی کرپشن یا اقربا پروری کی چھینٹ تک نہیں پڑنے دیتے۔ نہ تو وہ خود قومی دولت پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور نہ کسی دوسرے کو ایسا کرنے دیتے ہیں۔ ان کی حکومتوں اور ان کے اقتدار میں ایک آئینی تسلسل ہے۔ ان کے معاشروں میں ایک پروقار ٹھہرائو اور اعتدال ہے۔ وہ اپنے ذرائع پیدا وار کی تشکیل میں اور اپنی تعمیر وترقی کے عمل میں اس قدر مصروف اور مگن ہیں کہ اُنہیں کسی غیر تعمیری کام کا ہوش ہی نہیں ہے۔ ان میں ہرشخص اپنی اپنی سطح پر معمار قوم بن چکا ہے۔ ہرانسان ریاست کو بھی کردیتا ہے اور خود بھی کھاتا ہے ان ممالک کے لوگوں کی زندگی کا ایک معمول ہے ،ایک شیڈول ہے۔ کوئی شخص ریاست سے لاتعلق نہیں ہے اور نہ ہی ریاست کسی شہری سے لاتعلق ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام قاعدے اور قانون ان ممالک کے حکمرانوں اور لوگوں نے کہاں سے سیکھے ۔ زندہ رہنے کا یہ عملی شعور ان لوگوں نے کہاں سے پایا؟ مغرب کے جن ممالک کی میں بات کررہا ہوں ان کی اکثریت مذہباً عیسائی ہے۔ اس ناتے وہ ایک الہامی کتاب اور ایک نبی کے پیروکار ہونے کے بھی مدعی ہیں۔ ان کے مذہبی فرقے بھی ہیں۔ ایک وقت تھا جب وہ ہماری طرح‘ مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا خون بہایا کرتے تھے۔ مگر جب وہ زندگی کا شعور پا گئے تو بالغ نظر انسانوں کی طرح آدمی کی عظمت اور حرمت کے قائل بن گئے۔ جدید علوم نے ان پر ثابت کیا کہ انسان سب سے پہلے ہے‘ سب سے افضل ہے‘ باقی سب کچھ بعد میں آتا ہے۔ جرمنی کے معروف مفکر دانش ور شاعرنطشے نے کہا تھا۔ انسان سب سے پہلے ، مذہب بعد میں ہے ۔اس نے کہا تھا انسان ہوگا تو مذہب بھی ہوگا۔ اگر انسان ہی نہ ہوگا تو مذہب کہاں ہوگا۔ مغربی ممالک میں جس طرح مذہب پر کبھی خون خرابہ ہوا کرتا تھا، اسی طرح حکومت اور اقتدار پر قبضہ کے لیے بھی ان میں کشت وخون ہواکرتا تھا۔ مذہب کے خون خرابے پر ان لوگوں نے رواداری‘ وسعت نظری اور آزادیٔ فکر و تدبر کے ذریعے قابو پایا تھا‘ بالکل ویسے ہی جیسے انہوں نے جمہوریت کے ذریعے باہمی کشت خون پر قابو پایا تھا۔ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں ریاست کے تمام امیر و غریب عوام اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دے کر اپنے حکمران منتخب کرتے ہیں۔ آج تک اس سے ا چھا انسانی حکمرانی کا اور کوئی نظام دریافت نہیں ہوسکا۔ مجھے اس بات کا سخت قلق ہے کہ برادر ملک مصر میں جمہوری حکومت کے پائوں جمنے بھی نہیں پائے تھے کہ اکھڑ گئے یا اکھاڑ دیئے گئے۔ مصر بھی پاکستان کی طرح پسماندہ اور غربت زدہ ملک ہے۔پاکستان کی طرح ،غیرجمہوری نظام ہی اس کی پسماندگی اور غربت کی وجہ ہے ،اس لیے کہ فوجی آمریت قومی اور ملکی تعمیر وترقی کا کام نہیں کیا کرتی۔ مصر میں صدر مرسی قیادت میں جمہوریت کا آغاز ہوا تھا۔ انہیں مصر کے عوام نے آمریت کے خلاف ووٹ دے کر کامیاب بنایا ۔انہیں اپنے اختیارات کے استعمال میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت تھی ۔عوام کے ہرطبقے کے مزاج کے مطابق جمہوری آزادی کا تحفظ کرنا چاہیے تھا۔ہر نوعیت کی انتہاپسندی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ آج کے حکمران مذہبی ہوں یا سیاسی انہیں آج کے عہد کے مطابق دیکھنا اور پرکھنا ہوگا۔عوام کو جدید تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ آج لوگوں کو ہزاروں سال پیچھے کی زندگی گزارنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کی ہرچیز تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں‘ ماحول تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ مغربی ممالک تبدیلی کے تقاضوں کا ادراک کرنے کے بعد ہی زندگی کو بدلنے میں کامیاب ہو سکے‘ عالموں اور حکمرانوں نے مذہب کو آسان بناکر انسانی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔ انہوں نے حکمرانی کو آئینی اور قانونی رنگ دے کر معاشرے کو پرامن اور پرسکون بنا دیا۔ آج دنیا عالمی گائوں بن گئی ہے۔ آج کسی بھی ملک اور قوم کو مسلمہ عالمی اصولوں اور ضابطوں سے کاٹ کر نہیں رکھا جاسکتا۔ مذہبی رواداری ،جدید دور کا تقاضا اور سکۂ رائج الوقت ہے‘ لیکن افسوس کہ عالم اسلام میں یہ قدر کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر مسلمانوں نے علوم و فنون اور سیاسی و سماجی ترقی میں مغربی ممالک کی ہمسری کا خواب دیکھنا ہے توپھر مذہبی رواداری اور جمہوری اقدار کو فروغ دینا ہوگا۔