برِ صغیر میں سیاسی سکوت اور سماجی جمود کے اس عہد کا سب سے مہلک پہلو معاشی اور سماجی حالات کا آقائوں کے نکتہ نظر سے بیان اور اس ’’معاشی ترقی‘‘ کا شکار ہونے والے کروڑوں انسانوں کے حالات سے مکمل بے پروائی ہے۔میڈیا اور اشرافیہ کے دانشور گجرات (بھارت) کی معیشت کی ترقی کے راگ الاپ رہے ہیں اور اس کا سہرا ہندو بنیاد پرست وزیراعلیٰ نریندرا مودی کے سر باندھ رہے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے اسے وزیر اعظم کا امید وار نامزد کرنے سے نہ صرف دائیں بازو کی نئی انتہائیں سامنے آئی ہیںبلکہ ہندوستان کی نام نہاد سیکولر سیاست اور ریاست کا دیوالیہ پن بھی عیاں ہوا ہے۔ہندوستان کے نام نہاد قوم پرست بورژوازی اور سامراجی کارپوریٹ منصوبہ ساز کھل کر اس مذہبی جنونی شخص کی حمایت میں سامنے آ گئے ہیں۔ ہندوستان کے بڑے کاروباری گھرانے، مالیاتی تجزیہ کار اور ماہرین معیشت کی اکثریت مودی کی حامی ہے۔اکنامک ٹائمز کے ستمبر کے شمارے میں ایک سروے کے نتائج شائع کیے گئے جس کے مطابق ہندوستان کے100 کارپوریٹ مالکان میں سے 74 نریندرا مودی کو اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ برطانوی معیشت دان جِم او نیل نے لکھا کہ مودی ’’معاشیات میں اچھا ہے‘‘ اور ایسی اہلیت کا مالک لیڈر ’’ہندوستان کی اشد ضرورت ہے‘‘۔ہفت روزہGreed and Fear کے اگست 2013ء کے شمارے میں اس نے لکھا کہ’’ہندوستان کی سٹاک مارکیٹ کے لیے اب سب سے بڑی امید گجرات کے وزیراعلیٰ نریندرا مودی کی بی جے پی کے امیدوار برائے وزیراعظم نامزدگی ہے‘‘۔ بطور وزیراعلیٰ گجرات مودی نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو لانے کے لیے چین، سنگاپور اور جاپان کے دورے کیے۔نومبر 2006ء میں اس نے چین کا دورہ کیا جس کا مقصد مخصوص معاشی علاقوں (Special Economic Zones) کا مشاہدہ کرنا تھا جن کے منصوبے وہ گجرات میں بنا رہا تھا۔ہندوستان میں یہ مخصوص استحصالی علاقوں (Special Exploitation Zones)کے نام سے بدنام ہیں۔اس نے ستمبر2007ء اور نومبر2011ء میں مزید دورے کیے۔اس کے دورے کے ایک ماہ بعد چینی حکومت نے 13ہندوستانی ہیرے کے تاجروں کو رہا کر دیا جنہیں شنزن میں کسٹم حکام نے قید کر رکھا تھا۔مودی نے اسے اپنی سفارتی کوششوں اور تدابیر کا نتیجہ بتایا۔ 2011ء میں پاکستان کے بڑے کاروباری حضرات اتنے مرعوب ہوئے کہ کراچی چیمبر آف کامرس نے گجرات کی ترقی سے متاثر ہو کر مودی کو پاکستان آنے اور ممتاز کاروباری شخصیات سے خطاب کی دعوت دی۔انہوں نے مودی کو کراچی اور احمد آباد کے درمیان پرواز شروع کرنے کی بھی تجویز دی جس کی بنیاد گجرات اور سندھ کے خطوں کے درمیان تاریخی ،ثقافتی اور معاشی رشتے ہیں۔مودی پاکستان کو درپیش توانائی کے بحران کے حل میں مدد کرنا چاہتا ہے خصوصاً سندھ میں اور اس کے لیے وہ پاکستان کو ’’گجرات ماڈل‘‘ اپنانے کا مشورہ دے رہا ہے۔2002ء کے پر تشدد واقعات کے بعد سے دس برس تک برطانیہ نے مودی کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا لیکن اکتوبر2012ء میں یہ سفارتی بائیکاٹ ختم کر دیا گیا۔ بعد ازاں مارچ 2013ء میں یورپی یونین نے بھی بائیکاٹ ختم کر دیا اور اس کا جواز یہ پیش کیا کہ مودی سے بات کرنا اور انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کا تحفظ دو الگ معاملا ت ہیں۔ لیکن گجرات کے عوام کی حالت انتہائی درد ناک ہے اور مودی ٹریڈ یونین اور مزدور تحریکوں پر وحشیانہ حملے کرتا آ رہا ہے۔ ہندوستان اور عالمی بورژوا مالکان کی مودی کے لیے محبت اتفاقاً یا جذباتی بنیادوں پر نہیں بلکہ امبانی، ٹا ٹا اور دیگر کاروباری گھرانے اس کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے ہیں۔ دوسری جانب اس نے محنت کشوں کی زندگی اجیرن کر ڈالی ہے اور نجکاری جیسی ظالمانہ نیو لبرل پالیسیاں لاگو کی ہیں۔ بھوک کے عالمی پیمانے میں گجرات ہندوستان کی بد ترین پانچ ریاستوں میں سے ہے اور عالمی موازنے میں ہیٹی جیسے ممالک سے بھی بدتر ہے۔چار برس کی عمر سے کم 80فیصد بچے اور60فیصد حاملہ عورتیں خون کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ صورتحال ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے جس پر مودی ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ خواتین کو خود وزن کم کرنے کا شوق ہے۔ یہ شخص صرف 2002ء میں ہونے والے گودھرا کے مذہبی فسادات میں ملوث نہیں جس میں 2000سے زائد افراد قتل اور ہزاروں اپاہج اور تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ ظالمانہ سرمایہ داری نظام کو مسلط رکھنے کے لیے مودی کی بد نامِ زمانہ اور جارحانہ معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہزاروں بچے، عورتیں اور بزرگ قابلِ علاج بیماریوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔اس کے وزیراعظم بننے سے پہلے ہی مصائب کا شکار ہندوستان کے عوام کی وحشت ناک ذلت، بیماری، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہو گا۔ مودی کے اُبھار سے ہندوستانی حکمران طبقات کی جھنجھلاہٹ کا اظہار بھی ہوتا ہے جو محنت کشوں کی طبقاتی جڑت کو توڑنے کے لیے پہلے سے کہیں بڑے پیمانے پر مذہب کو استعمال کر رہے ہیں اور اس مذہبی منافرت کے نتیجے میں ہونے والے تشدد اور خون ریزی کو سیاسی مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔ پہلے ہی کانگریس حکومت کے ترقی کے کھوکھلے دعوے بے نقاب ہو چکے ہیں۔ شرح نمو میں تیز ترین اضافہ بھی غربت‘ بیماری اور بیروزگاری میں کمی نہیں لا سکا اور اب تو شرح نمو بھی آدھی رہ گئی ہے اور روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔افراطِ زر میں اضافہ اور شرحِ نمو میں کمی درمیانے طبقے کے لیے مزید اذیتوں کا باعث بن رہی ہے۔ بنیاد پرست رجعت کی بنیاد درمیانہ طبقہ اور چھوٹا سرمایہ دار اب شدید اضطراب کا شکار ہے اور اسے بحران کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔بزنس ان سائیڈرکے مطابق’’سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی کے ساتھ ہندوستان کو کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ پورا کرنے میں بہت دشواری کا سامنا ہے( جو گزشتہ برس مجموعی قومی پیداوار کا6.7فیصد تھا) یہ1991ء کے بعدملک کے لیے بد ترین معاشی بحران ہے جب زرِ مبادلہ کے ذخائر کے خاتمے کی وجہ سے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا تھا۔اس وقت 67ٹن سونے کی ضمانت پر 2.2ارب ڈالر قرض ملا تھا۔ اس ضمانت تک آئی ایم ایف کی رسائی سے متعلق خدشات دور کرنے کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا کو ہوائی جہاز کے ذریعے 47ٹن سونا بینک آف انگلینڈ اور20ٹن یو بی ایس میں جمع کروانا پڑا۔ اب اس طرح کے اقدامات کا زیادہ امکان نہیں ، لیکن بحران کے بڑھنے کی صورت میں ایشیا کی تیسری بڑی معیشت کی نمو بہت دشوار ہو گی۔اگرچہ معیشت دان ابھی تک معیشت کے سکڑنے کی توقع نہیں کر رہے ، لیکن اب یہ ایک حقیقی امکان بن چکا ہے‘‘۔ ہندوستانی معیشت کو لاحق بحران ہندوستانی سرمایہ داری کی کمزوری کا اظہار ہے۔66سال میںحکمران طبقات ایک جدید قومی ریاست تشکیل دینے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس نظام کو قائم رکھنے کی خاطر انہیں محنت کش عوام پر کہیں زیادہ وحشت ناک حملے درکار ہوں گے۔ہندوستان میں دنیا کی آبادی کا20فیصد آباد ہے اور دنیا کی40فیصد غربت یہاں بستی ہے۔دو تہائی سے زیادہ آبادی انتہائی غربت میں رہنے پر مجبور ہے۔ آئندہ سال مئی میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے کوئی پارٹی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا پروگرام نہیں دے رہی جو غربت اور بیماری کے خاتمے کا واحد حل ہے۔اس صورتحال میںاگر مودی جیسے آمر حکمران کو جبر کرنے کے لیے اقتدار میں لایا جا تا ہے تو ہندوستان کی بورژوازی ایک دھچکے کے لیے تیار رہے۔ہندوستانی پرولتاریہ کی انقلابی جدوجہد کی شاندار روایات ہیں۔گزشتہ چند مہینوں میں بڑی بڑی ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ مودی کا اقتدار میں آنا انقلاب کی آگ کو بھڑکا سکتا ہے۔مارکس نے لکھا تھا کہ ’’بعض اوقات انقلاب کو آگے بڑھنے کے لیے رد انقلاب کا کوڑا درکار ہوتا ہے‘‘۔ مودی کا اقتدار میں آنا یہ کوڑا ثابت ہو سکتا ہے۔