"DLK" (space) message & send to 7575

افغانستان کے صدارتی انتخابات

افغانستان میں صدارتی انتخابات کا پہلا دورہفتہ 5 اپریل سے شروع ہوگیا ہے۔ یہ برباد ملک ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر لامتناہی قیاس آرائیوں، تجزیوں اور تبصروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں اگر کسی امیداوار نے 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کیے تو کچھ ماہ بعد دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔ آخری اطلاعات تک بیلٹ پیپر پر 11امیدواروں کے نام درج تھے؛ تاہم کارپوریٹ میڈیا نے تین امیدواروں کو ''فرنٹ رنر‘‘ بنا دیا ہے۔ پہلے نمبر پر ورلڈ بینک کے سابق عہدیداراور ٹیکنوکریٹ اشرف غنی ہیں۔ موصوف دانشور بھی سمجھے جاتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے جنگجو سردار رشید دوستم سے الحاق کیا ہے۔ رشید دوستم کمیونسٹ حکومت کا اہم جرنیل تھا جس کی غداری نے اپریل 1992ء میں نجیب اللہ حکومت گرانے میں اہم کردار اداکیا۔دوستم ازبک قوم پرست ہے اور اپنی بے رحم فوجی طاقت کی وجہ سے شمالی افغانستان پر خاصا اثرورسوخ رکھتا ہے۔ پانچ سال پہلے تک اشرف غنی کی نظر میں رشید دوستم ایک 'سفاک قاتل‘ تھا لیکن وہ پشتون ہے لہٰذا ازبک آبادی کا ووٹ لینے کے لیے اب' قاتل‘ سے الحاق کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ اگر اشرف غنی صدر بنتے ہیں تو رشید دوستم اسے اپنے جارحانہ مقاصد کے لیے خوب استعمال کرے گا۔ 
کارپوریٹ میڈیا کے مطابق دوسرا اہم امیدوار ڈاکٹر عبداللہ ہے(جسے مغربی صحافی ''عبداللہ عبداللہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔) ڈاکٹر عبداللہ کا تعلق سابق شمالی اتحاد سے ہے اور وہ 2001ء سے 2005ء تک وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ 2001ء اور 2007ء کے صدارتی انتخابات میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ر ہے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ ماضی میں فرانسیسی سامراج کے قریب ر ہے اورآج کل ان کے بھارت سے قریبی مراسم قائم ہیں۔
حامد کرزئی کھل کرکسی کی حمایت نہیںکر رہے لیکن ان کے بڑے بھائی قیوم نے مارچ میں صدارتی انتخابات سے دستبردار ہونے کے بعد ڈاکٹر زلمے رسول کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ زلمے رسول طویل عرصے تک کرزئی کابینہ کا حصہ ر ہے اوراب بھی ان کے حامد کرزئی سے قریبی تعلقات ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ کرزئی نے اپنے 13سالہ دور حکومت میں بے حساب مال بنایا ہے اور اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے وہ ہرصورت میںاقتدار کے قریب رہنے اور نئی حکومت پر اثرقائم رکھنے کے متمنی ہوں گے۔کرزئی کی طرح دوسرے بے شمارنودولتیے، پولیس افسران، صوبائی گورنراور ریاستی مشینری کے اہم عہدیدار بھی اپنی لوٹ مار اورکرپشن کے پیش نظرموجودہ اسٹیبلشمنٹ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں کیونکہ اہم عہدوں میں تبدیلی سے ان کے مالی اور سیاسی مفادات پر کاری ضرب لگ سکتی ہے۔
حامدکرزئی کو امریکہ کٹھ پتلی کے طور پر برسر اقتدارلایا تھا، لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران امریکی سامراج کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے آقائوںکو آنکھیں دکھا ر ہے ہیں۔کرزئی نے ایک طرف 'غیر جانبداری‘ اور پشتون قوم پرستی کا ناٹک جاری رکھااورکرپشن کے لیے بلیک میلنگ کے مختلف حربے استعمال کرتے رہے۔ اسی پالیسی کے تحت انہوں نے سکیورٹی کا وہ معاہدہ کرنے سے انکارکیا جس کے تحت 2014ء میں نیٹوکے انخلا کے بعد بھی دس ہزار امریکی اور دو ہزار دوسرے ممالک کے فوجی افغان 'فوج‘کو تربیت اورعوام کو'تحفظ‘ فراہم کرنے کے لیے افغانستان میں تعینات رہیں گے۔ امریکہ دراصل افغانستان کی فوج کاکنٹرول اورکمان چھوڑنے کے لیے تیارنہیں اور وہ موجودہ کیفیت میں افغانستان کی کرپٹ اور ناقابل اعتبار اشرافیہ کو مکمل طور پراقتدار منتقل نہیں کرے گا۔
