جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کا واحدپیمانہ نہیں

معاشی ترقی ایک پالیسی مقصد ہونے کے علاوہ کئی دوسرے مقاصد حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، غربت میں کمی لانا اور دولت کی منصفانہ تقسیم کا نظام وضع کرنا وغیرہ۔ معاشی ترقی کا اگرچہ مجموعی قومی پیداوار سے گہرا تعلق ہے‘ لیکن یہ معاشی ترقی کو ظاہر نہیں کرتی کیونکہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں اضافہ معاشی ترقی کے لیے واحد عامل نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کی جی ڈی پی بلند شرح سے بڑھ رہی ہو‘ پھر بھی وہ ملک معاشی ترقی کے حصول میں کامیاب نہ ہو۔ اس کی ایک مثال پاکستان ہے جس کی جی ڈی پی 1960ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اور 2003ء تا 2007ء بلند شرح سے بڑھی لیکن ملک معاشی ترقی کا درجہ کبھی حاصل نہ کرسکا۔ اسی طرح فی کس آمدنی کی بلند شرح بھی معاشی ترقی کا پیمانہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کئی مسلم ممالک کی فی کس آمدنی ترقی یافتہ ممالک کے برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے لیکن ان کے پاس معاشی ترقی کے لیے ضروری عوامل موجود نہیں۔ معاشی ترقی ایسے عمل کو کہتے ہیں جس میں قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ سماجی اور اداراتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں‘ جن کے ذریعے ترقی کے عمل کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں میں سرفہرست مطلق غربت میں کمی‘ معیار زندگی میں بہتری، بلند شرح خواندگی، لیبر فورس کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ‘ دیگر پیداواری عوامل کی استعداد میں اضافہ‘ جدید فنون کا فروغ‘ مادی اور کمرشل انفراسٹرکچر کی تکمیل‘ بچتوں اور سرمایہ کاری کی بلند شرح، روزگار کے مواقع میں اضافہ‘ کام اور زندگی کے بارے میں مثبت رویہ اور ایک مستحکم سیاسی نظام ہیں۔ لہٰذا معاشی ترقی وصفی اور مقداری عمل ہے۔ معاشی ترقی کا بنیادی مقصد عوام کی زندگی کے معیار میں بہتری لانا ہے۔ معاشی ترقی کے جدید مفہوم میں تین ضروری اقدار (i) زندگی کی برقراری (Sustenance) (ii) خود داری (Self Esteem) اور (iii) آزادی (Freedom) کو معاشی ترقی کی تخیلاتی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ روایتی طور پر ماہرین معاشیات کسی ملک میں اشیا اور خدمات کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ہوتے رہنے کو معاشی ترقی کا نام دیتے ہیں اور اس کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’معاشی ترقی ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت مختلف قوتیں یعنی نئے پیدا آور وسائل کی دریافت، سرمائے کی اشیا میں اضافہ، فنون کی پیدائش میں ترقی‘ آبادی کی مہارت میں اضافہ اور اشیا و خدمات کے ڈھانچے میں تغیرات لا کر ملک کی حقیقی قومی پیداوار میں اضافہ کا ذریعہ بنتی ہیں لیکن بعض دوسرے معیشت دانوں کے خیال میں معاشی ترقی کا عمل فقط حقیقی قومی پیداوار میں اضافے سے ذرا بڑھ کر ہے‘‘۔ ان کے مطابق معاشی ترقی اس وقت واقع ہوگی جب لوگوں کا معیار زندگی پہلے سے بلند ہوتا جائے۔ ’’معاشی ترقی ایک ایسا عمل ہے جس کی بدولت کسی ملک کی فی کس حقیقی آمدنی طویل عرصے تک بڑھتی رہے‘‘ یعنی معاشی ترقی کا ایک ایسے عمل سے سروکار ہے جس کی بدولت کسی ملک یا علاقے کے لوگ دستیاب وسائل سے استفادہ کرکے اشیا و خدمات کی فی کس پیداوار میں مسلسل اضافہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح معاشی ترقی کو غربت و افلاس مٹانے کی ضرورت سے مربوط کرکے بہت سے ماہرین فی کس حقیقی پیداوار کے اضافے کو معاشی ترقی کی کسوٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ جب حقیقی قومی پیداوار کو معاشی ترقی کا پیمانہ سمجھ لیا جائے تو بعض اوقات ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی ملک کی حقیقی قومی آمدنی میں تو اضافہ ہورہا ہو لیکن آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے اس ملک کی فی کس آمدنی میں اضافہ نہ ہوسکے اورلوگوں کے معیار زندگی میں کوئی بہتری نہ آسکے۔ جیسا کہ پاکستان کے پہلے پانچ سالہ منصوبے کے دوران آبادی میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے فی کس آمدنی میں کوئی اضافہ نہ ہوسکا حالانکہ اس منصوبے کے پانچ برسوں میں پاکستان کی قومی آمدنی میں مجموعی طور پر 11فیصد اضافہ ہوا تھا۔ حقیقی قومی آمدنی اور فی کس حقیقی آمدنی میں اضافہ ہورہا ہو تو ہوسکتا ہے کہ امیر لوگ امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہو رہے ہوں۔ تو یہ فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا کہ مجموعی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی میں اضافہ ہونے سے عوام کی خوشحالی میں اضافہ ہوگیا ہے تا وقتیکہ اس اضافے کے نتیجے میں آمدنی کی تقسیم میںمثبت تبدیلی آئے جس کی مدد سے غربت کو ختم یا کم کرنے میں مدد ملے۔ مثال کے طور پر 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس حقیقی آمدنی میں بلند شرح سے اضافہ ہوا لیکن ملکی دولت چند خاندانوں کے ہاتھ میں سمٹ کر رہ گئی تھی اس لیے عوام غربت کے بوجھ تلے دبتے گئے۔ اسی طرح 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں دنیا کے کئی ممالک کی حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنیوں میں بھی اضافہ ہوتا رہا لیکن ان ممالک کے عوام کے معیار زندگی میں بلندی نہ آسکی۔ لہٰذا ماہرین معاشیات یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ معاشی ترقی کی روایتی تعریف میں کوئی غلطی ضرور ہے لہٰذا انہوں نے حقیقی قومی آمدنی اور فی کس آمدنی پر انحصار کرنا چھوڑ دیا اور ترقی پذیر ممالک میں وسیع پیمانے پر پائی جانے والی مطلق غربت، آمدنی کی تقسیم کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس طرح ترقی کی اصطلاح کی جدید تعریف وجود میں آئی جس کے مطابق کسی ترقی پذیر معیشت میں غربت و افلاس آمدنی کی تقسیم میں عدم مساوات اور بے روزگاری کے خاتمہ اور ان میں کمی لانے کو معاشی ترقی قراردیا گیا۔ اگر ان تینوں عوامل میں کمی آرہی ہو تو بلاشبہ ملک ترقی کررہا ہوگا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں بہت سے ترقی پذیر ممالک کی فی کس حقیقی آمدنی میں بلند شرح سے اضافہ ہوا لیکن ان ممالک میں بے روزگاری،آمدنی کی تقسیم اور نچلی 40فیصد آبادی کی آمدنی میں اضافہ نہ کیا جا سکا؟ بعض ممالک میں تو ان میں بگاڑ پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں صورت حال مزید ابتر ہوگئی کیونکہ ان ممالک کو بیرونی قرضوں کے بارے میں سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے انہیں معاشی اور سماجی خدمات کے شعبوں پر اخراجات محدود کرنا پڑے۔ پاکستان کی قومی آمدنی میں اضافہ بھی معاشی ترقی کا سبب نہ بن سکا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کی قومی آمدنی اوسطاً6.8 فیصد کی شرح سے بڑھی تاہم وہ شرح جاری نہ رہ سکی اور1970ء کی دہائی میں کم ہو کر 4.8 فیصد رہ گئی۔ 1980ء کی دہائی میں اوسط شرح نمو بڑھ کر 6.5 فیصد ہوگئی لیکن 1990ء کی دہائی میں پھر کم ہو کر 4.6 فیصد رہ گئی۔ 2000ء اور 2003ء کے درمیانی عرصہ میں قومی آمدنی میں اضافے کی شرح صرف 3.4 فیصد سالانہ رہی۔ 2004ء میں قومی آمدنی میں اضافے کی رفتار ایک بار پھر تیز ہوگئی اور 2003ء سے 2008ء کے درمیانی عرصہ میں جی ڈی پی 7.1 فیصد سالانہ کی اوسط شرح سے بڑھی۔ 2008ء میں معیشت پھر سست روی کا شکار ہوگئی اور 2008ء سے 2012-13ء کے دوران قومی آمدنی میں اضافہ کی اوسط شرح 3 فیصد کے قریب رہی۔ پاکستان کی قومی آمدنی میں جب بھی تیز رفتار اضافہ ہوا اسے جاری نہ رکھا جاسکا اور ہم قومی آمدنی میں اضافے کو معاشی ترقی میں نہ بدل سکے کیونکہ معاشی افزائش کے ادوار میں ہم بچتوں میں اضافہ نہ کرسکے‘ دولت کی منصفانہ تقسیم نہ ہوسکی اور انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ نہ کیا جاسکا۔ یہ صورتحال تاحال برقرار ہے۔ اگرچہ فی کس آمدنی 1283ڈالر ہوچکی ہے لیکن دولت کی تقسیم مزید غیر مساویانہ، غیر منصفانہ ہوگئی ہے۔ لہٰذا صرف قومی پیداوار میں اضافہ معاشی ترقی کے لیے کافی نہیں بلکہ یہ اضافہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ تبھی معاشی ترقی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں