روپے کی قدر میں گراوٹ

چند روز پہلے وزیر خزانہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی گردشی قرضوں کی مد میں 480ارب روپے کی ادائیگی کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے ۔ انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ حکومت کی نئی معاشی پالیسیوں سے مستقبل قریب میں روپے کی قدر مستحکم ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے نہ تو کوئی ٹائم فریم دیا اور نہ ہی کوئی معاشی جواز پیش کیا۔ دراصل حقیقت کچھ اور ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے 5.3 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے سٹاف کی سطح پر سمجھوتہ کیا ہے۔ اسے ستمبر کے پہلے ہفتے میں آئی ایم ایف کے بورڈ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا ۔ بورڈ کی منظوری چند ایک پیشگی اقدامات سے مشروط ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کی چند شرائط پر تو بجٹ میں عملدرآمد کا آغاز کردیا ہے۔ دیگر شرائط پر عملدرآمد ستمبر سے پہلے کرنا ہوگا۔ ان میں سے دوشرائط کا تعلق سٹیٹ بینک آف پاکستان سے ہے۔ ان پر عملدرآمد کے لیے سٹیٹ بینک زری پالیسی میں سختی لائے گا اور پالیسی ریٹ میں ایک سے ڈیڑھ فیصد تک اضافہ کرے گا۔ دوسری شرط کے مطابق لچکدار شرح مبادلہ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ سٹیٹ بینک نے اس پالیسی پر ابھی سے عملدرآمد شروع کردیاہے اور زرمبادلہ کی منڈی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ سٹیٹ بینک پچھلے کچھ سالوں سے ایف ایکس مارکیٹ میں رسد اور طلب میں توازن پیدا کرنے کے لیے مداخلت کرتا رہا ہے تاکہ زرمبادلہ کی منڈی غیرمستحکم نہ ہو۔ 2010-11ء کے اختتام پر زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً16ارب ڈالر کے قریب تھے ۔ اس کے بعد بیرونی وسائل کی آمد میں کمی اور بیرونی قرضوں کی خدمت پر کی جانے والی بھاری ادائیگیوں کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوتے گئے؛ حالانکہ زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک کمرشل بینکوں سے بھی ڈالر خریدتا رہا۔ اس کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر پگھلتے رہے اور جولائی 2013ء میں گھٹ کر صرف 5.153ارب ڈالر رہ گئے۔ 2013-15ء تک قرضوں کی خدمت کے لیے 5ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ جاری ادائیگیوں کا خسارہ (2.30ارب ڈالر) پورا کرنے کے لیے بھی فنڈز کی ضرورت ہوگی۔ اس لیے بیرونی ادائیگیوں کے رخنے پورے کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی ضرورت پڑی۔ اگر کسی وجہ سے آئی ایم ایف کا پروگرام تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے تو پاکستان کو نادہندگی کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔ اس پس منظر میں پیشگی اقدامات پر عملدرآمد ضروری ہوگیا تھا۔ یکم جون کو انٹربینک ریٹ 98.5روپے فی ڈالر تھا۔ جولائی 26کو بڑھ کر 101.40 روپے فی ڈالر ہوگیا۔ اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر اس سے بھی کم تھی۔ اس کی بڑی وجہ اس خبر کا پھیلنا تھا کہ سٹیٹ بینک نے ایف ایکس مارکیٹ سے علیحدگی اختیار کرلی ہے۔ اس سے سٹہ بازی اور ہورڈنگ شروع ہوگئی اور روپے کی قدرتیزی سے گرنے لگی۔ ترسیلات زر میں کمی کی وجہ سے بھی روپے کی قدر میں گراوٹ آئی۔ فروری میں ترسیلات زر 1028.30ملین ڈالرتھیں۔ بڑھ کر مارچ میں 1119اور اپریل میں بڑھ کر 1216ملین ڈالر ہوگئیں۔ اس کے بعد ترسیلات زرگرنا شروع ہوئیں اور جون میں 1146.7ملین ڈالر رہ گئیں۔ حکومت نے جولائی میں جو سرکولر جاری کیے ان سے زرمبادلہ کی منڈی مزید غیرمستحکم ہوگئی۔ ان سرکولر کے ذریعے ایف ایکس کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ جو شخص 2500ڈالر سے زیادہ رقم بیرون ملک بھیجے اس سے شناختی کارڈ کی کاپی حاصل کی جائے اور جو شخص بیرونی کرنسی میں ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ کا لین دین کرے اس سے انکم ٹیکس کارڈ کی کاپی حاصل کی جائے۔ اس کا مقصد شاید یہ تھاکہ معیشت کو ڈاکومنٹ کیا جائے اور ٹیکس کا دائرہ کار وسیع کرنے کی کوشش کی جائے لیکن ایف ایکس مارکیٹ پر اس کا الٹا اثر ہوا ہے۔ لوگوں نے بینکنگ کی بجائے ہنڈی حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانا شروع کردیں۔ اسی طرح منقولہ اثاثوں پر 0.5فیصد ٹیکس عائد کرنے کی وجہ سے روپے کی بجائے ڈالر میں اپنے اثاثے رکھنے کا رجحان پیدا ہوا ہے۔ وزیر خزانہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے 3ارب ڈالر کی پہلی قسط کی یکمشت ادائیگی کے لیے درخواست کریں گے۔ اس سے ایف ایکس مارکیٹ میں یہ تاثر ابھرا کہ حکومت کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور وہ بدحواس ہوکر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے ہاتھ پائوں مارہی ہے۔ ایف بی آر کو بینک اکائونٹس تک رسائی دینے سے عوام میں خوف پیدا ہوا۔ انہوں نے دھڑا دھڑ ڈالر خریدنے شروع کردیئے۔ وہ بینکوں سے پیسے نکال کر اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید رہے ہیں۔ اس وجہ سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے۔ کرنسی ڈیلرز نے ہورڈنگ شروع کردی ہے تاکہ وہ زیادہ نفع کما سکیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے منی لانڈرنگ پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات کیے‘ جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حکومت گھبراہٹ کا شکار ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے زرمبادلہ کی منڈی میں کھلبلی مچ گئی، روپے کی قدر میں کمی آتی گئی اور کرپٹ مافیا کو کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا اور اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر 104.70روپے فی ڈالر ہوگئی۔ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں پھیلائو 4روپے سے زیادہ ہوگیا ہے۔ سابق تجربے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کرنسی کی قدر گھٹنے سے معاشی ترقی کی رفتار سست پڑجاتی ہے بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ غربت بڑھ جاتی ہے۔ پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری کم ہوجاتی ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیا کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ دولت کی تقسیم مزید غیرمساویانہ ہوجاتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے پبلک قرض بھی بڑھے گا۔ روپے کی قدر میں ایک روپیہ کم ہونے سے پبلک قرض میں 60ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا اور ترقیاتی پروگرام کے لیے کم فنڈز دستیاب ہوں گے۔ اس کے علاوہ درآمدی تیل کی قیمت بڑھے گی جو بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس وقت بجلی کی لاگت اور ٹیرف میں 6روپے فی یونٹ کا فرق ہے۔ حکومت نے پاور سبسڈی کے لیے 150ارب روپے رکھے ہیں اور بجلی کے ٹیرف میں 4روپے فی یونٹ اضافہ کیا جارہا ہے۔ بجلی کے ٹیرف اور لاگت میں فرق مزید بڑھ چکا ہے۔ اس کی وجہ سے گردشی قرض دوبارہ بڑھنا شروع ہوجائے گا۔ لہٰذا ایف ایکس مارکیٹ کے اتارچڑھائو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ سٹے باز مزید نقصان نہ پہنچا سکیں۔ روپے کی قدر میں استحکام لانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اخراجات میں بڑی کمی کی جائے اور ریونیو میں قابل ذکر اضافہ کیا جائے۔ ٹیکس اصلاحات کو معرض التوا میں ڈالنے۔ سیلز ٹیکس بڑھانے اور سیونگ بینک پر ٹیکس عائد کرنے سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ اور سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوتا رہے گا۔ معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اور عوام میں پائے جانے والے اعتماد کے رخنے کو ختم کیا جائے اور معیشت کی استعداد کے مطابق ٹیکس اکٹھاکیا جائے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت نے کفایت شعاری کے لیے وزارتوں کی تعداد کم کردی ہے اور وزیراعظم نے اپنی مراعات کم کردی ہیں لیکن یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ تمام 33وزراء نے اپنی اپنی چیمبر کے لیے ایک ایک نیا ٹیلیویژن اور ایک ایک نیا ایئرکنڈیشنر خریدا ہے اور ماربل فلورنگ کرائی ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم ہائوس کے صوفوں کی پوشش اور اس کی آئوٹ لُک بہتر بنانے کے لیے جواخراجات کیے گئے ہیں وہ ان دعووں کی نفی کرتے ہیں۔ پچھلے سال کے بجٹ کا تخمینہ 2960ارب روپے تھا۔ اس سال کے اخراجات بڑھ کر 3591ارب ہوگئے ہیں۔ اس سے بھی کفایت شعاری اور اخراجات میں کمی کے دعوئوں کی تصدیق نہیں ہوتی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں