بجٹ کے اعلان کے بعد گرانی کا امڈتا ہوا طوفان پاکستان کے عوام کے لیے ایک بہت ہی خوفناک واقعہ ہے۔ اب قیمتیں ماہ بہ ماہ کی بجائے ہفتے اور دن بدن بڑھ رہی ہیں لیکن پاکستان میں عوام کی آمدنیوں کی سطح پورا سال غیر متحرک رہتی ہے اور آمدنیوں کو افراطِ زر کی بلند شرح سے ہم آہنگ نہیں کیا جاتا، جس کی وجہ سے عوام کی قوت خرید میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے اور صارفین پر افراطِ زر کا دبائو بڑھتا رہتا ہے ۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سال کے شروع میں انکریمنٹ لگتی ہے اور کبھی کبھار جون کے بجٹ میں معمولی سا اضافہ کر دیا جاتا ہے، لیکن افراطی معیشت میں یہ اضافہ قیمتوں میں بڑھاوے کے اثرات کو زائل کرنے میں ناکافی ہوتا ہے۔ اس سال کے بجٹ میں حکومت نے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کے ملازمین کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے۔ اس رقم سے بڑی مشکل سے ایک شخص کی کفالت ہو سکتی ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہا ہو اور اس کی کوئی ذمہ داری نہ ہو، یا پھر ایسے ملازمین کی، جو شہروں کے اردگرد پھیلی ہوئی کچی آبادیوں میں اپنے عزیزوں یا دوستوں کے ساتھ رہتے ہوں۔ جو لوگ ڈیلی ویجز پر کام کرتے ہیں، ان کی حالت اور بھی تشویشناک ہے۔ رمضان کے مہینے سے پہلے قیمتوں کا گراف تیزی سے بڑھتا ہے اور گرانی کا سیلاب غریب عوام کی پورے سال کی کمائی بہا کر لے جاتا ہے۔ اس سال رمضان کے مہینے سے پہلے ہی گرانی کا طوفان امڈ آیا ہے۔ گندم کی نئی فصل آنے کے باوجود 20کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 640روپے سے بڑھ کر 730روپے ہو گئی ہے اور مرغی کا گوشت 200روپے کلو سے بڑھ کر 300روپے ہو گیا ہے۔ کچھ اسی طرح کا رجحان چینی، پھل، سبزیوں، خوردنی تیل اور روز مرہ استعمال کی دیگر اشیاء میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافہ، پٹرول اور سی این جی پر اضافی ڈیوٹی کا نفاذ اور دیگر ٹیکسوں کے ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان سے اکثر اشیاء کی قیمتوں میں رمضان کے مہینے سے پہلے ہی گرانی کی لہر پیدا ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں مذہبی تہوار کی آمد سے پہلے ہی روز مرہ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کر دی جاتی ہے تاکہ غریب عوام کی خوشیاں مہنگائی کی نذر نہ ہو جائیں اور وہ بھی ان تہواروں میں بھرپور حصہ لے سکیں، لیکن ہمارے ملک کے ناجائز منافع خوروں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور وہ ہر دینی تہوار کی آمد سے پہلے عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی ضروریات زندگی کی اکثر اشیاء کی قیمتوں میں 6سے 10فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور بعض اشیاء جیسے آٹے کے تھیلے اور مرغی کے گوشت کی قیمتیں تو اس سے بھی بلند شرح سے بڑھ چکی ہیں۔ قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ ابھی جاری ہے اور رمضان کے مہینے سے قبل مہنگائی کا جو سیلاب آیا ہے اس سے غریب اور متوسط طبقے کی معاشی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ہر سال رمضان المبارک کی آمد سے پہلے حکومت خصوصی پیکجز کے ذریعے عوام کو سستی اشیاء فراہم کرنے کے اعلانات کرتی ہے۔ مگر یہ سب کچھ کاغذی کارروائی تک محدود رہتا ہے اور منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوںکو عوام کا استحصال کرنے سے باز رکھنے میں ناکام اور انتہائی غیر موثر رہتا ہے پنجاب حکومت نے رمضان پیکیج کے تحت روز مرہ اشیائے ضرورت عوام کو سستے داموں فراہم کرنے کے لیے 4ارب روپے کی سبسڈی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگر اس کو پنجاب کی کل آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ہر شخص کے حصے میں ایک روپیہ 34پیسے یومیہ آئے گا۔ اس سے مہنگائی کے اثرات کو زائل نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا ریلیف بھی عوام تک نہیں پہنچ پاتا، کیونکہ یوٹیلٹی سٹورز کے لیے رکھی گئی اشیاء کی بڑی مقدار چور دروازے سے ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے ہاتھ لگ جاتی ہے۔ جب تک اس قسم کے امکانات ختم نہیں کیے جاتے، عام آدمی تک خصوصی پیکیجز کے فوائد پہنچانا بہت مشکل کام ہے۔ قیمتوں میں بلا جواز اضافے کے لیے سپلائی کرنے والے افراد، ادارے، پرچون فروش اور صارفین برابر کے ذمہ دار ہیں۔ رمضان کے مہینے میں صارفین تازہ پھل، دودھ، دہی، گوشت اور کھانے کی دیگر اشیاء فاضل مقدار میں ہر قیمت پر خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ حالانکہ رمضان کا مہینہ ہمیں قناعت کی طرف مائل کرتا ہے اور صبر و تحمل اور سادگی کا درس دیتا ہے لیکن ہم اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں اور کھانے پینے میں اسراف سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح ہم غریب عوام اور مقررہ آمدنی والے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں جو اپنی محدود آمدنی میں کچن کے اخراجات بمشکل پورا کرتے ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ ہماری تہذیبی اور روایتی عادات کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ اسراف کی عادت ہماری تہذیبی اور روایتی زندگی سے جڑی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم نہ صرف شادی بیاہ کی رسومات بلکہ کئی ایک غیر اہم واقعات جیسے برتھ ڈے پاریٹوں، منگنی، ختنہ، حتیٰ کہ کسی عزیز کے انتقال پر بھی اسراف کے شوقین ہیں۔ ہمیں ان فضول رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے اور عوام کو اس بات کے لیے تیار کرنا چاہیے کہ وہ پارٹیوں اور تقریبات پر فضول خرچی کم کر کے زیادہ بچتیں کریں۔ اس میں نہ صرف ان کی اور انکے بچوں کی بھلائی ہے بلکہ ملک کی بھی خدمت ہو گی۔ پچھلے چند سالوں میں غذائی اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ پاکستان کے عوام بلاشبہ بہت صابر اور شاکر ہیں لیکن صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ ایوب خان کے دور میں جب چینی کی قیمتوں میں چار آنے کا اضافہ ہوا تھا تو سڑکوں پر عوام کا طوفان امڈ آیا تھا، جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس کی بات نہیں رہی تھی۔ اس وقت دکاندار ہر چیز کے منہ مانگے دام وصول کر رہے ہیں، اگر حکومت ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے میں ناکام رہتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا سیلاب اٹھے جو سب کچھ بہا کر لے جائے۔