سٹریٹیجک وجوہ کی بناپر افغانستان پراثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے برطانوی راج اور زار روس کے درمیان صدیوں تک کھیلی جانی والی'گریٹ گیم‘ آج 'نیو گریٹ گیم‘ بن چکی ہے۔ اس کھیل میں کئی سامراجی قوتیں سٹریٹیجک برتری کے ساتھ ساتھ قیمتی معدنیات کے ذخائر پر تسلط کے لیے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ ایران، پاکستان، چین اور بھارت بھی اس چالبازی اور پراکسی جنگ میں ملوث ہیں۔ 13جون 2010ء کو نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے مختلف علاقوں میں 1000ارب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات موجود ہیں۔ پینٹاگون کی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق '' افغانستان 'لیتھیم کا سعودی عرب‘ ہے۔ لیتھیم جدید بیٹریوں میں استعمال ہونے والا اہم معدنی عنصر ہے۔ اس کے علاوہ لوہے، تانبے، سونے اور کوبالٹ کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں اور افغانستان ان دھاتوں کی کان کنی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک میں شامل ہوسکتاہے‘‘۔ چین، بھارت اور دوسرے سامراجی ممالک کے سرمایہ داراور ملٹی نیشنل اجارہ داریاں ان قیمتی ذخائر کی لوٹ مار کے لیے رال ٹپکا رہی ہیں۔ چین نے افغانستان کے صوبے لوگر میں واقع دنیا کے سب سے بڑے تانبے کے ذخیرے میس آئناک (Mes Aynak )پر2008ء سے 2010ء تک 3.5ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس مقصد کے لیے وزیر معدنیات کو 30ملین ڈالرکی رشوت دی گئی تھی تاہم سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد وزیرکو برطرف کردیا گیا۔ 2012 ء میں چین نے دریائے آمو کے پیندے میں کان کنی کرنے کے لیے حامدکرزئی اور جنرل رشید دوستم کو بھی اسی طرح نوازاتھا۔ اس معاہدے کے بعد لاکھوں بیرل تیل اورگیس کے ذخائر چین کے ہاتھ آئے ۔ اپنے ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے 80کروڑ افراد پر نظر ڈالنے کے بجائے بھارت نے افغانستان کو 2ارب ڈالرکی'امداد‘ دی ہے۔ افغانستان میں لوہے کی کان کنی پر بھارتی کمپنیاں 10ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ ایران اور پاکستان بھی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تگ و دوکررہے ہیں۔ 
افغانستان کے عوام کے لیے اپنے ہی ملک کی معدنیات، وسائل اورسٹریٹیجک اہمیت وبال جان بن گئی ہے۔ اس بربادی اور خونریزی کا آغاز 3جولائی1979ء کو امریکی سی آئی اے کے خفیہ 'آپریشن سائیکلون‘ کے ساتھ ہواتھا۔ ثور انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ڈی پی اے کی حکومت گرانے کے لیے امریکی سامراج، خلیجی بادشاہتوں اور پاکستانی ریاست نے 'مجاہدین‘ پیدا کیے۔ آج یہی مجاہدین 'طالبان‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں جن کے کئی دھڑے مختلف سامراج قوتوں کے لیے خو نریزی کر رہے ہیں۔ موجودہ کیفیت میں یہ واضح ہورہا ہے کہ 'اپنے طالبان‘ کے ذریعے حاکمیت قائم کرنے کی کچھ ریاستوں کی پالیسی زیادہ کارگر نہیں رہی ۔ طالبان کا دوبارہ افغانستان پر قبضہ زیادہ ممکن نہیں ہے کیونکہ افغانستان کے عوام اگر سامراج سے نفرت کرتے ہیں تو وہ مذہبی انتہا پسندی سے بھی بیزار ہیں۔ 
افغانستان کے انتخابات دراصل سامراجی تسلط کو 'جمہوری دستانہ‘ پہنانے کی کوشش ہیں۔ ہیومین رائٹس واچ کے مطابق افغان پارلیمنٹ کے 80 فیصد ارکان منشیات کے دھندے میں ملوث جنگی سردار ہیں۔ خواتین کی حقوق کی آواز بلند کرنے والی بے باک رکن پارلیمنٹ ملالائی جویا کے الفاظ میں ''افغان پارلیمنٹ ایک ڈرامہ ہے‘‘۔ امریکہ کے اپنے نمائندوں نے 2009ء کے انتخابات کو''دھاندلی کی انتہا‘‘ قرار دیا تھا۔ حالیہ انتخابات کے بارے میں 'اکانومسٹ‘ لکھتا ہے: ''الیکشن کمیشن کے سابق سربراہ کے مطابق افغانستان کا ہر انتخاب فراڈ ہوتا ہے۔۔۔نتیجہ کچھ بھی ہو یہ انتخابات انتہائی پرانتشار اور گندے ہوں گے‘‘۔
دنیا میں 90فیصدہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے۔اس کاروبار پر زیادہ تر طالبان اور ان کے حلیف جنگجو سردار قابض ہیں۔ یہ ''نارکو معیشت‘‘ اور افغان ریاست ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوئے ہیں۔ سامراج کی'جمہوریت‘ ہو یا طالبان کی وحشت، افغان عوام کی نمائندگی کہیں نہیں ہے۔ لیکن یہ سمجھنا کہ افغانستان کے عوام ان رجعتی قوتوں سے ہار مان بیٹھے ہیں، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سرمایہ داری اور جاگیر داری کو اکھاڑ دینے والا جنوبی ایشیا کا پہلا انقلاب اپریل 1978ء میں افغانستان میں ہی آیا تھا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد افغانستان میں ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے جس نے مذہبی جنونیوں کی بربریت اور سامراج کی درندگی دیکھی ہے۔ یہ نوجوان اس دوہرے جبر سے آزادی اور نجات کی تلاش میں ہیں۔ افغان عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس بے ہنگم خونریزی اور پاگل پن میں بھی ایک طریقہ کارموجود ہے۔ سامراج اور مذہبی انتہا پسند دونوں سرمائے کے محافظ ہیں۔ صرف ایک طبقاتی جنگ افغانستان کو رجعت، بربریت اور خون ریزی سے آزادی دلا سکتی ہے۔ انقلاب کی یہ لڑائی پورے خطے کے محنت کشوں اور مظلوموں کی مشترکہ جدوجہد سے ہی جیتی جاسکتی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں